جج صاحب کی ویڈیو: حکومت کیوں بدحواس ہے؟


ظاہر ہے اگر نظام کو چلانے کی خواہش موجود ہے تو مریم نواز کے الزامات اور جج ارشد ملک کے تردیدی بیان کا موازنہ اور جائزہ لے کر اس معاملہ کی حقیقت کو سامنے لانا ضروری ہے۔ ملک میں انصاف اور عدالتوں کا دامن ہمیشہ سے داغدار رہا ہے لیکن ایک ہائی پروفائل کیس میں فیصلہ دینے والے جج کا یہ بیان کہ اس نے ایک نجی حساس ویڈیو نشر کرنے کی دھمکی سے مجبور ہو کر انصاف کا خون کیا اور ملک کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے شخص کو سات سال کے لئے جیل بھیج دیا، کوئی ایسا آسان معاملہ نہیں ہے۔ سیاسی بیان بازی سے اس کی دھول کو بٹھایا نہیں جا سکے گا۔

گزشتہ روز پریس کانفرنس میں مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کے علاوہ پارٹی کی سینئر قیادت موجود تھی۔ لیکن یہ سارا شو مریم نواز نے کنڈکٹ کیا اور وہی اس معاملہ کو آگے لے کر چلنے کا اعلان کر رہی ہیں۔ دیگر لیڈروں نے اس موقع پر حاضری لگوا کر یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ پوری مسلم لیگ (ن) مریم نواز کے الزامات اور ان کی جدوجہد میں ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ البتہ وزیر اعظم کی مشیر برائے اطلاعات کو اس اجتماع میں شہباز شریف مظلوم دکھائی دیے اور انہیں لگا کہ یہ پریس کانفرنس دراصل مسلم لیگ (ن) کے باہمی انتشار کی کہانی بیان کرتی ہے۔ ان دونوں میں سے جو بھی بات سچ ہو لیکن جج کی ویڈیو اور ان کا تردیدی بیان، متعدد ایسے سوالوں کو جنم دے رہا ہے جن کے جواب دیے بغیر ملکی عدالتی نظام اور سیاسی انتظام کا پہیہ آگے بڑھانا مشکل ہوجائے گا۔

مریم نواز نے جو الزام عائد کیا ہے وہ اگرچہ ایک جج کی ’ناانصافی‘ کے بارے میں ہے لیکن اس کی زد پر ملک کا عدالتی نظام اور وہ تمام ادارے آتے ہیں جن پر سیاسی اور عدالتی معاملات میں مداخلت کے الزامات نئے نہیں ہیں۔ فیض آباد دھرنا کیس میں فیصلہ دینے والے جج کے خلاف صدارتی ریفرنس اور اس معاملہ میں ملوث ایک فوجی افسر کی ترقی و اعزاز اور حساس ادارے کے سربراہ کے طور پر تقرری سے ایک ادارے کی بے بسی اور دوسرے کی بے پناہ قوت کا ہی سبق ملتا ہے۔ اس کے باوجود ایک سسٹم میں کام کرنے کی وجہ سے ہر ادارہ اپنے اپنے طور پر انصاف پسندی کا بھرم قائم رکھتے ہوئے خود مختاری کا دعویدار رہتا ہے۔ جج ارشد ملک اسکینڈل نے ان دعوؤں کے چہرے سے نقاب سرکانے کی کوشش کی ہے۔ اسے برقرار رکھنے کے لئے کوئی نہ کوئی ہلچل ضروری ہو چکی ہے۔ گو کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ اس کی زد میں ایک جج ہی آئے گا یا کچھ دیگر چہرے بھی بے نقاب ہو سکیں گے۔

مریم نواز کی پریس کانفرنس پر جج ارشد ملک کی جوابی پریس ریلیز اور تردید قابل فہم ہے۔ ملک کی اعلیٰ عدالت اگر اس بارے میں اقدام کرتی ہے اور فریقین کو اپنے الزامات ثابت کرنے پر مجبور کرتی ہے تو وہی راست اقدام ہو گا جس کی بجا طور سے پورا ملک توقع بھی کر رہا ہے۔ لیکن مریم نواز کی پریس کانفرنس کو مسترد کرنے میں حکومتی نمائندوں کی عجلت اور شدت پسندانہ سیاسی الزام تراشی، حکومت کی بدحواسی اور سراسیمگی کا پتہ دیتی ہے۔ تحریک انصاف گزشتہ برس اگست کے آخر میں برسر اقتدار آئی تھی۔ العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو سزا 4 دسمبر2018 کو سنائی گئی۔ یہ مقدمہ سپریم کورٹ کے حکم پر نیب کے سامنے لایا تھا۔ موجودہ حکومت کا الزام لگانے، مقدمہ بنوانے یا اس پر اثرانداز ہونے میں کوئی کردار نہیں ہوسکتا۔ لیکن اس کے باوجود مریم نواز کی پریس کانفرنس کے فوری بعد وفاقی مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان اور وزیر اطلاعات پنجاب سید صمصام بخاری کی دھواں دار پریس کانفرنسوں کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ کیا تحریک انصاف کو ملک کے باقی لوگوں کی طرح خاموشی اور صبر سے یہ انتظار نہیں کرنا چاہئے تھا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟ اب اسے جواب دینا چاہئے کہ اس بے چینی اور بدحواسی کا اصل سبب کیا ہے؟

 اس پر مستزاد الیکٹرانک میڈیا اتھارٹی نے مریم نواز کی پریس کانفرنس کی لائیو کوریج پر متعدد ٹی وی چینلز کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا نوٹس بھیجا ہے۔ یعنی ’جرم ‘ کوئی کرے لیکن اس کی اطلاع دینے والے کو دھرنے کی کوشش کی جائے۔ حیرت ہے پیمرا کو ملک میں آزادی رائے پر ہونے والے حملوں، صحافیوں کو ملنے والی دھمکیوں اور سنسر شپ کی متعدد معلوم و نامعلوم اقسام کے بارے میں جاننے کی ضرورت تو محسوس نہیں ہوتی لیکن سیاسی لیڈروں کی پریس کانفرنس نشر کرنے پر فوری رد عمل ضروری سمجھا گیا۔

جج ارشد ملک اسکینڈل ایک غلط عدالتی فیصلے کا انکشاف ہی نہیں کرتا بلکہ ملکی نظام میں بعض بنیادی نقائص کی نشاندہی کرتا ہے۔ ان کمزوریوں کو سیاسی تعصب سے بالا تر ہو کر سمجھنے اور دور کرنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali