یوجینکس موومنٹ کیا ہے اور ہم اس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟


یہاں ‌ تک کہ 1927 میں ‌ امریکی سپریم کورٹ نے بھی یہ فیصلہ دے دیا کہ دماغی طور پر کمزور افراد کی زبردستی کی نس بندی امریکی قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتی۔ 1942 میں ‌ یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا تھا لیکن تب تک ہزاروں ‌ افرد کی جبری نس بندی ہوچکی تھی۔ ٹرمپ کے الفاظ نئے نہیں ہیں۔ یہ تعصب کئی سو سال سے چلتا آرہا ہے اور ان ”وائٹ سپراماسسٹ“ افراد کے خیالات نسل در نسل سے یہی ہیں۔

اردو پڑھنے والے افراد کے لیے اس سے ملتی جلتی ایک مثال داعش اور القاعدہ وغیرہ جیسی مذہبی شدت پسند تنظیموں کے دہشت گردوں کی دی جاسکتی ہے جن کے خیال میں ‌ مسلمان ہونا کوئی انوکھی، بقایا انسانیت سے بلند تر یا بہترین بات ہے اور خود سے مختلف نظریہ رکھنے والے مسلم و غیر مسلم انسانوں کے خلاف دہشت گردی کرنا جائز ہے۔ اس طرح‌ کی سوچ رکھنے والے انسان نہ صرف خود کو بقایا دنیا کے انسانوں ‌ سے بر تر سمجھتے ہیں بلکہ طاقت ہاتھ میں ‌ آنے پر برے سے برا قدم اٹھانے میں ‌ ہچکچاہٹ نہیں ‌ دکھاتے ہیں۔ ٹرمپ کی بنائی ہوئی سپریم کورٹ دوبارہ سے اس طرح‌ کے دقیانوسی اور نسل پرست فیصلے کرنے کی پوری طاقت رکھے گی۔

1930 میں ‌ پورٹو ریکو کے گورنر نے پورٹو ریکو کی خواتین کی نس بندیاں کروائیں تاکہ ان کے ساتھ بچے پیدا کرکے سفید فام نسل پر دھبا نہ لگے۔ 2014 میں ‌ سعودی عرب کی حکومت نے اپنے شہریوں ‌ پر پابندی لگائی کہ پاکستانی، بنگلہ دیشی اور دو مزید ممالک کی خواتین کے ساتھ شادیاں نہ کریں۔ اس طرح‌ وہ اپنی اعلیٰ سعودی نسل کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ان طاقت ور آدمیوں کے ان منفی اقدام کے پیچھے کسی طرح‌ کی سائنس موجود نہیں ہے صرف نفرت ہے۔

1976 میں ‌ گورنمنٹ اکاؤنٹیبلٹی آفس کی تفتیش سے معلوم ہوا کہ 25 سے 50 فیصد ریڈ انڈین افراد کی 1970 سے 1976 کے درمیان نس بندی کی گئی۔ یہ دیکھ کر حیرانی نہیں ہونی چاہیے کہ امریکہ میں ‌ پڑھائی جانے والی ٹیکسٹ بکس میں ‌ یہ بیان نہیں کیا گیا ہے کہ یورپی افراد نے امریکہ کے حقیقی شہریوں ریڈ انڈینز کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ ان کتابوں میں ‌ ان 95 ملین مقامی افراد کے مٹ جانے کی کوئی کہانی موجود نہیں ہے جو ہم سے پہلے یہاں رہتے تھے۔ ہر ملک کی حکومت تاریخ‌ میں ‌ گزرے ہوئے کچھ لوگوں ‌ کو حقیقت سے بڑا ہیرو بنا کر پیش کرتی ہے اور تاریخ کی پردہ پوشی کرتی ہے تاکہ مخصوص ذہن ترتیب دیے جاسکیں۔ آج انٹرنیٹ سے ساری دنیا آپس میں ‌ منسلک ہے۔ سب کو تاریخ کا تنقیدی مطالعہ کرنے اور تاریخ‌ کو دہرانے سے روکنے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ہٹلر یوجینکس موومنٹ سے کافی متاثر تھا۔ اس نے اس برتر نسل آرین کا ذکر اپنی 1934 کی کتاب مین کیمپف میں ‌ بھی کیا۔ ہٹلر نے اپنی کتاب میں ‌ یہودیوں اور خانہ بدوشوں ‌ کو کم تر نسل قرار دیا جن کا صفایا دنیا کے مستقبل کے لیے لازمی قرار دیا۔ اس کا اعتقاد تھا کہ جرمن افراد کو اپنا خون خالص رکھنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے وہ کچھ بھی کرگزرنے کو تیار تھے جس کا نتیجہ ہولوکاسٹ کی صورت میں ‌ ہمارے سامنے ہے۔ اس راستے پر کوئی بھی قوم جاسکتی ہے اور پہلے سے گئی بھی ہیں۔ ان میں ‌ سے کچھ کو ہم خود بھی ہیرو سمجھتے ہیں حالانکہ بے گناہ انسانوں کا خون بہانے میں ‌ کوئی ہیروازم موجود نہیں ہے۔

دنیا کی تاریخ‌ میں ‌ انسانوں نے خود پر اور دوسرے انسانوں ‌ پر عجیب وغریب تجربے کیے ہیں۔ اس تاریخ‌ کو پڑھ کر یہ سمجھ میں ‌ آتا ہے کہ جہاں ‌ بھی انسانوں کے پاس طاقت اور ادھوری معلومات ہوں، وہ نئی معلومات کی روشنی میں ‌ اپنے خیالات بدلنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں اور خود کو باقی انسانوں ‌ سے بہتر سمجھتے ہوں ‌ تو اس تعصب کے ساتھ وہ دنیا میں ‌ کتنی تباہی پھیلا سکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے خود ان پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

اسی لیے کسی بھی ملک کے عوام میں ‌ سماجی اور قانونی برابری کے علاوہ تعلیم و شعور اور اپنے حقوق کی آگاہی نہایت اہم ہے۔ جہاں ‌ سب لوگ ایک ہی طرح‌ سوچتے ہوں ‌ اور نئے خیالات کو سامنے نہ لایا جائے تو اس معاشرے کی نشونما رک جاتی ہے۔ امید ہے کہ اس مضمون کو پڑھ کر قارئین کو یہ بھی سمجھنے میں ‌ مدد ملے گی کہ کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے تکثیریت کی کیا اہمیت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2