سیاسی جمود کا وقت گزر چکا


ان سطور کی اشاعت تک حکومت پاکستان کا اعلیٰ سطحی وفد امریکہ کے دورے پر ہوگا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ ہم کچھ مانگنے نہیں آئے۔ شاید انہیں اندازہ ہے کہ امداد کے حوالے سے جتنی بھی گزارشات کی جائیں گی امریکی حکام اس پر مثبت جواب نہیں دیں گے۔ خصوصاً ٹرمپ حکومت نے اس حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل کر لی ہے۔ ویسے بھی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سے اب تک جو ملا ہے وہ امریکی گرین سگنل کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ آئی ایم ایف کا قرضہ اور اس سلسلے میں امریکی وزیر خارجہ اور دیگر حکام کی جانب سے پہلے سے دیئے جانے والے بیانات کی ابھی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی۔ امریکی حکام ہر صورت یہ بات باور کرانے کی کوشش کر یں گے کہ عالمی مالیاتی اداروں کو قرضہ دینے کی اجازت دے کر وہ پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکالنے کا راستہ بنا رہے ہیں۔

بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس دورے کے دوران مہمان وفد خواہ کتنی ہی توقعات باندھے، درحقیقت ان کو اپنی طرف سے یہ پیکج پیش کرنا ہوگا کہ وہ خصوصاً افغانستان سے فوجیں نکالنے کے تناظر سمیت دیگر معاملات میں کیسے معاونت کر سکتے ہیں۔ یہ خبریں تو سامنے آہی چکی ہیں کہ اس دورے کا اہتمام ولی عہد محمد بن سلمان نے ٹرمپ کے داماد اور اپنے دوست جیرڈ کشنر کے ذریعے کیا ہے لیکن اس دورے کی کیٹیگری کیا ہے۔ اس پر اس وقت بات نہ ہی کی جائے تو بہتر ہوگا۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ بھارت کیلئے فضائی حدود کی بندش کے خاتمے سمیت بعض اقدامات اس نیت سے کیے گئے ہیں کہ دورہ امریکہ میں اچھا امیج سامنے آ سکے۔

ایک چیز سب کو جان لینی چاہیے کہ امریکی منشا کے مطابق پاکستان کی معیشت کا کنٹرول اب آئی ایم ایف کے ہاتھوں میں جا چکا ہے۔ اپنی پہلی ٹیم کی معاونت کے لیے ایک اور ٹیکنو کریٹ سابق گورنر سٹیٹ بنک ڈاکٹر شمشاد اختر حکومتی منصب پر آ گئی ہیں۔ ادھر پاکستان میں آئی ایم ایف کی نمائندہ ٹیریسا ڈربن سانچیز کا کہنا ہے کہ عالمی ادارے کے پروگرام کے لیے بنیادی اصلاحات ضروری ہیں، سو قانون سازی کرنے کے لیے اپوزیشن کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ دنیا میں آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کسی ملک نے آئی ایم ایف پروگرام سے ترقی کی ہو۔ مصر تازہ مثال ہے جو آئی ایم ایف کے ذریعے اقتصادی خود مختاری کھو چکا ہے۔ آئی ایم ایف کی عہدیدار کا بیان ہو سکتا ہے کہ ان کی اپنی ضرورت ہو، اپوزیشن کو اس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔

میثاق معیشت کی بات کرنے والوں کو یہ دیکھ لینا چاہیے کہ جب معیشت پر آپ کا کنٹرول ہے نہ پالیسیوں پر، تو ایسی کوئی حرکت ”مذاق معیشت “ سے زیادہ کچھ ہو ہی نہیں سکتی۔ اب جب کہ حکومت نے اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لیے اپنے عزائم پہلے سے زیادہ واضح کردئیے ہیں تو اپوزیشن کو ساتھ میں آگے بڑھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اب یہ کہنے کی ضرورت باقی ہے کیا کہ اپوزیشن کو دیوار سے لگایا جا چکا ہے۔ گالیوں، گرفتاریوں، بلکہ گولیوں سے بھی حکومتیں چلتی ہوتیں تو جو آتا (خصوصاً ڈکٹیٹر حضرات) کبھی واپس نہ جاتا، سیاسی، عدالتی، معاشرتی اور سب سے بڑھ کر معاشی محاذوں پر چیلنج درپیش ہیں۔ دور دور تک ریلیف کا کوئی امکان نہیں۔ حکمران اشرافیہ مزے میں ہے۔

ایسی ایک شخصیت سے ایک محفل میں جب ڈالر مہنگا ہونے کی بات کی گئی تو تشویش ظاہر کرنے کی بجائے بے اعتنائی سے جواب ملا تو پھر کیا ہوا؟ یہ وہی رولنگ ایلیٹ ہے جن کے بچے خصوصی سکالر شپ پر باہر پڑھتے ہیں، وہیں رہتے ہیں، اور وہیں نوکریاں کرتے ہیں، مختلف ناموں سے بڑی بڑی جائیدادیں اور کاروبار پہلے سے سیٹ کر لیتے ہیں، پاکستانی عوام کو اس وقت صرف کمر توڑ مہنگائی ہی کا سامنا نہیں بلکہ ایسے حالات پیدا کر دیے گئے ہیں کہ آمدن بھی پہلے سے کہیں کم ہو گئی ہے اور ہوتی جا رہی ہے۔ چیلنجز انتہائی سنگین اور حقیقی ہیں۔ لیکن وہ قیادت کہاں ہے جو آگے بڑھ کر رہنمائی کرے گی۔ طے ہے کہ یہ نظام جوں کا توں چل نہیں سکتا۔ عوام کی رہنمائی کے دعویداروں کو آگے بڑھنا ہوگا۔ دوسری کوئی بھی صورت غیر منظم اور بہت زیادہ ہنگامہ خیز ہو سکتی ہے۔

ان دنوں یہ بھی نوٹ کیا جا رہا ہے کہ بعض صاحبان ایجنڈا میڈیا کارندے بھی ایسی خبریں دے رہے ہیں کہ کہیں تحریک چلنے والی ہے یا چل سکتی ہے اور یہ کہ حکومت ناکام ہو رہی ہے۔ غالب امکان یہی ہے کہ یہ کسی ایسے مشن پر ہیں جس کا مقصد حکومت کو تنگ کرنا ہے، ہو سکتا ہے ان کا کوئی کا م نہ ہوا ہے یا زیادہ لفٹ نہ ملی ہے۔ اوپر سے ملنے والی ڈیوٹی کے تحت بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو تمام پہلو مدنظر رکھ کر فیصلے کرنا ہونگے۔ متفقہ فیصلہ حتمی نتیجے میں قریب لے آئے گا۔ دوسری صورت میں شاید کچھ زیادہ وقت لگے، لیکن نقصان بھی پہلے سے بڑھ جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2