ملالہ یوسف زئی کا دوپٹہ اور پنجاب یونیورسٹی کی طالبات


پاکستان میں خواتین کے لیے تعلیم حاصل کرنا شاید آج بھی اتنا آسان نہیں۔ اگرچہ عورت خاندان کی عزت ہوتی ہے، لیکن عزت کو چار دیواری میں سجا کر یا پھر گھر کے کسی کمرے کی الماری میں بند کرکے نہیں رکھ سکتے۔ کسی بھی قوم کی ترقی اس قوم کی ماؤں پر منحصر ہوتی ہے۔ اگر مائیں پڑھی لکھی ہوں گی تو قوم ترقی کرے گی۔

دینی اور دنیاوی تعلیم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت کا بنیادی حق ہے۔ دینی تعلیم انھیں زندگی گزانے کا طریقہ جبکہ دنیاوی تعلیم ہنرمند بناتی ہے۔ پاکستان ان خوش قسمت ممالک میں سے ایک ہے جہاں ناصرف آپ اپنی مزضی کی زندگی گزار سکتے ہیں، اپنے خیالات کا اظہار کرسکتے ہیں بلکہ ضرورت پڑنے پر اپنا بیانیہ بھی دوسرے کی زبان سے کہلوا سکتے ہیں۔

یہاں ایک بات قابلِ ذکر ہے۔ ان دنوں کینیڈا کے صوبے کیوبک کے وزیرِ تعلیم شدید تنقید کی زد میں ہیں۔ تنقید کا باعث حال ہی میں ہونے والی ان کی ایک ملاقات بنی۔ وہ ملاقات دنیا کی سب سے کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ شخصیت ملالہ یوسفزئی سے ہوئی۔

کیوبک رقبے کے لحاظ سے کینیڈا کا سب سے بڑا اور آبادی میں انٹاریو کے بعد دوسرا بڑا صوبہ ہے۔ وزیرِتعلیم جان افرانسوا روبیرج کو ملالہ کے ساتھ تصویر بنانے پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اس تصویر میں ملالہ نے سر پردوپٹہ اوڑھ رکھا ہے۔ ملالہ ایک مشرقی لڑکی ہے۔ وہ مغرب میں جاکر بھی اپنی ثقافت سے ناآنشا نہیں ہوئی اور ہر پلیٹ فارم میں اپنی ٖثقافت کے ساتھ ساتھ خواتین کی تعلیمی سرگرمیوں کے فروغ میں مصروفِ عمل ہے۔

لیکن اس ملاقات میں دوسرا پہلو کیوبک میں جون میں پاس ہونے والا متنازعہ قانون بنا۔ جس کے مطابق سرکاری ملازمین بشمول اساتذہ پر بھی یہ پابندی عائد کی گئی ہے۔ جس میں وہ اپنے دفاتر اور کام کی جگہ پر اپنی مذہبی علامات (اسکارف، برقعہ، دوپٹہ، ٹوپی، پگڑی وغیرہ) نہیں پہن سکتے۔ یہ قانون بالخصوص مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ دیگر مذاہب جیساکہ ہندو، یہودی سمیت بلاتفریق سب کے لیے یکساں ہے۔ اس قانون کو پاس کرنے پر دونوں جانب سے تنقید کی گئی۔ بعٖض حضرات نے اس قانون کو مسلمان خواتین کے ساتھ نا انصافی قرار دیا جبکہ بعض کا ماننا ہے کہ یہ قانون بہتر ہے تاکہ مذہب اور ریاست میں فرق واضح رہے۔

ملالہ اور کیوبک کے وزیرتعلیم کی ساتھ لی گئی اس تصویر میں ملالہ نے دوپٹہ اوڑھ رکھا ہے۔ جس کے بعد عوام کی جانب سے وزیرتعلیم کو منافق کے لقب سے بھی نوازا گیا۔ وضاحت میں جان فرانسوا نے کہا کہ یہ ملاقات محض تعلیم تک رسائی اورعالمی ترقی سے متعلق تھی۔

مجھے یقین ہے یہ معاملہ صرف اس متنازعہ بل کی منظوری کے باعث پیش آیا کیونکہ وہاں قانون کی پاسداری ہے۔ پاکستان ایک آزاد اور اسلامی ریاست ہے۔ یہاں اقلیتوں کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے اور خواتین کی عزت پر حرف بھی نہیں آنے دیا جاتا۔ اگر راہ چلتے کسی خاتون کو کہیں کوئی مسئلہ درپیش آجائے تو بنا آواز دیے کئی بھائی لائن میں فری آف کاسٹ مدد فراہم کرتے نظر آئیں گے۔ ہمارے ملک میں صرف آزادی ہی نہیں بلکہ یہاں اظہارِ خیال کا بھی مکمل احترام کیا جاتا ہے۔

گزشتہ برس کی طرح رواں سال بھی صنفِ نازک کی جانب سے اپنے حقوق کے مطالبات کی عورت مارچ سے منسوب ریلی نکالی گئی۔ اس ریلی میں خوب نعرے لگے۔ اس مارچ میں مکمل آزادی کے ساتھ کئی تلخ مگر سچے اور کڑوی گولی جیسے پلے کارڈ آویزاں کیے گئے، جنھیں ہضم کرنا آسان نہ تھا۔ کئی جگہ ان پوسٹرز کو حقیقت سے دور منفی رنگ دینے کی کوشش بھی کی گئی۔ یہ وہ آوازیں تھیں جو ایک لمبے عرصے سے ان کے سینے میں دفن تھیں۔ آخر کار مقررہ وقت پر آتش فشاں بن کر پھٹ پڑیں۔ جس کی آگ میں کئی لوگ جل بھن گئے۔ اگر یہاں یہ بات کی جائے تو غلط نہ ہوگا کہ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔

گزشتہ دنوں پنجاب یونیورسٹی میں ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔ جہاں ایم اے پارٹ ٹو کی طالبہ صدف کمرہِ امتحان میں خاتون سپریڈنڈنٹ کا نشانہ بنیں۔ صدف کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی میں فارسی کی طالب علم ہیں۔ مذہب سے قربت کے باعث وہ مکمل عبایہ کرتی ہیں اور نقاب بھی۔ وہ بیرون ملک سے بھی تعلیم یافتہ ہیں۔

بقول صدف کے کمرہ امتحان میں نقاب پہن کر امتحان دینے کی اجازت نہیں، سو وہ بنا نقاب کے پرچہ دینے میں مصروف تھیں کہ سپریڈنڈنٹ کی کولیگز نے انھیں عبایہ بھی اتارنے کا کہا۔ جس پر صدف نے معذرت کرتے ہوئے درخواست کی کہ یہاں مرد پانی پلانے آتے ہیں۔ اس لیے میں عبایہ نہیں اتار سکتی۔ جو شرعی طور پر اس کا حق بھی تھا۔ جس پر سپریڈنڈنٹ سر پر آن پہنچی اور کہا کہ آج میں تمہارا عبایہ اتروانگی۔ خدا جانے وہ کس بات پر غصہ تھی۔

صدف کے مطابق ان کی جانب سے چیکینگ کے لیے یا پھر جگہ تبدیل کرنے کی درخواست بھی کی گئی لیکن وہ راضی نہ ہوئیں اور پرچہ لے کر چلتی بنیں۔ ساتھ ہی صدف پر ایف آئی آر درج کرانے اور اپنی پوسٹ کا مزہ چکھانے کی دھمکی بھی دے ڈالی۔ بقول صدف کے سپریڈنڈنٹ نے کہا میں تمہارے جیسی لڑکیوں کو خوب جانتی ہوں، جو یہاں پر پردہ مگر باہر لڑکوں کے ساتھ گلچھرے اڑاتی ہیں۔

یقینا یہ ایک افسوس ناک بات ہے یہاں صرف کسی کی شخصیت سے متعلق نازیبا الفاظ استعمال نہیں کیے گئے بلکہ پوری کمیونٹی کو ہی نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہاں کچھ باتیں واضح کرنا لازمی ہیں کہ کسی کی آزادی اور طاقت جاگیر نہیں۔ وہ خواتین جو عورت مارچ میں دیگر مطالبات کا ہدف حاصل کرنا چاہتی ہیں تو انھیں چاہیے کہ ان خواتین کا بھی لازمی خیال رکھیں۔ جو مذہبی رجحان رکھتی ہوں۔ جہاں خواتین کے دوسرے مسائل پر بات کی جاتی ہے وہیں اس طرح کے معاملات کو بھی زیر بحث لانا ضروری ہے تاکہ مستقبل میں ممکنہ طور پر نظریاتی اختلاف کے باوجود عورت حق بات پر ایک پیج پر نظر آئے۔

یونیوسٹی انتظامیہ کی جانب سے اس بات کی تصدیق بھی کی گئی کہ سپریرٹنڈنٹ کی جانب سے پہلے بھی کئی بار طلبا کو ہراساں کیا گیا ہے۔ لیکن افسوس کہ جامعہ کی جانب سے اس کے باوجود کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ وہ خواتین جو مغربی آزادی سے متاثر ہوکر مشرقی معاشرے میں مغرب کی عکاسی کرنا چاہتی ہیں تو خوب کریں لیکن نظریاتی اختلاف کی بنا پر کسی دوسرے کے خیالات کی تضحیک آپ کی منفی سوچ کو صاف واضح کرتی ہے۔ کسی سیانے نے کہا تھا، کچھوا اپنے خول میں خود کو قید سمجھتا ہے اور خول سے چھٹکارا حاصل کر نے کے بعد خود کو آزاد تصور کرنے لگتا ہے جب تک کہ وہ باز کے پنجوں تلے دبوچ نہ لیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).