کوئٹہ میں عید کی صبح ویران، شام سوگوار


\"qaiser-kakar\"ہمارا چھوٹا لندن روزِاول سے ہی مصیبتوں اور آفتوں کا سامنا کرتا چلا آرہا ہے۔ 1935 کے زلزلے سے لے کر 8 اگست 2016 کے خون ریز جرم تک کوئی ایسا سال نہیں گزرا ہے جب یہاں پہ کچھ ایسا واقعہ نہ ہوا ہو جو پورے سال تک صاحِبِ دِل حضرات کو خون کے آنسو نہ رلاتا ہو۔

جب سے ہوش سنبھالا ہے میں نے کم از کم کوئی ایسی عید نہیں دیکھی جِس میں کئی بے گناہ کوئٹہ والوں کی جانیں نہ گئی ہوں چاہے پھر وہ جانیں ہماری ہزارہ برادری کی ہوں یا پولیس لائن میں شہید ہونے والوں کی۔

حدِ اِنتہا تو اِس بار یہ ہوئی کہ 8 اگست 2016 کے واقعہ نے نہ صِرف ہماری یہ عید ویران کر دی بلکہ آنے والی ہزاروں عیدیں ویران کر دی۔ بالکل اسی طرح جِس طرح آج کل کوئٹہ کی عدالتیں اور کچہریاں ویران پڑی ہیں۔

اِن پے در پے مظالِم کے بعد اب نہ تو کِسی کو حوصلہ دینے کی ہِمت باقی رہ گئی ہے اور نہ کِسی کے ساتھ تعزیت کرنے کی سکت باقی رہ گئی ہے۔ اِس عید کو میں کِس منہ اور کِس ضمیر سے شہید ضیاالدین آغا کے گھر جا کر سوگ مناوُں۔ میں کیسے شہید ایمل خان وطن یار کی شہادت کا رونا روُں۔ میں کیسے شہید عسکر خان اچکزئی اور شہید باز محمد کاکڑ کے اِکلوتے بیٹے اور بیٹی کو تسلی دوں کہ میرے وطن کا ہر دوسرا گھر اِس غم میں ڈوبا ہے، کہ میرے اِس برباد اور پھٹے پُرانے وطن میں نہ اب اور زخموں کی گُنجائش ہے اور نہ ہی اور سِلنے کی۔اور ویسے بھی جب بات تسلی، تعزیت اور برداشت کی حد سے تجاوز کر جائے تو ہمارے جِسم میں حِس والی رگیں سوکھی پڑ جاتی ہیں۔ پھر ہم میں احساس نام کی شے باقی نہیں رہ جاتی۔ تب ہی ہم صِرف فیس بُک اور سوشل میڈیا کے شیر بن جاتے ہیں اور اپنی ساری حِس اور بے حِسی وہی پہ دِکھاتے ہیں جیسے کہ اِس وقت میں کر رہا ہوں۔

یہ وقت تو بہرحال گزر ہی جائے گا، اور یہی وقت ہی سب سے بڑی مرہم ہے۔ ہم اپنے زخموں کے مرہم کے لئے اور اپنے شہیدوں کے لئے صِرف آنسو ہی بہا سکتے ہیں، یا پھر دُعا کر سکتے ہیں اور پھر شاید وقت کے ساتھ ساتھ یہ زخم بھی بھر جایئں۔ نااُمیدی تو کُفر ہے اِس لئے ہم یہ اُمید ہی کر سکتے ہیں کہ کوئٹہ کی عیدیں اب آنے والے برسوں میں اِس طرح ویران نہ ہوں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments