کراچی ڈرامہ، خودکش دھماکہ اور پاکستانی


\"edit\"سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن کی کراچی میں اچانک گرفتاری اور رہائی کے دوران جو مناظر دیکھنے میں آئے، ان میں سب سے پراثر منظر معطل ایس ایس پی راؤ انوار کی پریس کانفرنس تھی جس میں انہوں نے ملک کے وزیراعظم نواز شریف کے اس موقف کو مسترد کر دیا کہ کسی رکن اسمبلی کی گرفتاری اسپیکر کی اجازت کے بغیر عمل میں نہیں آ سکتی۔ ملک کے بااختیار وزیراعظم کو دوٹوک جواب دیتے ہوئے راؤ انوار نے واضح کیا کہ خواجہ اظہار الحسن ہی نہیں ڈاکٹر فاروق ستار سمیت ان سب لوگوں کو گرفتار ہونا چاہئے جن کے خلاف ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہو چکے ہیں۔ ان لوگوں کو صرف عدالتیں ہی رہا کر سکتی ہیں۔ یوں اس ملک میں جمہوریت کو تماشہ قرار دینے والے اور اس کے مستقبل سے مایوس لوگوں کو اس نظارہ سے سبق سیکھنا چاہئے کہ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے مل کر ملک میں جمہوری روایت کو اس قدر راسخ کر دیا ہے کہ اگر وزیراعظم بھی قانون کے حوالے سے غلط بات کہے گا تو قانون کے رکھوالے اس کی تردید کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ تاہم آج اس حوالے سے جو ڈرامہ کراچی میں رچایا گیا ہے، ملک میں جمہوریت اس کے بغیر بھی پھل پھول رہی تھی۔ اس لئے یہ ملین ڈالر سوال جواب طلب ہی رہے گا کہ آخر پولیس کو یہ مستعدی دکھانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے اس واقعہ پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ وہ چند روز قبل ایک حادثہ میں زخمی ہونے کے بعد گزشتہ روز ہی اسپتال سے ڈسچارج ہوئے تھے۔ لیکن بازو پر سہارا باندھنے کے باوجود وہ خواجہ اظہار الحسن کے گھر پولیس کے چھاپہ کی اطلاع ملتے ہی وہاں پہنچے۔ اسی دوران ایس ایس پی ملیر راؤ انوار ایک بکتر بند گاڑی اور پولیس پارٹی کے ساتھ بھی وہاں پہنچ گئے۔ گرفتاری کے وقت خواجہ اظہار، ان کے اہل خانہ کے علاوہ ڈاکٹر فاروق ستار کو بھی شدید دھکم پیل کا نشانہ بننا پڑا۔ اور یہ منظر مستعد ٹیلی ویژن کیمروں کی آنکھ سے پورے پاکستان نے دیکھا۔ اس طرح عبرت حاصل کرنے والوں نے شاید کانوں کو ہاتھ لگائے ہوں کہ ایسی سیاست سے توبہ ہی بھلی کہ پولیس کسی وارننگ کے بغیر دھم دھم کرتی گھر میں گھس آئے اور سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کو کوئی وجہ بتائے بغیر ہاتھ باندھ کر دھکے دیتے ہوئے بکتر بند گاڑی میں ڈال کر ساتھ لے جائے۔

ڈاکٹر فاروق ستار کا دعویٰ ہے کہ پولیس نے وارنٹ دکھانے سے انکار کردیا اور نہ ہی یہ بتایا کہ خواجہ صاحب کو کس الزام میں گرفتار کیا جا رہا ہے۔ تاہم ایس ایس پی راؤ انوار کا موقف تو واضح ہے کہ ان کے خلاف ایف آئی آرز درج ہیں اور بعض مقدمات میں ضمانت نہ ہونے کی وجہ سے انسداد دہشت گردی عدالت کے احکامات کی پیروی کے لئے انہیں گرفتار کیا گیا تھا۔ قانون کا یہ ’’احترام‘‘ سہراب گوٹھ کے ایس ایچ او کے ساتھ راؤ انوار کو بھی مہنگا پڑا۔ ان دونوں کو وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بالترتیب خواجہ اظہار الحسن کے گھر چھاپہ مارنے اور انہیں گرفتار کرنے کے ’’جرم‘‘ میں معطل کر دیا ہے۔ ایس ایچ او سہراب گوٹھ نے اسے تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا لیکن ایس ایس پی راؤ انوار نے وزیراعلیٰ کو بھی کھری کھری سنا دیں کہ جو لوگ قانون پر عمل کروانے کےلئے کام کرتے ہیں، انہیں تو معطل کیا جا رہا ہے لیکن جو اس حوالے سے آنکھیں موندے رہتے ہیں وہ سرکاری عہدوں کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ انہیں غصہ تو اس قدر تھا کہ وہ اسی دم اس نوکری کو وزیراعلیٰ کے منہ پر مار دیتے لیکن جوش میں ہوش سے کام لیتے ہوئے انہوں نے منہ پر آئی ہوئی استعفیٰ کی بات کو ضبط کر لیا اور قانون کی توہین پر سر پیٹ کر رہ گئے۔

راؤ انوار جیسے افسروں کا دم غنیمت ہے کہ وہ ’’حق پرستی‘‘ کےلئے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کی بھی پروا کرنے پر تیار نہیں۔ لیکن ان کی قانون کا احترام کرنے کی حس اسی وقت بیدار ہوتی ہے جب بعض عناصر کو کوئی ڈرامہ اسٹیج کروانا ہوتا ہے۔ بصورت دیگر راؤ انوار ہو یا پولیس کے دوسرے افسر ، آنکھوں پر ایسے چشمے چڑھا لیتے ہیں جن میں انہیں صرف ان لوگوں کی قانون شکنی دکھائی دیتی ہے، جن کا کوئی والی وارث نہ ہو۔ اسی لئے ڈاکٹر فاروق ستار نے یہ شکوہ کیا ہے کہ ایم کیو ایم کو آخر کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے۔ اور الزام لگایا ہے کہ راؤ انوار سابق صدر آصف علی زرداری کا خاص آدمی ہے اور ان کے حکم پر ہی خواجہ اظہار الحسن کے خلاف کارروائی کرنے کےلئے آیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی اس بات کو مان لیا جائے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ آصف علی زردار دبئی سے اپنی ہی پارٹی کی حکومت اور خود اپنی مرضی سے مقرر کردہ وزیراعلیٰ کے اختیار کو چیلنج کرنے کےلئے اقدام کر رہے ہیں۔

زرداری کو سیاست کے کھیل کا بادشاہ کہا جاتا ہے، اس لئے ہو سکتا ہے اس چال میں بھی کوئی ایسی حکمت پوشیدہ ہو جس کے بارے میں عام فہم کے لوگوں کو کچھ مدت گزرنے کے بعد ہی خبر ہو سکے۔ اس میں ایک دور کی یہ کوڑی تلاش کی جا سکتی ہے کہ آصف زرداری نے اپنے نئے نویلے وزیراعلیٰ کی مستعدی اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو جانچنے کےلئے ہی راؤ انوار کو ’’تماشہ‘‘ کرنے کا حکم دیا ہو۔ تا کہ وہ یہ دیکھ سکیں کہ کیا وزیراعلیٰ مراد علی شاہ، سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کی طرح محو خواب تو نہیں ہیں اور کسی غیر قانونی حرکت پر حرکت میں آتے ہیں یا وہ بھی اسے تقدیر کا لکھا جان کر صبر کا گھونٹ پی کر خاموش رہتے ہیں۔ اب یہ کہنا مشکل ہے کہ مراد علی شاہ نے آصف زرداری کی توقع کے مطابق عمل کیا ہے یا وہ اپنے باس کے اس اچانک خفیہ امتحان میں ناکام ہو گئے ہیں۔ سندھ کی سیاست پیچیدہ اور مشکل ہے لیکن درون خانہ جھانکنے والے جلد یا بدیر کوئی خبر تو نکال ہی لائیں گے۔

جلا وطنی سے حکمرانی کرنے کا جو مزہ آصف علی زرداری اٹھا رہے ہیں، اس میں ان کے مدمقابل صرف الطاف حسین تھے۔ البتہ 22 اگست کے منحوس دن کے بعد ان کے اس اختیار کو تو دشمنوں کی نظر لگ گئی۔ اب آصف زرداری اس میدان کے اکلوتے کھلاڑی ہیں۔ اب وہ جیسے چاہیں پینترے بدل سکتے ہیں۔ مدمقابل نہ ہو تو سیاست کے بادشاہ کو مہرے چلنے میں زیادہ لطف آتا ہے۔ زرداری بھی شاید اسی کیفیت کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ اسی لئے آج جو کراچی میں ہوا وہ صرف سیاستدانوں یا پولیس کےلئے ہی لطف اٹھانے کا منظر نہیں تھا بلکہ ملک کے بیباک میڈیا کی بدولت ملک بھر کے ناظرین بھی اس تماشہ کا نظارہ کرتے رہے اور اب آنے والے دنوں میں اس موضوع پر ہونے والے ٹاک شوز اور مباحث کے ذریعے دن رات مزید رنگین اور بارونق بنائے جائیں گے۔ اس دوران سندھ حکومت اپنے چہیتے افسروں کو راضی کرنے کےلئے کوئی نہ کوئی راستہ تو نکال ہی لے گی۔

ملک کے جن لوگوں کو سیاسی کھینچا تانی کا یہ کھیل دیکھنے پر مجبور کیا جا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔ وہ البتہ آج مہمند ایجنسی میں ہونے والے خودکش دھماکے کے غم میں نڈھال تھے۔ اس سانحہ میں 28 افراد جاں بحق اور دو درجن سے زائد زخمی ہوئے۔ ابھی پاکستان کا عام شہری یہ سمجھنے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ وہ فوج کی طرف سے دہشت گردوں کو ختم کر دینے کے دعوؤں پر اعتبار کرے یا تخریب کاروں کے عملی اقدام پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی حفاظت اور ملک کی سلامتی کے بارے میں مزید پریشان ہو جائے۔ ان خاموش شہریوں کےلئے یہ بات بھی پریشانی اور تشویش کا سبب ہے کہ امریکہ بدستور پاکستانی فوج کی حوصلہ افزائی بھی کر رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ دعویٰ بھی کرتا ہے کہ پاکستانی فوج جب تک دوسرے ملکوں میں جا کر دہشت پھیلانے والوں کو برداشت کرتی رہے گی، اس وقت تک خطے میں (ایسے بیان میں جب خطہ کہا جائے تو اسے پاکستان پڑھنا زیادہ مناسب ہے) امن بحال نہیں ہو سکتا۔ جو زہرناک بیان واشنگٹن سے شہد میں لپیٹ کر دیئے جاتے ہیں، مودی ۔ اشرف غنی ملاقات میں انہیں دوٹوک اور واضح الفاظ میں کہہ دیا جاتا ہے۔ یعنی جب تک پاکستان دہشت گردوں کی سرپرستی کرتا رہے گا، اس وقت تک نہ افغانستان میں امن ہو گا نہ مقبوضہ کشمیر میں احتجاج ختم ہوں گے۔ ایسے میں کسی کو پاکستان میں دہشت گردوں کے ہاتھوں جان ہار دینے والے یاد نہیں رہتے۔ سب اپنی اپنی غلطیوں کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دے کر اپنا ضمیر مطمئن اور سیاسی ضرورتیں پورا کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ کشمیری عوام کی تحریک آذادی کے خلاف بھارتی افواج کے غیر انسانی مظالم پر پاکستان کے احتجاج اور کوئٹہ کے بعد مردان اور مہمند میں کثیر جانی نقصان کے واقعات میں کوئی تعلق تو قائم ہونا چاہئے۔

وزیراعظم نواز شریف آج کشمیری لیڈروں سے ملاقات کر رہے ہیں۔ آرمی چیف کے ساتھ مل کر یہ حکمت عملی طے کر رہے ہیں کہ اقوام متحدہ میں کشمیر کے معاملہ میں پاکستان کا موقف کس طرح پیش کیا جائے۔ اقوام عالم کو کیوں کر یہ یقین دلایا جائے کہ مقبوضہ کشمیر میں بپھرے ہوئے کشمیریوں کی تحریک آزادی اور حق خود اختیاری حاصل کرنے کا مطالبہ نہتے شہریوں کا جوش و ولولہ ہے۔ وہ مسلح مزاحمت نہیں ہے۔ عام کشمیری شہری، جن میں مزدور ، دکان دار اور ملازم پیشہ لوگ شامل ہیں، اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر نئی دہلی حکومت اور دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ ان کا وطن ہے۔ وہ اس سرزمین کے باشندے ہیں۔ اس کے مستقبل کے بارے میں سیاسی مصلحتوں سے لبریز اور کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دینے والے سیاستدان فیصلہ نہیں کر سکتے۔

پاکستان ان کا مقدمہ اقوام عالم کے سامنے لانا چاہتا ہے۔ بھارت اس راستے میں ہر رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرے گا۔ وہ پاکستان دشمن عناصر کو استعمال کرے گا، بلوچستان میں پائی جانے والی بے چینی کو بڑھانے کی کوشش کرے گا اور دہشت گردی کو پاکستان کا تحفہ قرار دے کر دنیا کو گمراہ کرنے کا جتن بھی کرے گا۔ وہ چاہتا ہے کہ پاکستان تنہا ہو جائے۔ اسے دنیا کے مسائل کی جڑ مان لیا جائے۔ چین کو اس قدر خوفزدہ کر دیا جائے کہ وہ اقتصادی راہداری کے منصوبہ پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو جائے۔ اس حکمت عملی میں بھارت کا حجم اور اس کی معاشی قوت اس کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ امریکہ جیسی سپر پاور اس کی ان خوبیوں کی وجہ سے اس کے سامنے پانی بھرنے پر مجبور دکھائی دیتی ہے۔

اس دوران پاکستان کے سیاستدان دنیا بھر کو یہ بتانے میں مصروف ہیں کہ ان کا وزیراعظم جھوٹا ، بے ایمان اور بدعنوان ہے۔ وہ جو کہے اس پر اعتبار نہ کیا جائے کیونکہ وہ کشمیریوں کا مقدمہ پیش کرنے نہیں بلکہ شاپنگ اور امریکہ کی سیر کےلئے اقوام متحدہ جا رہا ہے۔ دوبئی کے بازی گر کراچی میں تماشہ لگا کر اپنی چابک دستی کی داد وصول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن ان ہنرمندیوں کو دیکھنے والے لوگوں کی پریشانیاں کچھ اور ہیں۔ وہ اپنے ملک اور اس کے مستقبل کے بارے میں بدحواس ہیں کیوں کہ ان کے بچوں کی تقدیر اسی دھرتی سے وابستہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments