پیچیدہ مسائل ہنر اور سلیقہ مانگتے ہیں، غصہ یا جنون نہیں


 

میں اپنے معاشرے کی ساخت کو جانتے ہوئے گزارش کرتا ہوں کہ اگر اس وقت جیل میں بیٹھے نواز شریف کو کچھ ہو گیا تو لاہور میں داتا صاحب کے بعد دوسرا مزار، نواز شریف کا ہو گا۔ سوشل میڈیا کے چنگھاڑتے تجزیہ نگار اور حکومتی ترجمان جو اس وقت اپنا کیرئیر بناتے، نواز شریف کو گالیاں نکال کر نوکری بچا رہے ہیں، یہ سب اپنی جان بچانے کی کوششیں کرتے سکرین پر نواز شریف کو عظیم لیڈر قرار دے رہے ہوں گے اور اپنی دی ہوئی گالیوں کو صحافت یا سیاست قرار دے کر بچنے کی منتیں کر رہے ہوں گے۔

یہ خوف یا پریشانی وہاں بھی پائی جاتی ہے جہاں پائی جانی چائیے کہ انہوں نے اسی ملک میں رہنا ہے جہاں ایک مزار پہلے ہی ان کی جان نہیں چھوڑتا اور نواز لیگ نے بھی اسی ملک میں رہنا ہے۔ تحریک کا معاملہ بالکل جدا ہے۔ وہاں چین آف کمانڈ تو دور کی بات، سیکنڈ ان کمانڈ بھی کوئی نہیں ہے۔ جو کچھ بھی ہے خان صاحب کی بدولت ہے اور ان کے ساتھ ہی چلا جائے گا۔ حالت یہ ہے کہ آج بھی تمام طاقت کے ساتھ عمران خان اپنے جانشین کا اعلان کر دیں تو آدھی پارٹی راتوں رات بکھر جائے گی لہذا عمران خان وہ تمام رسک لے سکتے ہیں جس کی قیمت انہیں ادا نہیں کرنی۔ میں سادہ انسانی نفسیات کی بات کرتا ہوں۔ آپ بتا دیں کہ اگر آپ کی زندگی کو پاکستان میں شدید خطرات لاحق ہوں اور آپ کی اولاد برطانیہ میں رہتی ہو اور اس کا پاکستان آنے کا کوئی ارادہ نہ ہو تو آپ ریٹائیرڈ زندگی کہاں گزارنا پسند کریں گے ؟

رانا ثنا اللہ کی بے ہودہ انداز میں کی گئی گرفتاری جس سے اب عمران خان بے خبری برت رہے ہیں یا ہر وہ دوسری آگ جو خان صاحب لگاتے چلے جا رہے ہیں، اس کو بجھانا ان کے بس کی بات نہیں، وہ کسی بھی منحوس انہونی کی صورت میں یہاں سے بھاگ جائیں گے جس بعد ملبہ انہی کو سمیٹنا ہو گا جن کے پاس بھاگنے کا آپشن نہیں۔ کیا آپ مان سکتے ہیں کہ شیخ رشید جیسا منجھا ہوا کھلاڑی اپنے طور پر خان صاحب کے سامنے یہ نعرہ مستانہ لگانے کی جرات کرے کہ نواز شریف اور آصف زرداری کو ملک سے جانے دو، اس طرح یہ پیسہ نہیں دیں گے۔ یہ شیخ رشید نہیں، کوئی اور بول رہا ہے۔

ملکی معیشت کو دستاویزی شکل دینے کی مخالفت کوئی پاگل ہی کرے گا مگر یہ طریقہ کیا ہے کہ سب کاروبار ہی بند ہونے پر آ جائیں۔ دہائیوں کی لگائی گرہیں کھولنا نہایت صبر، ہنر اور حوصلے کا، کام ہے۔ غصے میں تو پورے گچھے کو آگ ہی لگائی جا سکتی ہے مگر اس کا نتیجہ راکھ ہو تا ہے جس کے بعد دھاگہ ہی بے معنی ہو جائے گا، گرہ ہو نہ ہو۔

بھارت میں مودی دوبارہ منتخب ہو چکا ہے، ہم تالیاں بجا بجا کر اس کو مبارکباد دیتے تھک نہیں رہے اور اس کے انتقام کی آگ بجھنے میں نہیں آ رہی، افغانستان کے صدر اشرف غنی کے پاکستان کے دورے کو کابل میں ہوا تازہ حملہ نگل چکا، افغانستان کا میڈیا اس وقت پاکستان کے بارے میں کیا کہہ رہا ہے ذرا وقت نکال کر سن لیں۔ امریکی صدر ٹرمپ، اپنے ملک میں انتخابی مہم چلانا شروع کر چکا ہے، اور آج اس نے افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کی کوششوں یا تجویز کو امریکہ کے لئے خطرناک قرار دے دیا ہے جو اس کے فوجی جنرلز کا دیرینہ مطالبہ تھا۔ پاکستان نے حال ہی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے عارضی رکن کی نشست کے لئے اپنا ووٹ بھارت کو ڈال دیا ہے جس کا کوئی خاطر خواہ جواب ابھی تک نہیں ملا۔ پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغانستان کو مشرقی سرحد تک راستے کی پیشکش کی ہے جو کہ روایتی سوچ میں انقلاب کی حیثیت رکھتی ہے مگر اس کا جواب بھی ابھی تک وہ نہیں ملا جس کی توقع کم از کم میں کر رہا تھا۔ ایسا کیوں ہے ؟ ہمسائے کس تیاری میں ہیں۔

میرا پختہ یقین ہے کہ پاکستان کی مالی ہی نہیں، سماجی مسائل کا حل بھی ہمسایوں کے ساتھ امن میں جڑا ہے۔ جنرل باجوہ کی بات قابل غور ہے کہ آج کے دور میں، ملک اکیلے نہیں بلکہ خطے ترقی کرتے ہیں۔ اس خطے میں ترقی بھارت اور چین میں تو نظر آتی ہے، یہ ہم ہیں جو پھنستے جا رہے ہیں۔ عمران خان کبھی نہیں مانیں گے کہ پاکستان کی معیشت، ہتھکڑی اور جنازوں سے نہیں بلکہ کاروبار کے چلنے سے چلے گی۔ وہ یہ ہی کہیں گے کہ اڑا دو، دبوچ لو، میں ان کی چیخیں نکلوا دوں گا۔ جو روایات انہوں نے ڈال دی ہیں اس کے بعد میری دعا ہے کہ عمران خان، حکومت اور سیاست یا ملک سے سلامتی کے ساتھ نکل سکیں۔ بہرحال اگر وہ اپنے دور حکومت میں صرف بھارت کے ساتھ ہی کوئی مستقل امن کی صورت نکال جائیں تو یہ ایک قدم ہی ان کی سب غلطیوں کی تلافی کر دے گا۔ مگر مجھے خیال ہے کہ شاید میں کچھ زیادہ ہی امید لگا گیا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2