جی۔20 میں بھارت کا پاک دشمن رویہ


\"edit\"بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے چین میں منعقد ہونے والی جی۔20 سربراہی کانفرنس کے دوران ایک بار پھر پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دینے کی کوشش کی۔ انہوں نے پاکستان کا نام لئے بغیر کہا کہ جنوبی ایشیا میں صرف ایک ملک دہشت گردوں کی سرپرستی کرتا ہے اور وہیں سے تخریب کار دوسرے ملکوں میں جا کر دھماکے کرتے ہیں۔ نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر میں دو ماہ سے جاری تحریک آزادی اور بھارتی افواج کے غیر انسانی مظالم کا حوالہ دینے کی بجائے اپنے مسائل کا سارا بوجھ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اجلاس سے خطاب میں پاکستان دشمن رائے کا اظہار کرنے کے علاوہ انہوں نے اس موقع پر دنیا کے دیگر ملکوں سے آئے ہوئے لیڈروں کو بھی پاکستان کے خلاف اکسانے کی کوشش کی۔ چین کے صدر ژی جنگ پنگ کے ساتھ ملاقات میں بھی پاکستان کو مسئلہ کی جڑ قرار دیتے ہوئے چینی سربراہ کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان جس طرح دہشت گردی کا گڑھ بنا ہوا ہے، اس سے چین اور بھارت دونوں کو خطرہ لاحق ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک بار پھر پاک چین اقتصادی راہداری کے خلاف اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ بھارتی وزیراعظم کی یہ کوششیں اس سفارتی حکمت عملی کا حصہ ہیں جن کے تحت ہر قسم کا جھوٹ بول کر پاکستان کے بارے میں شبہات پید اکرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اقتصادی تعاون کے ایک فورم پر خود کو دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑا چیمپئن اور پاکستان کو اس کا سرپرست قرار دینے کا واحد مقصد پاکستان پر سفارتی دباؤ میں اضافہ کرنا ہے۔ اس کے علاوہ بھارتی قیادت عالمی دارالحکومتوں اور فورمز پر کشمیر میں دو ماہ سے جاری تحریک آزادی کے بارے میں ناخوشگوار سوالات سے بچنے کے لئے بھی پاکستان کو اس شورش کا ذمہ دار قرار دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ بھارت تو صرف مٹھی بھر شر پسندوں کے تشدد کو ختم کرنے کےلئے سکیورٹی فورسز کے ذریعے کارروائی کر رہا ہے۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں پر پاکستان کی طرف سے کشمیر میں عوام کی جدوجہد کے تناظر میں عالمی سفارتی مہم چلانے اور بھارت کے مظالم اور ناانصافیوں کو سامنے لانے کی کوشش کی جارہی ہے، بھارت اپنا دفاع کرنے کےلئے جارحانہ حکمت عملی اختیار کر رہا ہے۔ اسی پالیسی کی وجہ سے دنیا میں معاشی احیا، تجارتی سہولتوں ، محاصل اور اس حوالے سے تعاون کے امور پر زور دینے کی بجائے نریندر مودی نے بہرطور پاکستان پر الزام تراشی کرنے اور دنیا کے لیڈروں کے سامنے پاکستان کی مسخ اور بدترین تصویر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ ان اوچھے ہتھکنڈوں سے مقبوضہ وادی میں ابھرنے والی تحریک اور نوجوان مظاہرین کے ساتھ بھارتی فوج کے جابرانہ سلوک کو چھپانا ممکن نہیں ہے۔ نئی دہلی سے ایک کثیر الجماعتی پارلیمانی وفد سری نگر میں کشمیری لیڈروں اور مختلف طبقہ فکر کے لوگوں سے ملاقات کے ذریعے حالات کو قابو میں لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن کشمیری عوام کے نمائندے حریت لیڈروں نے اس وفد سے ملنے سے انکار کر دیا ہے۔ کیوں کہ نئی دہلی حکومت کشمیری عوام کے ساتھ متنازعہ وادی کا سیاسی حل تلاش کرنے کےلئے بات چیت پر آمادہ نہیں ہے اور اسے مسلسل بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دیا جاتا ہے۔

بھارت نے اگرچہ شروع سے کشمیر کے معاملہ پر پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے کی پالیسی اختیار کی ہے لیکن پاکستان کی طرف سے یہ پیشکش کی گئی تھی کہ بھارت دیگر امور کو چھوڑ کر صرف کشمیر کے سوال پر بات کرنے کےلئے اپنے سیکرٹری خارجہ امور کو اسلام آباد روانہ کر دے۔ اس طرح کشمیری عوام کی خواہشات ، عالمی مسلمہ اصولوں ، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور دونوں ملکوں کے درمیان تنازعہ کی صورت حال کے تناظر میں ذمہ دار لوگوں کی طرح مذاکرات کے ذریعے کوئی قابل قبول حل تلاش کرنے کی کوشش کی جا سکتی تھی۔ بھارت نے دنیا میں اپنی سفارتی حیثیت اور امریکہ کے ساتھ مضبوط ہوتے تعلقات کے گھمنڈ میں اس متوازن اور قابل عمل پیش کش کو مسترد کر دیا اور کہا کہ پاکستان کے ساتھ صرف سرحد پار دہشت گردی کے سوال پر بات کی جا سکتی ہے۔ یہ موقف اشتعال انگیز ہونے کے علاوہ واقعاتی صورت حال کے بھی برعکس ہے۔ پاکستان نے ماضی کے مسائل کو ختم کرنے اور ملک سے دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرنے کےلئے دو سال سے ایک خطرناک اور کامیاب جنگ شروع کی ہوئی ہے۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بجا طور سے کہا ہے کہ پاکستان نے جس طرح دہشت گردوں کا مقابلہ کیا ہے اور ان کا صفایا کرنے کے لئے اقدامات کئے ہیں، دنیا بھر میں اس کی مثال تلاش نہیں کی جا سکتی۔ امریکہ اپنی سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے پاکستان پر الزام لگانے کے باوجود پاکستانی فوج کی کوششوں کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے گزشتہ دنوں بھارت کے ساتھ جامع اسٹریٹجک مذاکرات کےلئے نئی دہلی آمد کے موقع پر بھی اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

افغانستان اور پاکستان کا خطہ چار دہائیوں سے مختلف النوع جنگوں کا مرکز رہا ہے۔ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران کئی قسم کے جنگجو گروہ سامنے آئے تھے۔ ان گروہوں کو امریکہ اور اس کے حلیفوں کی اعانت حاصل تھی۔ پاکستان نے بھی امریکی مقاصد کو حاصل کرنے کےلئے ان گروہوں کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دینے کے علاوہ 30 سے 40 لاکھ افغان مہاجرین کو اپنے ملک میں پناہ دی تھی۔ان پناہ گزینوں کی بڑی تعداد ابھی تک پاکستان میں ہی مقیم ہے۔ پاکستان کی طرف سے جب بھی ان لوگوں کو واپس کرنے کا منصوبہ بنانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو کابل حکومت امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں کے ذریعے پاکستان پر اس سلسلہ میں مزید انتظار کرنے کےلئے دباؤ ڈالنا شروع کر دیتی ہے۔ حالانکہ پاکستان معاشی مشکلات کے علاوہ سکیورٹی اندیشوں کو دور کرنے کےلئے بھی افغان مہاجرین کی واپسی کو اہم سمجھتا ہے۔ اگرچہ افغان مہاجرین کی اکثریت امن پسند اور محنت کش لوگوں پر مشتمل ہے لیکن ان کے کیمپوں اور آبادیوں کو دہشت گرد عناصر بھی اپنا مسکن بناتے رہے ہیں۔ جب یہ لوگ افغانستان میں کسی قسم کے حملہ میں ملوث ہوتے ہیں تو امریکہ ، بھارت اور افغانستان کی طرف سے بیک وقت پاکستان پر الزام لگانے میں دیر نہیں کی جاتی۔

ان حالات میں بھارت اور افغانستان پر لازم ہے کہ وہ یہ جان لیں کہ اگر وہ ریجنل سیاست سے بالاتر ہو کر واقعی جنوبی ایشیا میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کو ختم کرنے کے خواہشمند ہیں تو اس مقصد کےلئے پاکستان سے تعاون کئے بغیر مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ امریکہ اور دیگر ممالک یہ جانتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کے خاتمہ کےلئے پاکستان اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اس کی حکومت اور فوج بھی اب یہ جان چکی ہے کہ دہشت گردی بنیادی طور پر پاکستان کے لئے خطرہ بن چکی ہے اور ان جنجگو گروہوں اور انہیں مالی امداد دینے والے عناصر کا خاتمہ بے حد ضروری ہے۔ اس حوالے سے آپریشن ضرب عضب کے علاوہ ملک کے مختلف خطوں میں مشکوک عناصر کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ ان اقدامات کو مستحکم کرنے کےلئے پاکستان کی حوصلہ افزائی اور اس کے ساتھ تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت جب اس کے برعکس پالیسی اختیار کرتا ہے اور کابل حکومت کو بھی پاکستان کو عاجز کرنے کےلئے الزامات لگانے پر آمادہ کرتا ہے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ نریندر مودی کی حکومت تخریبی گروہوں کی سرکوبی کی بجائے ایسے گروہوں کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ بھارتی وزیراعظم کے سکیورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوول دو سال سے اس قسم کے عزائم کا کھلم کھلا اظہار کرتے رہے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ بھارت کے مراسم اور بلوچستان میں مسلح جدوجہد کرنے والے گروہوں کی سرپرستی کے ثبوت اب سامنے آ چکے ہیں۔ بھارت صرف اپنے حجم اور اقتصادی اہمیت کی بنیاد پر شور مچا کر دنیا کو اس حوالے سے گمراہ نہیں کر سکتا۔

اقتصادی ، سیاسی اور سفارتی مجبوریوں کی وجہ سے امریکہ سمیت متعدد ممالک براہ راست بھارت کے خلاف موقف اختیار کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ لیکن بھارت کو یہ سمجھنے کی غلطی نہیں کرنی چاہئے کہ اس کے جھوٹ کو سچ مانا جا رہا ہے۔ بلوچستان سے بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری ابھی کل کی بات ہے۔ بھارت ایک طرف پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات ثابت کرنا چاہتا ہے تو دوسری طرف خود مسلح جنگجو گروہوں اور مملکت پاکستان کے خلاف فساد پر آمادہ عناصر کی مکمل پشت پناہی کر رہا ہے۔ اس نے چند منصوبوں کا جھانسہ دے کر افغانستان کو پاکستان کے خلاف اس پراکسی وار کا مسکن بنایا ہوا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف بات کرتے ہوئے نریندر مودی جب یہ کہتے ہیں کہ بھارتی حکومت کے نزدیک دہشت گرد صرف دہشت گرد ہے، اس کی کوئی دوسری شناخت نہیں ہے تو وہ صرف لشکر طیبہ یا جیش محمد کی طرف اشارہ کر رہے ہوتے ہیں۔ ان گروہوں کو اس اعلان میں شامل نہیں کرتے جو بھارتی وسائل ، اسلحہ اور تربیت کے ذریعے پاکستان میں انتشار ، بدامنی اور دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ جنوبی ایشیا کا بڑا ملک جب تک یہ دوہری پالیسی تبدیل نہیں کرے گا اور سیاسی مسائل کو مذاکرات اور سفارت کاری کے ذریعے حل کرنے کے اصول کو تسلیم نہیں کرے گا ۔۔۔۔۔۔۔ صرف پاکستان پر الزام لگانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

پاکستانی افواج اور حکومت نے بڑی حد تک دہشت گردی پر قابو پا لیا ہے۔ ان مذہبی عسکری گروہوں کے خلاف بھی کارروائی کا عزم ظاہر کیا گیا ہے جو بھارت میں دہشت گردی میں ملوث رہے ہیں۔ لیکن دہائیوں کے مسائل چند ماہ میں حل نہیں ہو سکتے۔ اس کے ساتھ ہی اگر بھارت کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کا سلسہ جاری رکھے گا اور پاکستان کی دشمنی میں ہر مثبت کوشش کو مسترد کرے گا۔ سی پیک CPEC جیسے تعمیری اور مثبت منصوبے کو سبوتاژ کرنے کےلئے سازشیں کرے گا تو اس علاقے میں قیام امن خواب ہی بنا رہے گا اور اس کی ساری ذمہ داری بھارت پر عائد ہو گی۔

بھارت کو یہ جاننے اور سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ گو کہ امن سب کی ضرورت ہے لیکن بھارت کےلئے یہ اہم ترین ہے۔ ایک ارب سے زائد آبادی کے ملک کو کثیر آبادی کی ضرورتیں پوری کرنے کےلئے جنگجوئی کا رویہ اختیار کرنے کی بجائے اقتصادی و علاقائی تعاون کے ذریعے امن کی خواہش اور کوشش کرنی چاہئے۔ صرف جنگ ہی نہیں، جنگی حالات پیدا کرنے کا زیادہ نقصان بھی بھارت کو ہی ہو گا۔ اس وقت عالمی سرمایہ دار بھارت کا رخ کر رہے ہیں لیکن اگر کشمیر میں عاقبت نااندیشانہ حکمت عملی اور پاکستان دشمنی میں تخریب کاروں کی سرپرستی کی وجہ سے حالات دگرگوں ہوئے تو بھارتی منڈیوں کو سونے کی کان سمجھنے والوں کو راہ فرار اختیار کرتے بھی دیر نہیں لگے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments