عمران خان: فسطائی سوچ آپ کو لے ڈوبے گی


پاکستان میں سوشل میڈیا پر حکمران تحریک انصاف کے حامیوں نے ’ پاکستان دشمن صحافیوں کو گرفتار کرو‘ کے نام سے ایک پیغام ٹویٹ پر ٹرینڈ کیا۔ روزنامہ ڈان کی رپورٹ کے مطابق دن کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا جب یہ ہیش ٹیگ سب سے زیادہ ٹرینڈ کررہا تھا۔ اس ٹوئٹ کو اس دوران 28 ہزار لوگوں نے شئیر کیا۔ اس ہیش ٹیگ پر تبصرہ کرنے والے ایک صارف نے مخالف رائے رکھنے والے صحافیوں کو انتشار و انارکی کا ذمہ دار اور ملک کے مسائل کی جڑ قرار دیا۔ جبکہ ایک اور تبصرہ کرنے والے نے یہ مطالبہ کیا کہ ’تمام پاکستان دشمن صحافیوں کو پھانسی دے دو‘۔

سوشل میڈیا پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قسم کے ٹوئٹ حکمران جماعت کے حامی گروہ خاص طور سے ایک مہم کے طور پر چلاتے ہیں اور ان میں ظاہر کی گئی رائے کا عوام کے خیالات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ملک میں سیاسی ہیجان کے بعد صحافیوں کے خلاف چلائی جانے والی اس مہم سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہونا چاہئے کہ حکومت جمہوری رائے کو متاثر کرنے اور ملک میں شدت پسندانہ طریقہ کار عام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتی۔ وزیر اعظم سے لے کر ان کے معاونین کی باتیں اس مؤقف کا واضح ثبوت فراہم کرتی ہیں کہ عمران خان کی نگرانی میں کام کرنے والی حکومت اگرچہ انتخاب جیت کر برسراقتدار آنے کی دعویدار ہے لیکن وہ مخالف رائے کو دبانے اور ملک میں فسطائی ہتھکنڈے اختیار کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ اگرچہ مقبولیت پسند نعرے لگاتے ہوئے انتہاپسندی کو فروغ دینے کا چلن پوری دنیا میں جمہوریت اور بنیادی حقوق کے لئے خطرہ کا سبب بنا ہؤا ہے لیکن پاکستان جیسے ملک میں اس کا فروغ وسیع تر معاشرتی تصادم اور اس کے نتیجہ میں خانہ جنگی کا موجب ہوسکتا ہے۔

یہ طرز عمل خاص طور سے پاکستان میں انتہا پسندانہ سیاسی، مذہبی اور سماجی رجحانات کی روشنی میں نہایت بھیانک اور پریشان کن ہے۔ پاکستان گزشتہ دو دہائی کے دوران اس ملک کے مختلف گروہوں کی جانب سے پھیلائی گئی انتہاپسندی کا ہر سطح پر خمیازہ بھگت رہا ہے۔ شروع میں مقبوضہ کشمیر میں سیاسی بے چینی پیدا کروانے کے لئے جن گروہوں کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی۔ یا اس سے بھی پہلے جب افغانستان میں سوویٹ افواج کے خلاف ’جہاد‘ کرنے کے لئے جو مجاہدین پیدا کئے گئے تھے، وہ اب تک کسی نہ کسی شکل میں پاکستان کے گلے کا طوق بنے ہوئے ہیں۔ اب امریکہ کے علاوہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس جیسے ادارے پاکستان کے خلاف سفارتی اور معاشی گھیرا تنگ کئے ہوئے ہیں۔

امریکہ کو اگر افغانستان سے نکلنے کی جلدی میں افغان طالبان کے ساتھ معاہدہ کے لئے پاکستان کی ضرورت نہ ہوتی تو اب تک پاکستان ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ پر شامل کیا جا چکا ہوتا۔ اس طرح برآمدات کی جو رہی سہی امید باقی تھی وہ بھی دم توڑ جاتی۔ امریکہ کے پاکستان سے وابستہ اس مفاد کے باوجود ایف اے ٹی ایف کے حالیہ اجلاس میں پاکستان کو بلیک لسٹ سے بچنے کے لئے اکتوبر تک کی مہلت دی گئی ہے۔ اسی مقصد سے منی لانڈرنگ کے خلاف قانون سازی کرنے کے علاوہ سابقہ چہیتے جہادی لیڈروں کے خلاف بھی مقدمات قائم کئے جا رہے ہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت البتہ ان اقدامات پر مجبور ہونے کے باوجود ملک میں انتہا پسندی کے فروغ کو اپنی بقا اور باقی ماندہ مدت پوری کرنے کا واحد ذریعہ سمجھتی ہے۔ اس لئے ایک طرف منی لانڈرنگ ہو یا دہشت گردوں کی مالی معاونت کے قوانین، حکومت سیاسی مخالفین پر ان کا اطلاق کر کے مخالف سیاسی آوازیں دبانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ جس طرح سوشل میڈیا پر صحافیوں کو پھانسی دینے کی رائے کو عام کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اسی طرح سیاسی مخالفین کو ہر ممکن بدنام کرنے اور دبانے کے لئے نعرے بازی اور دھمکیوں کے کسی ہتھکنڈے سے گریز نہیں کیا جاتا۔

کچھ ہی عرصہ پہلے ایک وزیر نے لائیو ٹی وی ٹاک شو میں پانچ ہزار لوگوں کو پھانسی دے کر ملکی مسائل حل کرنے کا راستہ دکھایا تھا۔ اس کے بعد ایک دوسرے وزیر نے شادی کی ایک تقریب میں ایک سینئر صحافی اور اینکر کو گالیاں دیں اور پھر منہ پر طمانچہ جڑتے ہوئے اعلان کیا یہ ’زرد صحافت کے منہ پر تھپڑ‘ ہے۔ گو کہ وزیر اعظم عمران خان نے بعد میں صحافی کو فون کرکے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس کی دل جوئی کرنے کی کوشش کی لیکن پانچ ہزار شہریوں کو پھانسی دینے کی خواہش رکھنے والے یا صحافیوں کو زد و کوب کرکے ’زرد صحافت‘ کا خاتمہ کرنے والے وزیر نے اپنے کہے اور کئے پر کسی پشیمانی کا اظہار نہیں کیا۔ نہ ہی وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کے ان نونہالوں یا پارٹی نے ان اہم اعہدیداروں کے خلاف کوئی کارروائی کرنا ضروری سمجھا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا  بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali