حیدر منزل کے آخری ایام


سندھ کی سیاست میں جی ایم سید کا اہم کردار رہا ہے، پاکستان کے قیام کی قرارداد جی ایم سید نے سندھ اسمبلی سے پاس کروائی تھی۔ جی ایم سید نے پاکستان کی حمایت سے مخالفت تک کا سفر کیا اور سندھودیش کا نعرہ لگا یا۔ سندھ کی تاریخ جی ایم سید کے بغیر ادھوری ہے۔ اب جیئے سندھ کی سیاست سندھ میں دم توڑ چکی ہے اس کے اکثر کارکنان یا ہمدرد کنارہ کش زندگی گزار رہے ہیں یا جیئے سندھ کی نرسری میں پلنے والے اکثر لیڈر تھک ہار کر پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز یا پی ٹی آئی میں شامل ہوچکے ہیں اور اکثر کو یہ ارمان ہے کہ ہم نے اپنی زندگی کے سنہرے دن ایک ایسے خواب کی تعبیر تلاش کرنے میں گزارے جس کا حقیقت سے دور تک کا تعلق نہیں۔ قوم پرست سیاست سے ابتدا کرنے والے کافی لیڈران کو میں نے ککھ پتی سے لکھ پتی جسے اب کروڑ پتی کہہ سکتے ہیں بنتے دیکھا ہے۔ شاہ محمد شاہ نے مسلم لیگ، گل محمد جکھرانی نے پیپلز پارٹی میں جانے میں ہی اپنی بھلائی سمجھی۔

جی ایم سید کے خاندان نے کبھی بھی جیئے سندھ کی سیاست کو اون نہیں کیا باقی جی ایم سید کی سالگرہ اور برسی پر ہر دھڑے کو پروگرام کرنے کا خرچہ دیتے ہیں۔ جی ایم سید کے دو بیٹے امداد محمد شاہ اور سید امیر حیدر کی اولاد بھی تتربتر کا شکار ہے امداد محمد شاہ کے بیٹے جلال محمود شاہ اور زین شاہ جن دونوں کی تعلیم کیڈٹ کالج پٹارو سے ہوئی ہے وہ سیاست میں سندھ یونائیٹد پارٹی کے نام سے میدان عمل میں ہیں۔ جس کو سندھ میں 2018 کے عام انتخابات میں 2 لاکھ 80 ہزار ووٹ ملے تھے جو قومی اسمبلی میں ووٹ بنک کے حساب سے 14 ویں نمبر پر رہی۔ جی ایم سید کا ایک پوتا منیر حیدر شاہ جو سن ٹاؤن کامیٹی کا چیئرمین ہے اس نے اپنے شہر کو بنانے میں بھرپور کردار نبھایا ہے۔

جی ایم سید کی ذاتی رہائش جس میں اس نے اپنی زندگی کا بہت بڑا عرصہ نظربندی کی زندگی گزاری اس کو سندھ کے لوگ حیدر منزل کے نام سے جانتے ہیں۔ جو محفل شاہ خراسان کراچی کے نزدیک سچل فقیر روڈ پر واقع ہے جس کا گہر نمبر جے ایم 177 ہے۔ میں نے حیدر منزل کراچی کے نام سے گوگل پر سرچ کر رہا تھا مگر گوگل نے ساتھ نہ دیا اور اس طرح کی عمارت گوگل پر موجود نہیں ہے مگر نشترپارک کے ساتھ اس کا وجود کچھ دنوں کا مہمان ہے یہ ملکیت میں سندھ یونائیٹد پارٹی کے سربراہ سابقہ اسپیکر سندھ اسمبلی سید جلال شاہ کے زیر استعمال تھی اس کی فروخت کی خبریں 4 ماہ پہلے اخبارات کی زینت بنیں مگر ان کی جلال شاہ کی پارٹی نے تردید کی مگر وہ جھوٹ بولا گیا تھا اور اب یہ عمارت فروخت ہوچکی ہے اور مسمار کی جا رہی ہے۔

میرے ریئل اسٹیٹ کے دوست کے اندازے کے مطابق عمارت کی بولی 5 کروڑ سے 10 کروڑ کے درمیان لگی ہوگی۔ پہلے اس پر “کراؤن پارک ویو” کا بورڈ لگایا مگر اب اس کا نام تبدیل کر دیا گیا ہے۔ یہ عنقریب حیدر منزل سے ’حیدر منزل اپارٹمنٹس‘ بن جائے گی جس میں اپارٹمنٹ کی فروخت جاری ہے۔ اب اس کا نام حیدر منزل پلاٹ نمبر جے ایم 177 سچل فقیر روڈ نہیں بلکہ ’حیدر منزل اپارٹمنٹس‘ پلاٹ نمبر جے ایم 177 سچل فقیر روڈ ہوگا۔ اگر آپ اس اپارٹمنٹ میں 4 بیڈ کا اپارٹمنٹ لیں گے تو اس کی قیمت 2 کروڑ 60 لاکھ اگر 2 بیڈ اپارٹمنٹ لیں گے تو اس کی قیمت 1 کروڑ 20 لاکھ ہوگی۔ اس کے لئے آپ کو ضروری ہے کہ 35 فیصد ایڈوانس جمع کروانا ہوگا جو 2 بیڈ روم پر 42 لاکھ بنتا ہے اور ماہانہ ڈہائی لاکھ بنتا ہے۔

سندھ کے لوگوں میں جلال شاہ کے اس فیصلے پر دکھ چھایا ہو ہے۔ جلال شاہ جو پہلے سن میں جی ایم سید یونیورسٹی بنانے کا خواب دکھا رہا تھا مگر اس نے جی ایم سید کی رہائش کو بیچ کر جیسے سندھ کی تاریخ کو بیچا ہے۔

ہمارے دوست نورالدین جمالی نے لکھا ہے کہ جو حیدر منزل نہ بچا سکے وہ سندھ کیا بچائیں گے؟
سندھ یونیورسٹی جامشورو کے شعبہ فلسفہ کی استانی امر سندھو کا کہنا ہے کہ اگر جی ایم سید کے ورثا چندہ کے لیے کہتے تو سندھ اور سید کے عاشق چندہ کر کے بھی اس تاریخی ورثے کو بچا لیتے۔

سندھ کے لوگوں کا خیال ہے کہ جلال شاہ نے تاریخی گناہ کیا ہے۔
امام علی علیہ السلام کی سیاست لوٹو نہیں بلکہ لٹاؤ تھی۔ انقلابیوں کے اثاثے بڑھتے نہیں بلکہ کم ہوتے ہیں۔ جی ایم سید کی سیاست اتنی پاک و شفاف تھی کہ اس نے اپنی زندگی میں کبھی بھی کرپشن نہیں کی بلکہ اپنے نظریہ کا دفاع کیا اور سندھ کے حقوق کی بات کی۔ کیا بہتر ہوتا اگر اس عمارت کو سندھ کے لیے وقف کردیتے مگر ان کی نیت جی ایم سید کی آئیڈیالوجی کو ختم کرنا لگتی ہے۔
پاکستان کی سیاست اور بالخصوص سندھ میں سیاست کرنے والے افراد خدمت خلق پر نہیں بلکہ کمیشن، رشوت اور دو نمبری سے امیر ہونے کے لیے کرتے ہیں۔

سعید علی پٹھان
Latest posts by سعید علی پٹھان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).