پاکستان کا دیوالیہ ہی عمران خان کا پرچہ ترکیب استعمال ہے


ایک طرف چئیرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جا رہی ہے تو دوسری طرف بلاول بھٹو زرداری مہنگائی کے خلاف دھرنا دینے کا اعلان کر رہے ہیں اور مریم نوز مسلسل احتساب عدالتوں کو ناقابل اعتبار ثابت کرنے کی مہم چلا رہی ہیں۔ ان حالات میں ملک کی کابینہ سمیت کوئی بھی ایسا شخص یا ادارہ موجود نہیں ہے جو انتشار اور تصادم کی اس کیفیت کو ختم کر سکے۔ بلکہ دامن بچا کر ایسے پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش ہو رہی ہے جو موجودہ بحران اور پریشان خیالی میں اضافہ کا سببب بنے گی۔

ان میں سے ہی ایک سینیٹ میں قائد ایوان شبلی فراز بھی ہیں جنہوں نے چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اس معاملہ میں اپوزیشن کو حیران کر دے گی۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ اپوزیشن کے متعدد سینیٹرز سے رابطے میں ہیں اور چئیرمین سینیٹ کو ہٹانے کی کوشش کو ناکام بنانے کے لئے انہیں ان سینیٹرز کا تعاون حاصل ہونے کی قوی امید ہے۔ سینیٹ میں تحریک انصاف اقلیت میں ہے۔

اپوزیشن اور آزاد ارکان کو بھاری اکثریت حاصل ہے۔ صادق سنجرانی کو منتخب کروانے کے لئے گزشتہ سال مارچ میں پیپلز پارٹی کے معاون چئیرمین آصف زرداری کا تعاون حاصل کیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کی پیش کش قبول کرنے کی بجائے تحریک انصاف کے ساتھ مل کر آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے صادق سنجرانی کو چئیرمین منتخب کروا لیا۔ اب تحریک انصاف حکومت میں ہے لیکن آصف زرداری قید ہیں۔ حالات پیپلز پارٹی اور آصف زرداری کی توقعات کے برعکس رخ اختیار کر چکے ہیں۔ لیکن تحریک انصاف کے نمائندے اپوزیشن کو یہ تحریک واپس لینے کے لئے راضی کرنے کی بجائے اس میں پھوٹ ڈلوانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان نے مسلم لیگ (ن) کے پنجاب اسمبلی ارکان سے ملاقات کرکے اسی حکمت عملی کا مظاہرہ کیا تھا۔ کہ سیاسی اختلاف کو سیاسی مشاورت سے حل کرنے کی بجائے اپوزیشن کو دھمکی دی جائے کہ اگر اس نے حکومت کو چیلنج کیا تو اس کی صفوں میں سے ابن الوقت قسم کے لوگوں کو توڑ کر ان پارٹیوں کو کمزور کیا جائے گا۔ ماضی میں تمام فوجی حکومتیں یہی طریقہ کار اختیار کرتی رہی ہیں۔ عمران خان کو وزیر اعظم بنوانے کے لئے بھی اسی آزمودہ طریقہ پر عمل کیا گیا تھا۔ اسی لئے سابق فوجی حکمران پرویز مشرف نے کہا تھا کہ عمران خان کی کابینہ تو ان کے دوستوں پر ہی مشتمل ہے۔ اس کی تفصیلات اب پاکستان کے بچے بچے کو ازبر ہیں۔ لیکن انصاف اور دیانت کی دعویدار حکومت پھر بھی اس سیاسی جبر اور جوڑ توڑ کو بدعنوانی کی بجائے عین کار خیر سمجھتی ہے۔

اس کے باوجود نئے پاکستان کا نعرہ لگاتے ہوئے نہ شرم محسوس کی جاتی ہے اور نہ ہی یہ سمجھنے کی کوشش ہوتی ہے کہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے جان بلب عوام یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ ان کی مالی مشکلات میں اضافہ کرنے کے بعد ہر دم نیا پاکستان بن رہا ہے کے نعرے لگا کر حکومت کے ارکان ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ حکومت کے سارے ہتھکنڈے پرانے اور عمران خان کے ساتھیوں میں سب لوگ جانے پہچانے ہیں لیکن مفاد پرستوں کے اس گروہ کے بیچ بیٹھ کر نہ صرف وزیر اعظم بلکہ ہر حکومت میں شامل رہنے والے یہ لوگ بھی ہر گھڑی بڑے جوش سے ’نیا پاکستان بن رہا ہے‘ کے نعرے لگاتے ہیں اور وزیر اعظم یہ دلاسہ دیتے ہیں کہ ’آپ نے گھبرانا نہیں ہے‘ ۔

آج کراچی کے دورہ کے دوران بھی وزیر اعظم نے تاجروں اور صنعتکاروں سے ملاقاتوں میں ایسا ہی رویہ اختیار کیا۔ انہوں نے تاجروں سے حکومت کا ساتھی بننے کی اپیل کرتے ہوئے یہ پیش گوئی بھی کر دی کہ اگر لوگوں نے ٹیکس دینا شروع نہ کیا تو ملک دیوالیہ ہوجائے گا۔ اس لحاظ سے تو ضرور ’نیا پاکستان‘ معرض وجود میں آ چکا ہے کہ حکومت کا سربراہ خود ملک کے دیوالیہ ہونے کا منحوس لفظ منہ پر لانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتا۔ نہ جانے عمران خان یہ دھمکی کس کو دے رہے ہیں۔

ایک طرف وہ سرمایہ کاری کو معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف سیاسی اور سماجی بے چینی میں اضافہ کے ذریعے سرمایہ داروں کو پاکستان سے دور رہنے کے اشارے دیتے ہیں۔ ایک طرف وہ ٹیکس میں اضافہ کی بات کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ملک کے قلیل طبقہ پر ٹیکسوں کا بہت بوجھ ہے۔ ملک کے صنعتکار 70 فیصد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ لیکن وزیر اعظم نے یہ جاننے کی زحمت نہیں کرتے کہ صنعت کا یہ ٹیکس مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کے ذریعے انہی صارفین سے وصول کرتے ہیں جو پہلے ہی بالواسطہ ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔

وزیر اعظم نے گورنر ہاؤس کراچی میں آج جو شو منعقد کیا اور اس میں جو باتیں کیں، وہ ملکی معیشت کے حل سے زیادہ سیاسی چومکھی کا وہی بیانیہ ہے جو انہوں نے کسی مدرسے کے معانی سے نابلد طالب علم کی طرح رٹا ہؤا ہے۔ جب تک عمران خان اس ’ازبر سبق‘ سے آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرتے ”حالات میں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یا وہ معیشت اور قوم پر یہ احسان کردیں کہ معاشی مسائل پر براہ راست گوہر افشانی سے گریز کیا کریں۔ کسی عطائی کی دوا سے بہتر ہے کہ مریض کو دوا کے بغیر مرنے دیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali