عمران خان: فسطائی سوچ آپ کو لے ڈوبے گی


یہ کارروائی دراصل تحریک انصاف یا عمران خان کے ایجنڈے کا حصہ نہیں ہے۔ بجٹ منظور کروانے سے لے کر سیاسی معاملات طے کرنے کے عمل میں یہ پارٹی اور اس کا چئیرمین سخت گیر رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ وہ یکے بعد دیگرے بیانات میں سیاسی مخالفین پر حملہ آور ہوتے ہیں اور الزام تراشی اور طعنہ بازی کے گھٹیا ہتھکنڈوں کے ذریعے ان سیاسی عناصر کے خلاف عوام کے دل میں نفرت پیدا کرتے ہیں۔ گزشتہ روز ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے اسی رویہ کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے اس بات پر حیرت اور غصہ کا اظہار کیا کہ رمضان کے دوران کھانے والے ایک شخص کو چھے سال سزا ہوتی ہے اور وہ جیل میں ہی مر جاتا ہے لیکن قوم کی دولت لوٹنے والے جیل میں ائیر کنڈیشننگ کی سہولتیں مانگتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان کے نزدیک نئے پاکستان میں انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ ان لٹیروں سے یہ سب سہولتیں واپس لے لی جائیں۔

بھوکے عوام کی اکثریت کو اشرافیہ کے خلاف یہ دل خوش کن باتیں سن کر بہت اچھا لگے گا اور وہ کچھ وقت کے لئے ضرور اپنی بھوک بھول کر وزیر اعظم کی باتوں پر تالیاں پیٹنے پر مجبور ہوں گے۔ لیکن اس طرح کی تقریروں سے نفرت اور شدت پسندی کا جو بیج معاشرے میں بویا جا رہا ہے اس کا نشانہ صرف عمران خان کے سیاسی دشمن ہی نہیں بنیں گے۔ بلکہ یہ آگ پھیل گئی تو ان کا اپنا نشیمن بھی اس کے شعلوں سے محفوظ نہیں رہے گا۔ وزیر اعظم کو تقریروں میں اس قسم کا موازنہ کرنے کی بجائے یہ بتانا چاہئے تھا کہ کیا انہوں نے قومی اسمبلی میں اپنی پارٹی کو ہدایت کردی ہے کہ وہ رمضان میں روزہ نہ رکھنے والے کو غیر انسانی سزائیں دلوانے والے قوانین کو تبدیل کروائیں؟ یا صرف نعرے لگوانے اور تالیاں سننے کے لئے ہی اس کا حوالہ کافی ہے؟

اسی طرح جن سیاست دانوں کو عمران خان اور ان کے ساتھی چور لٹیرے کہہ کر سیاسی عناد کا اظہار کرتے ہیں، ان کے خلاف مقدمات قائم ہیں۔ ان میں سے اکثریت کو اس ملک کے عدالتی نظام نے سزا نہیں دی یا زیریں عدالتوں سے دی جانے والی سزاؤں پر اعلیٰ عدالتوں سے فیصلے آنا باقی ہیں۔ حیرت ہے کہ ملک کا وزیر اعظم اس کے باوجود غیرذمہ دارانہ بیان بازی سے گریز کرنا ضروری نہیں سمجھتا۔

عمران خان کو اگر ملک کے نظام پر یقین ہے اور اگر وہ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ سب کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک ہونا چاہئے تو وہ اپنے نیب زدہ ساتھیوں سے بھی کنارہ کشی کا اعلان کرتے۔ یا سپریم کورٹ سے نواز شریف کی طرح ’جھوٹا اور خائن‘ قرار دیے جانے والے جہانگیر ترین کو معتمد خاص کے منصب پر فائز نہ کرتے۔ ان کی باتوں اور عمل میں یہ تضاد ان کے سیاسی کم ہمتی کے علاوہ ذہنی پسماندگی کی دلالت بھی کرتا ہے۔ اس وقت جس شدت سے سیاسی مخالفین اور آزاد رائے کا اظہار کرنے والے صحافیوں کے خلاف نفرت کی مہم چلائی جارہی ہے، اس کا واحد مقصد تحریک انصاف کی ناکام حکمرانی کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالتے ہوئے خود سرخرو ہونا ہے۔ لیکن اس طرز عمل کے دوررس سیاسی اور معاشرتی عواقب پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جارہی۔

حکومت معاشی حکمت عملی میں مکمل طور سے ناکام ہو کر فیصلہ سازی کا سارا اختیار آئی ایم ایف جیسے اداروں کے سپرد کرچکی ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو 6 ارب ڈالر کا پیکیج دیتے ہوئے جو اعلان جاری کیا گیا ہے، اس میں اس کے واضح اشارے موجود ہیں کہ ملک کی مالی پالیسیاں کس طرح چلائی جائیں گی۔ حتی کہ آئی ایم ایف نے دہشت گردی کے خلاف ایجنڈے کو بھی پاکستان کے ساتھ اپنے مالی تعاون کے معاہدہ کا حصہ بنایا ہے اور حکومت اسے اپنی کامیابی سمجھ رہی ہے۔ آئی ایم ایف کے اعلامیہ میں اگر کوئی بات غیر واضح رہ گئی تھی تو وزیر اعظم کے مشیر مالیات عبدالحفیظ شیخ نے آج پریس کانفرنس میں اس کی کسر پوری کر دی ہے۔ سخت معاشی اقدامات کی نوید دیتے ہوئے مہنگائی بڑھنے اور ڈالر کی قیمت میں اضافہ کا بالواسطہ فیصلہ صادر کیا ہے۔

حفیظ شیخ کی پریس کانفرنس کے حوالے سے بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ وزیر اعظم کے مشیر کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کا قرضہ ملنے کے بعد دیگر عالمی اداروں سے قرض ملنے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ انہوں نے قوم کو یہ خوش خبری بھی سنائی ہے کہ پاکستان کو آئندہ تین برس کے دوران مختلف عالمی اداروں سے 38 ارب ڈالر کے قرض ملنے کی امید ہے۔ گزشتہ دس ماہ کے دوران لئے گئے پندرہ سولہ ارب ڈالر کے قرضوں کو اس عدد میں شامل کرلیا جائے تو یہ رقم 50 ارب ڈالر سے تجاوز کرجائے گی۔ اسی پریس کانفرنس میں حکومت کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے حفیظ شیخ نے بتایا کہ سابقہ حکومتوں نے 31 ارب ڈالر قرض کا بوجھ چھوڑا تھا۔ اگر غیر ملکی قرضہ لینا اتنا ہی برا کام ہے جتنا عمران خان اور ان کے وزیر و مشیر بتاتے ہیں تو وہ خود ملک کو مزید زیر بار کرکے کون سے مسائل حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

حکومت اور اس کے گماشتے ملک میں سیاسی و معاشرتی ہیجان اور نفرت پھیلا کر جمہوریت اور بنیادی حقوق مسدود کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ مخالف سیاسی قوتوں کو ختم کرکے اور اختلافی آوازوں کو دبا کر ملک پر شخصی حکومت مسلط کرنے کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ سپریم کورٹ سمیت آئین کے محافظ سب ادارے فی الوقت محو تماشہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali