این آر او کو گناہ کبیرہ کہنے والی حکومت اب خود این آر او سے استفادہ کر رہی ہے


وزیر اعظم عمران خان نے آج تحریک انصاف کے پارلیمانی گروپ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ اپوزیشن کے کسی لیڈر نے ان سے ’این آر او‘ نہیں مانگا۔ تاہم اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک بار اس بات پھر اصرار کیا کہ سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کرپشن پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ اور اپوزیشن لیڈروں کے خلاف نیب کے مقدمات پر کوئی مفاہمت نہیں ہوگی۔

عمران خان نے این آر او کے بارے میں اپنی ہی غلط بیانی کی خود ہی وضاحت کردی ہے حالانکہ ماضی میں بار بار اپوزیشن لیڈروں پر این آار او مانگنے اور وزیر اعظم کی طرف سے کسی بھی قسم کی معافی نہ دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ ایک موقع پر تو یہ بھی کہا گیا تھا کہ شہباز شریف اور آصف زرداری نے مقدمات سے جان چھڑانے کے لئے معافی یا این آر او کی درخواست کی ہے۔ وزیر اعظم کی ان بے سر و پا باتوں کے بارے میں سادہ لوگوں کو اس وقت یقین آنے لگا جب گزشتہ ماہ نیب کے چئیر مین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے ایک کالم نگار کو انٹرویو دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز نے مقدمات سے گلو خلاصی کے لئے رقم دینے کی پیش کش کی تھی۔ شہباز شریف نے قیام لندن کے دوران پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس الزام کی تردید کی اور چئیرمین نیب سے کہا تھا کہ وہ اپنی بات کا ثبوت پیش کریں یا ان گواہوں کو سامنے لائیں جن کے ذریعے پلی بارگین یا کسی دوسری قسم کی رعایت کے لئے کوئی درخواست کی گئی ہو۔ یا اس جھوٹے اور بے بنیاد الزام کو واپس لیا جائے۔

چئیر مین نیب نے ایسی کوئی تردید کرنا تو مناسب نہیں سمجھا لیکن اس انٹرویو کے تھوڑے دن بعد ہی اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے یہ تہلکہ خیز انکشاف ضرور کیا کہ نیب حکومتی عہدیداروں کے خلاف کارروائی کرسکتا ہے لیکن وہ موجودہ سیاسی صورت حال میں ملک میں کوئی بحران پیدا کرنا نہیں چاہتے۔ کیوں کہ حکومتی عہدیداروں کو گرفتار کرنے سے حکومت کے گرجائے گی۔ اسی پریس کانفرنس میں انہوں نے وزیر دفاع پرویز خٹک کا ذکر کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ان کے خلاف ان کی خراب صحت کی وجہ سے کارروائی نہیں کرتے۔ گویا چئیر مین نیب نے یہ واضح کیا تھا کہ نیب کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی روایت بدستور تابندہ ہے۔

آج اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نندی پور ریفرنس میں تحریک انصاف کے لیڈر اور عمران خان کے معتمد بابر اعوان کو بری کردیا۔ تاہم پیپلز پارٹی کے دور میں وزیر اعظم رہنے والے راجہ پرویز اشرف کو بری کرنے کی درخواست مسترد کردی گئی۔ قومی احتساب بیورو نے ایک ریفرنس میں بابر اعوان اور راجہ پرویز اشرف کو ملزم ٹھہرایا تھا۔ نیب کا دعویٰ تھا کہ ان دو افراد اور متعدد دیگر سرکاری عہدیداروں کی وجہ سے نندی پور منصوبہ میں ملک کو 27 ارب روپے کا نقصان ہؤا تھا۔

 گزشتہ سال ستمبر میں یہ ریفرنس سامنے آنے کے بعد بابر اعوان وزیر اعظم کے مشیر پارلیمانی امور کے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے۔ تاہم اب عدالت نے بھی انہیں بری الذمہ قرار دیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ خان نے بابر اعوان کی بریت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اس فیصلے سے تحریک انصاف کی قلعی کھل گئی ہے۔ اس طرح نیب نیازی گٹھ جوڑ کا ایک اور ناقابل تردید ثبوت سامنے آگیا ہے‘ ۔

چئیرمین نیب کے الزامات پر شہباز شریف نے تو بار بار تردید کی لیکن عمران خان یا حکومت کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ نہ ہی جسٹس (ر) جاوید اقبال کے اس الزام کو غلط قرار دیا گیا کہ اگر نیب چند سرکاری عہدیداروں کو گرفتار کرلے تو حکومت بحران کا شکار ہوجائے گی۔ وزیر اعظم یا تحریک انصاف نے چئیر مین نیب کے اس بیان پر کوئی قانونی چارہ جوئی بھی نہیں کی اور نہ ہی نیب کو کوئی درخواست روانہ کی گئی کہ چئیرمین نیب کے الزامات کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں۔

 عمران خان جن اعلیٰ اخلاقی اقدار کا دعویٰ کرتے ہیں، ان کا تقاضہ تو یہ تھا کہ وہ چئیر مین نیب کو درخواست دیتے کہ حکومت کے سیاسی معاملات وہ خود دیکھ لیں گے، نیب اپنے طریقہ کار کے مطابق پرویز خٹک ہو یا کوئی دوسرا عہدیدار، ان کے خلاف ضروری کارروائی کرے۔ تاکہ کرپشن اور بدعنوانی کے بارے میں عمران خان کے دعوؤں اور حکومت کی حکمت عملی کی صداقت واضح ہوجاتی۔

حکومت یاعمران خان اس کے برعکس جسٹس (ر) جاوید اقبال کے الزامات کو شیر مادر سمجھ کر ہضم کرگئے۔ اس دوران پشاور میٹرو میں کرپشن اور بے اعتدالی کا اسکینڈل سامنے آیا لیکن عمران خان کی نگاہ اس طرف بھی نہیں گئی۔ البتہ انہیں شریف خاندان اور زرداری کی کرپشن پر بہت تشویش ہے جسے ثابت کرنے کے لئے وہ ہر جھوٹ کو ’قومی سچائی‘ بناکر پیش کرنے پر ہر دم تیار رہتے ہیں۔ دو ہفتے قبل بجٹ پیش کرنے والے دن قوم سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے یہ دلیل بھی دی تھی کہ گزشتہ دس سال میں لئے گئے بیرونی قرضے دراصل نواز شریف اور آصف زرداری کی کرپشن کی نذر ہو گئے تھے۔ اسی لئے ملک قرضوں میں دب گیا اور یہ دونوں خاندان امیر کبیر ہوگئے۔

اس پس منظر میں یہ سمجھنا مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ وزیر اعظم احتساب اور کرپشن کو دراصل سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اسی لئے ان کی باتوں کی قدر و قیمت میں مسلسل کمی واقع ہورہی ہے۔ حالانکہ اگر این آر او سیاسی مقاصد کے لئے ملکی قوانین سے درگزر کا ہی نام ہے تو یہ این آار اور نواز شریف، شہباز شریف یا آصف زرادری کو تو نہیں ملا لیکن عمران خان کی حکومت اور اب معتمد خاص بابر اعوان اس سے استفادہ کرچکے ہیں۔

 کیا اسے قانون کی بالادستی اور سب کے لئے یکساں انصاف کا نام دیا جائے گا کہ ایک ہی ریفرنس میں ایک ہی جیسے الزام کا سامنا کرنے والے حکمران جماعت کے لیڈر تو بری ہوجاتے ہیں لیکن راجہ پرویز اشرف کو معافی ملتی ہے اور نہ ہی وہ الزام سے بری قرار دیے جاتے ہیں۔ سابقہ حکمرانوں کی کرپشن کے مقدموں میں متعدد لیڈروں کو گرفتار بھی کیا جاچکا ہے اور سزائیں بھی دی جاچکی ہیں لیکن حکومت کے عہدیداروں کی کرپشن کو نظر انداز کرنے والے چئیر مین بدستور ’احتساب‘ کے منصب پر فائز ہیں اور ان کی گرفت سے چھوٹ پانے والی حکومت اپنے منہ میاں مٹھو کے مصداق سب سے زیادہ دیانت دار اور ایماندار کہلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔

تحریک انصاف سابقہ ادوار میں ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں کو کرپشن کا ذریعہ قرار دیتی رہی ہے۔ لیکن اب اسی پارٹی کی حکومت اس اسکیم کو قومی بھلائی کا سب سے بہتر راستہ کہتی ہے۔ عمران خان بار بار قوم سے خطاب اور بیانات میں لوگوں سے اس اسکیم سے استفادہ کرنے کی استدعا کرچکے ہیں۔ گزشتہ روز جیو ٹیلی ویژن کی خصوصی نشریا ت میں عمران خان نے شرکت بھی کی اور لوگوں کو اپنی حکومت کی ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھا کر ضمیر ہلکا کرنے کا مشورہ بھی دیا۔

 اس موقع پر وزیر اعظم نے کہا کہ سابقہ حکومتوں کی بدعنوانی کی وجہ سے لوگ ٹیکس نہیں دیتے تھے کیوں کہ انہیں لگتا تھا کہ یہ ٹیکس ان پر صرف نہیں ہوں گے۔ اب انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ’میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کا ٹیکس لوگوں کی بہبود پر صرف ہوگا۔ اور کسی کو ٹیکس ادا کرنے والوں کو تنگ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی‘ ۔

حیرت ہے کہ ایک ایسی حکومت کا سربراہ یہ دعویٰ کررہا ہے جو ابھی تک سابق چیف جسٹس کے قائم کردہ ڈیم فنڈ کے مصرف کا حساب دینے سے قاصر ہے۔ ایک طرف عمران خان کہتے ہیں کہ لوگوں کو قرض اتارنے کے لئے ٹیکس ادا کرنا چاہیے دوسری طرف وہ ٹیکس کو عوام کی بہبود پر صرف کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔ اسی طرح ٹیکس دینے والوں کو ’عام معافی‘ دینے سے کیا مراد لی جائے گی؟ کیا تحریک انصاف کی حکومت میں ٹیکس دینے والوں کے سب گناہ معاف ہوجائیں گے؟

 اس قسم کی باتیں اگر عمران خان کی بدحواسی نہیں تو ان کی حد درجہ سادگی کہی جا سکتی ہیں۔ وہ ایسے وعدے اور دعوے کرتے ہیں جس کا ان کے پاس استحقاق اور ثبوت نہیں ہوتا۔ این آار او کے معاملہ پر اس رویہ کے دونوں پہلو ہی نمایاں ہیں۔ وزیر اعظم کے طور وہ کسی کو ملکی قانون سے مبرا نہیں کرسکتے۔ آج انہوں نے یہ تسلیم بھی کرلیا کہ کسی نے ان سے این آر او نہیں مانگا لیکن وہ اسے سیاسی سلوگن کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔

عمران خان کو اپنی حکومت کو ’مدینہ ریاست‘ جیسی حکومت قرار دینے کا بہت شوق ہے۔ ان کے الفاظ میں ایسی ریاست کا سربراہ سب سے پہلے جوابدہ ہوتا ہے۔ کیا وہ یہ بتا سکتے ہیں کہ کیا اس مدینہ ریاست کے سربراہ کو جھوٹ بولنے، الزام تراشی کرنے، بہتان باندھنے اور حقائق کو موڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کھلی چھٹی ہوگی یا اس کے لئے بھی کوئی سزا مقرر ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2771 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali