چاندی کا جادو اور پرہیز گار محلے دار


اگلے ہفتے کے اجلاس میں سب سے اہم مسئلہ یہی تھا۔ شبیر نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ثبوت لائے گا۔ سب کی نظریں اس پر جمی تھیں۔ ”بھائیو میں بے حد شرمندہ ہوں۔ در اصل میری نظر کمزور ہے جس کی وجہ سے میں صحیح طور پر دیکھ نہ پایا تھا۔ میرے خیال میں ہم خواہ مخواہ اس عورت پر شک کر رہے ہیں۔ “ شبیر نے نظریں جھکاتے ہوئے کہا۔

”شبیر بھائی آپ ثبوت ڈھونڈ نہیں سکے اور خواہ مخواہ اس عورت کی حمایت کر رہے ہیں“ صابر شاکر نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”تو آپ ڈھونڈ لیں کوئی پابندی تو نہیں ہے“ شبیر نے بھڑکتے ہوئے کہا۔

”میں آپ کی طرح نہیں ہوں، آئندہ ہفتے ثابت کر دوں گا کہ ہمارا شک صحیح ہے“ صابر شاکر نے پختہ لہجے میں کہا۔ ”اچھا اب خاموش ہو جائیں، ہمیں آپس میں الجھنے کی ضرورت نہیں ہے“ عبالقدوس نے رسان سے کہا۔

اجلاس جاری تھا مگر زاہد کا دھیان چاندی میں اٹکا ہوا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا صابر شاکر چاندی کو محلے سے نکلوا کے رہے گا۔ ایک ہفتہ گزر گیا۔ اس بار سب صابر شاکر پر نظریں جمائے ہوئے تھے۔

”براہِ کرم مجھے یوں مت گھوریں، آپ لوگوں نے ایک شریف عورت کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک بیوہ پر کچھ تو ترس کھائیں“ صابر شاکر منہ بناتے ہوئے کہا۔ زاہد کی امیدوں پر اوس پڑ گئی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ آج چاندی کے بارے میں کچھ چٹ پٹی خبریں ملیں گی۔ باقی سب کے چہرے بھی دیکھنے والے تھے۔ پھر چاندی کی مخالفت میں باتیں شروع ہوئیں۔ اس بار ناظم راؤ نے یہ بیڑا اٹھایا۔ چونکہ وہ وکیل بھی تھا اس لئے سب پر امید تھے کہ وہ ضرور ثابت کر دے گا کہ چاندی بد چلن ہے۔

مگر آئندہ اجلاس میں ناظم راؤ ہی چاندی کی حمایت میں سب سے آگے تھا۔
”دوستو! وہ بے چاری تو کپڑے سی کر گزارا کرتی ہے۔ ایک بوتیک کے ساتھ اس کا معاہدہ ہے۔ بجائے اس کی مدد کرنے کے آپ اس پر الزامات لگا رہے ہیں“ ناظم راؤ نے ایسے انداز میں کہا کہ ایک لمحے کے لئے تو سب شرمندہ سے ہو گئے لیکن چند منٹ بعد عابد شیخ اور عبدالقدوس نے پھر شکوک و شبہات کا اظہار شروع کر دیا۔

اس بار اجلاس کے بعد جب زاہد اپنے کمرے میں لیٹا سونے کی کوشش کر رہا تھا تو اس کے کانوں میں محلہ کمیٹی کے اراکین کی باتیں گونج رہی تھیں۔ آخر اس نے ایک فیصلہ کر لیا۔
شام کے وقت زاہد اپنے پلان کے مطابق باہر نکلا پھر کھانے پینے کی کچھ چیزیں لے کر لوٹا۔ اپنی گلی میں آ کر اس نے دائیں بائیں جائزہ لیا پھر چاندی کے دروازے پر دستک دی۔ دروازہ فوراً ہی کھل گیا۔

”زہے نصیب! زاہد آؤ ناں اندر آ جاؤ“ چاندی نے اسے دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔ زاہد جلدی سے اندر آ گیا۔ لاؤنج میں ایک گیارہ بارہ برس کی لڑکی بھی موجود تھی۔
”یہ سونا ہے، اسے تم میری بیٹی سمجھ سکتے ہو اور سونا یہ زاہد صاحب ہیں، یہ بھی ہمارے محلے دار ہیں، آپ بیٹھیں ناں“ چاندی نے کہا۔

”دیکھیے آپ ہمارے محلے میں آئی ہیں تو ہمارا بھی کچھ فرض بنتا ہے، تو میں کچھ کھانے کے لئے لایا تھا، قبول کیجیے“ زاہد نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
”قبول ہے“ چاندی مسکرائی۔ زاہد نے نظر اٹھا کر چاندی کو دیکھا۔ عمر ڈھل رہی تھی مگر اب بھی وہ انتہائی دلکش تھی۔ اس کے متناسب جسم میں عجیب سی کشش تھی۔

”میں نے سنا تھا آپ کسی بوتیک کے لئے کپڑے سیتی ہیں۔ گزارا ہو جاتا ہے؟ “
”دال دلیا چل رہا ہے۔ اب تو مہنگائی اتنی زیادہ ہو گئی ہے کچھ نہ پوچھو“ چاندی بولی۔ زاہد نے سر ہلا دیا۔ وہ اس سے ادِھر ادُھر کی باتیں کرتا رہا۔ چاندی نے کھانے کی دعوت دی۔
”آپ کھائیے مجھے اجازت دیں“

”ایسے کیسے، آپ کھانا لائے ہیں، آپ کو ہمارے ساتھ کھانا پڑے گا“ چاندی نے فوراً کہا۔ زاہد کو ابھی اور معلومات درکار تھیں وہ رک گیا۔ کھانے کے دوران وہ گھر کا جائزہ لے رہا تھا۔ سامان زیادہ قیمتی نہیں تھا لیکن ہر چیز بڑے سلیقے سے رکھی ہوئی تھی۔ گھر میں کوئی بے ترتیبی نظر نہ آتی تھی۔ کھانے کے بعد سونا اپنے کمرے میں چلی گئی۔ چند منٹ بعد زاہد نے رخصت کی اجازت مانگی مگر چاندی نے روک لیا۔

”میں تمہیں اپنا گھر دکھاتی ہوں“ چاندی نے کہا۔ تھوڑی دیر بعد وہ چاندی کے بیڈ روم میں بیٹھا تھا۔ چاندی نے اس کے سامنے دو گلاس رکھے اور مشروب سے بھر دیے۔ ”یہ کیا ہے؟ “ زاہد نے کہا۔
”ایسے انجان مت بنو، پی کر دیکھو، آنکھیں کھل جائیں گی“

زاہد کے جسم میں سنسنی کی لہریں گردش کر رہی تھیں۔ وہ اس کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ ”چلو میں اپنے ہاتھوں سے پلاتی ہوں“ اس نے گلاس اٹھایا۔ زاہد نہ چاہتے ہوئے بھی انکار نہ کر پایا۔ واقعی یہ تجربہ بہت خاص تھا۔ اسے اپنا جسم بہت ہلکا پھلکا محسوس ہو رہا تھا۔ اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ زمین کی سطح سے بلند ہو گیا ہے۔ اس نے چاندی کا سہارا لے لیا۔ اب وہ دونوں جیسے بادلوں میں تیر رہے تھے۔ بادلوں میں بجلی بھری تھی۔ گرج چمک کے بعد بارش شروع ہو گئی۔ برسوں کی پیاسی زمین مہکنے لگی۔

دو اڑھائی بجے جب زاہد کا خمار اترا تو وہ چاندی کی آغوش میں تھا۔ ”مجھے اب جانا چاہیے“ اس نے دھیرے سے کہا۔ ”سنو کچھ باتیں تو سنتے جاؤ“ چاندی نے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔

”سونا میری بیٹی نہیں فیوچر پلیننگ ہے۔ میں جب جوان تھی تو سب اچھا تھا اب ڈھلنے لگی ہوں تو بنگلہ چھوڑ کر اس محلے میں آنا پڑا لیکن اس محلے کے لوگ بہت اچھے ہیں۔ میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔ تم میرے پاس آئے میں بہت خوش ہوں۔ میرے گھر کے دروازے تمہارے لیے کھلے ہیں جب چاہو آ سکتے ہو بس اتنا خیال رکھنا کہ آنے سے پہلے فون ضرور کر لینا۔ تم میری میزبانی میں کبھی کوئی کمی نہیں پاؤ گے۔ ہاں کل میں بزی ہوں کل ایک مہمان نے آنا ہے“

زاہد فون نمبر لے کر باہر نکل آیا۔ محلہ کمیٹی کے اجلاس میں دو تین امور زیر بحث آئے پھر کسی نے چاندی کا ذکر کیا۔
”یہ بات تو ختم ہو چکی ہے کیوں عبدالقدوس بھائی! ہمیں اس عورت کے بارے میں مزید چہ میگوئیوں سے پرہیز کرنا چاہیے“ عابد شیخ نے فوراً کہا۔

”بالکل ٹھیک کہا عابد بھائی! بلکہ وہ بے چاری اکیلی ہے، وقتاً فوقتاً روپے پیسے سے اس کی مدد کرتے رہنا چاہیے اور اپنی اپنی بیویوں کو بھی سمجھانا چاہیے کہ یوں کسی پر الزام نہیں لگانا چاہیے۔ ٹھیک ہے وہ ریزرو رہتی ہے، محلے کی عورتوں سے ملتی جلتی نہیں ہے لیکن یہ تو اپنے اپنے مزاج کی بات ہے“ عبدالقدوس نے عابد شیخ کی تائید میں دیر نہ کی۔

”زاہد میاں آپ کیا کہتے ہیں؟ “
”حضور! میں کیا کہہ سکتا ہوں، میں آپ سب سے عمر اور تجربے میں کم ہوں لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ کسی بے سہارا عورت کو محلے سے نکالنے کی بجائے اس کی مدد کرنی چاہیے“ زاہد نے جواب دیا۔

چناں چہ فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ اس موضوع پر بات نہیں کی جائے گی۔ چاندی کا جادو چل چکا تھا۔ آج چاندی کی مخالفت میں ایک آواز بھی نہیں تھی۔ زاہد سوچ رہا تھا کہ میٹنگ کے بعد وہ فون کرے گا شاید چاندی کو مدد کی ضرورت ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2