عرفان صدیقی قصور وار ہیں


نامور کالم نگار عرفان صدیقی کرایہ دار کی معلومات فراہم نہ کرنے کے جرم میں گرفتار کر لیے گئے۔ عینی شاہدین کے مطابق ملک کے اس خطرناک ترین شخص کو گرفتار کرنے کے لئے سادہ کپڑوں اور باوردی اہلکاروں کی اتنی بڑی تعداد آئی کہ جیسے کوئی بڑا دہشت گرد ہاتھ آیا ہو۔ انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے تو یقینا ان کے جرائم بھی سامنے آ ہی جائیں گے۔ بھلا حکومت ایویں ہی کسی کو گرفتار تو نہیں کرتی۔ یقینا پتہ چل جائے گا کہ انہوں نے کتنے خطرناک اور بڑے دہشتگردوں کو پناہ دے رکھی تھی۔

گزشتہ دنوں ان سے ملاقات ہوئی تو ان کے کچھ خفیہ گناہوں کا بھی علم ہوا۔ سوچا آپ کے ساتھ بھی شئیر کر دوں۔ انتہائی معذرت کے ساتھ سب سے پہلے اور بڑے قصور وار تو ہم خود ہیں جو عرفان صدیقی کے حب الوطنی اور اسلامی غیرت و حمیت میں ڈوبے کالم پڑھ پڑھ کر جوان ہوئے۔ ان کی خاطر اخبار پڑھنے کی عادت پڑی اور لکھنے کا جذبہ پیدا ہوا۔

گزشتہ دنوں کی ملاقات میں گلہ کیا کہ آپ نے لکھنا کیوں چھوڑ دیا۔ کہنے لگے کہ دو ہزار تیرہ میں جب مجھے حکومتی ذمہ داری ملی تو فیصلہ کیا کہ اب بطور صحافی تجزیہ ممکن نہیں۔ اس لئے لکھنا چھوڑ دیا۔ حکومت کا حصہ ہونے کی وجہ سے غیر جانبداری برقرار رکھنا مشکل ہوتا کیونکہ آپ کے ہر لفظ کو حکومتی موقف سمجھ لیا جاتا ہے۔

اگر آپ حیران ہو رہے ہیں کہ حکومت کو انہیں کرایہ داری جیسے الزام میں گرفتار کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ پانچ سال حکومت میں رہنے کے باوجود ان کے خلاف کوئی اور کیس سامنے کیوں نہیں لایا جا سکا تو اس کی وجہ آپ کو ایک واقعے سے سمجھ میں آ جائے گی۔ فیصل آباد کی ایک متحرک شخصیت جناب شفیق کاشف صاحب عرفان صدیقی صاحب کے انتہائی قریبی دوست ہیں۔ اکثر ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ عرفان صدیقی صاحب کو جب مشیر اطلاعات بنایا گیا تو کچھ عرصے بعد شفیق کاشف صاحب سے ملاقات میں اپنی خواہش کا اظہار کر بیٹھے۔ عرفان صدیقی صاحب کا لاہور میں اپنا گھر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی لاہور آتا ہوں تو وزارت کی جانب سے کسی ہوٹل میں قیام کرنا پڑتا ہے آپ سینیٹر حافظ عبدالکریم صاحب سے بات کریں کہ وہ اپنے مرکز میں ایک کمرہ دے دیں۔ میں چاہتا ہوں میرے لاہور میں قیام پر اتنے زیادہ سرکاری اخراجات نہ آئیں۔ شفیق کاشف صاحب نے سینیٹر حافظ عبدالکریم صاحب سے بات کی جو انہوں نے بخوشی قبول کر لی۔

بقول شفیق کاشف اسی دوران انہوں نے کلچرل آفس مال روڈ لاہور میں ایک کمرہ دیکھا جو کباڑ سے بھرا پڑا تھا۔ دفتری استعمال میں نہیں تھا۔ سٹاف سے بات کرکے ذاتی خرچ پر اس کو صاف کرایا۔ شفیق کاشف کے ساتھ جا کر لاہور کے معروف فرنیچر سٹور سے جس کا مالک تحریک انصاف کا عہدیدار بھی ہے اور عرفان صدیقی صاحب کا دوست۔ اس سے فرنیچر اس وعدے پر لیا کہ جیسے ہی میرا عہدہ ختم ہو گا تو واپس کر دوں گا۔ اس نے ذاتی تعلق کی بنا پر فرنیچر اور بیڈ وغیرہ ادھار دیا۔ اس طرح عرفان صدیقی صاحب پانچ سال وہیں قیام کرتے رہے۔ جب حکومت ختم ہوئی تو فرنیچر واپس کر دیا گیا۔

وزارت کی جانب سے ان کے ساتھ تعینات پروٹوکول آفیسر گزشتہ دنوں ملاقات میں شفیق کاشف صاحب کو بتا رہے تھے کہ اب بہت مصروف رہتا ہوں کیونکہ اب ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں کمروں کا اہتمام کرنا پڑتا ہے اور کھانے الگ سے۔

میرا خیال ہے کہ عرفان صدیقی صاحب کا یہ قصور کیا تھوڑا ہے کہ انہوں نے اپنے دور میں اس قدر احتیاط کی کہ کوئی سرکاری اخراجات ان کے نام نہیں نکل سکے اور اب انہیں کرایہ داری کے معاملے پر گرفتار کرنا پڑ رہا ہے۔ یقینا وہ مجرم ہی تو ہیں کہ بچتیں کرتے رہے۔ بہتر تھا سرکاری مراعات کے مزے اڑاتے اور سرکاری خرچے پر بڑے بڑے تعلقات بناتے۔ ہو سکتا تو نئی حکومت میں شامل ہو جاتے یا کسی بیرون ملک پرسکون سے بنگلے میں آرام سے اپنا اٹھتر سالہ بڑھاپا گزارتے۔ خیر وہ ایسا نہیں کر سکے تو بھی انہی کا قصور ہے۔

انہوں نے کوئی اور وجہ نہیں چھوڑی تو کرایہ داری پر گرفتار ہوئے۔ یہ بھی ان کا ہی قصور ہے اور سب سے بڑا قصور ہم جیسوں کا ہے جو انہیں دانشور اور محب وطن لکھاری سمجھتے رہے ہیں۔ اب وہ گرفتار ہو گئے ہیں تو حکمت و دانائی کا تقاضا یہی ہے کہ ہم بھی ان سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں۔ عرفان صدیقی جیسوں کا انجام یہی ہے۔ انہیں ضرور سزا ملنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).