رانا ثناءاللہ کو خطرہ ہے


باقیوں کے ساتھ کیا ہو رہا تھا اس کے متعلق پنجاب یونیورسٹی کے سابق وی سی ڈاکٹر مجاہد کامران خصوصاً باتھ رومز تک میں سی سی ٹی وی کیمروں کے بارے میں بتا چکے ہیں۔ اگر چہ نیب حکام نے بعد میں اس الزام کی تردید کردی تھی زیر حراست لوگوں کو تنگ کرنے کا سلسلہ ن لیگ کی قیادت کے لیے نیا نہیں، نواز شریف جب اٹک قلعہ میں تھے تو سانپ، بچھو، چھوڑنے، اہل خانہ کی خیریت کے متعلق غلط اطلاعات دینے اور مارپیٹ کے واقعات بھی پیش آتے رہے۔

وہ واقعہ تو اکثر لوگوں کے علم میں ہے کہ جب گورنر ہاؤس مری میں نظربندی کے دوران انہیں گرمیوں والے کپڑوں میں سرد موسم کے سامنے جھونک دیاگیا۔ اب جو ہو رہا ہے یہ کئی حوالوں سے سنگین ہے۔ یہ اعلان کیے جا رہے ہیں کہ کرپشن پر گرفتار ارکان اسمبلی کو پروڈکشن آرڈر کا حق نہیں۔ یقیناً منشیات کیسز پر بھی ایسا ہی ہوگا۔ لیکن بھائی یہ پاکستان ہے۔ اگر آئین اور قوانین موجود ہیں توایسا ممکن نہیں۔ اگر کوئی قانون روندنا چاہتا ہے تو اس کی مرضی، کیونکہ اس کی بیک بہت سٹرونگ ہے۔

دوسرے ہمارے ملک میں کوئی بھی طاقتور شخص کسی بھی آدمی پر کوئی بھی کیس بنوا سکتا ہے اور ریاستی ادارے چاہیں تو کیا نہیں کر سکتے؟ یہ مقد مہ بھی بنایا جا سکتا تھا کہ ایبٹ آباد کے جس بڑے کمپاؤنڈ میں اسامہ بن لادن رہائش پذیر تھا وہ رانا ثناءاللہ کی ملکیت تھا، کے پی کے کے پٹواریوں سے پچھلی تاریخوں میں اس کے کاغذات بھی بنوائے جا سکتے تھے۔ رانا ثنا اللہ پر منشیات کیس اس کی کلاسیکل مثال ہے۔ نظر آرہا ہے کہ ابھی اورگرفتاریاں بھی ہوں گی اور ان کے ساتھ بھی سختی کی جائے گی۔

ایک اور لیگی رہنما اور سابق وزیر رانامشہود بتا چکے ہیں کہ انہیں لوٹانہ بننے پر جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔ رانا ثنا اللہ اوران کے اہل خانہ نے بھی جیل میں کسی ممکنہ حملے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ یہ بہت خطر ناک بات ہے لیکن اس سے پہلے خود نواز شریف کے ساتھ اڈیالہ جیل میں یہ ہو چکا ہے کہ انہیں یہ کہہ کر با جماعت نماز پڑھنے سے روک دیا گیا کہ مسجد میں آپ پر حملہ ہو جائے گا۔ یہاں تک اطلاعات ہیں کہ ان کی بیرک کے باہر ایک مخصوص تنظیم جو فرمائشی دھرنے دینے کا کام کرتی رہی ہے کے کارکنوں سے نعرے لگوائے جاتے تھے تاکہ دل کا مریض سخت ذہنی تناؤ کا شکار رہے۔ یہ بھی سنا ہے کہ خفیہ کیمروں کے پیش نظر اڈیالہ جیل میں دوران قید مریم نوازکوہر وقت الرٹ رہنا پڑتا تھا۔ اس طرح کے واقعات بظاہر غیر ا نسانی لگتے ہیں لیکن اس کی تفصیلات سن کر ہماری سپر رولنگ ایلیٹ کافی پیتے ہوئے زوردار قہقہے لگاتی ہے۔

ا ہلیہ کے مطابق جمعرات کو رانا ثناءاللہ ملاقات کے لئے آئے تو نڈھال تھے۔ دو سرکاری افراد انہیں چند منٹ کی ملاقات کے لئے سہارا دے کر لائے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کی صحت کو سنگین خطرات لاحق ہیں اور مسائل بڑھائے جا رہے ہیں۔ سادہ سی بات ہے ایک بیمار شخص کی ادویات کے ساتھ صرف ایک روز کا کھانا پانی روک لیا جائے تو اسے اٹھا کرہی لانا پڑے گا۔ 2014 ءسے ملک میں نت نئے تجربات ہو رہے ہیں اللہ نہ کرے کہ ایسا تجربہ بھی ہو کہ خوراک، دوا، روشنی کے بغیر کوئی بندہ کب تک ہتھیارنہیں ڈالتا۔

راناثناءاللہ کو اعصابی طور پر توڑنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے، شاید اسی لیے انہیں اس کڑی آزمائش سے گزرنا پڑ رہا ہے ایسے میں صرف ایک پارٹی نہیں اپوزیشن جماعتوں کو مل کر ایک ہی لائحہ عمل طے کرنا ہو گا۔ ورنہ ایک کو ریلیف دوسرے کو تکلیف کاسلسلہ پوری حزب اختلاف، آزاد میڈیا اور غیر جانبدارانہ عدلیہ کوٹھکا نے لگانے تک جاری رہے گا اور حکومت مخالفین کے بازواور گردنیں مروڑنے کے لئے نئے نئے فارمولے آزمائے جاتے رہیں گے۔

بعض اب بھی حیرت سے پوچھ رہے ہیں کہ رانا ثناءاللہ جیسی منجھی ہوئی سیاسی شخصیت کو ہیروئین جیسے انتہائی سنگین کیس میں کیوں پکڑا گیا جس کی سزا موت ہے، اس کا جواب بالکل واضح ہے کہ یہ پی ٹی آئی حکومت کے لیے اتنا ہی بڑا تحفہ ہے جتنا عا م انتخابات اور حکومت انہیں سونپنے کی صورت میں دیا گیا۔ جویہ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر یہ ساری کارروائی رانا ثناءاللہ کے خلاف ہی کیوں گئی تو سب جانتے ہیں کسی بڑی احتجاجی تحریک کے حوالے سے رانا ثناءاللہ کا نام اور کام کسی سپر سٹار سے کم نہیں۔ یہ سارا جال احتجاج کو شروع ہونے سے پہلے ہی نیست و نابود کرنے کے لئے بچھایا گیا۔ لیکن جس روز مسلم لیگ ن یا مشترکہ اپوزیشن تحریک چلانے کی پوزیشن میں آگئیں تورانا ثناءاللہ کے خلاف یہ ساری کارروائی الٹی پڑ جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2