ایک قبرستان کا قصہ


\"hamza\"

ہمارے گھر کے پاس ایک قبرستان ہے جسے لوگ شہداء کا قبرستان کہتے ہیں۔ نوے کی دہائی میں جب خطہ کشمیر میں انسانی خون سستا ہونا شروع ہوا تو لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف خود بخود بے شمار قبرستان وجود میں آ گئے جن میں اکثر بے نام ہیں اور کئی تو بے نام ونشاں ہیں جہاں قبریں تو نہیں ہیں مگر مٹی تلے بے شمار لوگ ابدی نیند سو رہے ہیں۔

یہ قبرستان شہداء بھی انہی قبرستانوں میں سے ایک ہے۔ نوے کی دہائی میں یہ صرف مجاہدین کیلئے مختص تھا۔ جہاں کراچی سے لے کر بانڈی پورا تک کئی لوگوں کے لخت جگر دفن ہیں۔ اکثر جب وہاں قریب سے گزر ہوتا تو میں رک جاتا ہوں اور قبروں پر لکھے نام پڑھنا شروع کر دیتا ہوں اور ہر بار ایک ایسی کیفیت کا شکار ہو جاتا ہوں جسے الفاظ میں بیان کرنا بہت مشکل ہے۔

آج میں پھر اس قبرستان میں کھڑا ہوں جہاں ایک طرف پاک آرمی کے شہید کیپٹن کا مزارہے جو کارگل کی جنگ میں بھارتی فوج کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئےاور بعد از شہادت فوجی اعزاز سے نوازے گئے۔اور اس مزار کے سائے میں کچھ قبریں ہیں جن پہ کوئی چاردیواری نہیں نہ ہی ان لوگوں کو بعد از شہادت کسی تمغے سے نوازا گیا ہے۔ بس ایک ایک کتبہ ہے جس پہ نام، آبائی علاقے، جہادی تنظیم کا نام لکھا ہے۔

پہلی قبر فاروق وانی کی ہے۔ ان کا آبائی علاقہ سو پور ہے جو کہ سید علی گیلانی کی وجہ سے جانا جاتا ہے جہاں مزاحمت نے ابھی بھی دم نہیں توڑا۔ عمر صرف 21 سال۔اگلی قبر عمران کی ہے۔ تحصیل سرن کوٹ ضلع پونچھ۔ پیر پنجال کے دامن میں آنکھیں کھولنے والا یہ 19 سالہ نوجوان یہاں ابدی نیند سو رہا ہے۔ اگلی قبر کپواڑہ کے عمر کی ہے۔ شمالی کشمیر کا یہ سپوت 19 سال کی عمر میں شہید ہوا اور یہ قبر اس کا آخری مرقد بنی۔ کپواڑہ، بڈگام، اننت ناگ اور پھر سوات، گجرات اور آخری قبر پر جو پتا لکھا وہ ہے منگھو پیر کراچی اور عمر 21 سال!!

یہاں ایسی بے شمار قبریں ہیں اور لائن آف کنٹرول کے کنارے ایسے بے شمار قبرستان ہیں اور ان قبرستانوں کے علاوہ بے شمار اجتماعی قبریں بھی ہیں جن میں سے کچھ چند سال قبل دریافت کی گئی ہیں اور کئی ایسی ہیں جن کا کبھی کسی کو نام و نشان نہیں ملے گا۔

1989 میں تحریک آزادی کشمیر کا باقاعدہ آغاز ایک نیشنلسٹ تنطیم جموں کشمیر لبریشن فرنٹ ((JKLF نے کیا تھا جس کے ہاتھ سے لگام جماعت اسلامی سے وابستہ مقامی تنظیم حزب المجاہدین نے لے لی اور پھر گویا جہادی تنظیموں کی ایک دکان ہی کھل گئی۔ اتنی تنظیمیں کہ جن کو ہاتھوں کی انگلیوں پہ گننا ناممکن ہے۔ ہزاروں نوجوان بارڈر کراس کر کے تربیت کیلئے اس پار آئے اور ہزاروں بارڈر کراس کر کے آزادی کے خواب لئے اس طرف گئے اور شہید ہوئے اور کئی تو ایک گولی چلائے بغیر خود گولی کا نشانہ بن گئے۔ مگر ایک لاکھ جانوں کی قربانی دے کر بھی کشمیر وہیں کھڑا ہے جہاں آج سے 25سال پہلے کھڑا تھا۔

ہر بار میں جب اس قبرستان میں جاتا ہوں تو ایک عجیب سی کیفیت کا شکار ہو جاتا ہوں۔ ان قبروں پر نگاہ پڑتی ہے تو ہر بار دل یہ نہیں مانتا کہ ان لوگوں نے بے مقصد اپنی جانیں قربان کی ہیں۔ اور ان کے عزیز و اقارب نے بغیر کسی مقصد کے اپنے پیاروں سے ازلی جدائی کا دکھ سہا ہے۔لوگ کچھ بھی کہیں مگر میرا دل یہ ماننے پر تیار نہیں ہوتا کہ دنیا کے اکثر لوگوں کی طرح یہ لوگ بھی تاریک راہوں میں مارے گئے ہیں۔۔۔

 

حمزہ نیاز سیف
Latest posts by حمزہ نیاز سیف (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments