برطانوی سفیر کا قبول اسلام اور برطانوی حکومت کا عدم ردِعمل


\"malik-aftab-ahmed-awan\"اس سال حج کے موقع پر ایک خبر خاصی نمایاں رہی اور وہ خبر تھی سعودی عرب میں برطانوی سفیر کے اسلام قبول کرنے اور اور فریضئہ حج ادا کرنے کی۔ یقیناً بحیثیت مسلمان یہ خبر ہم سب کے لئے خوشی کا باعث تھی اور ساری دنیا سے محترم سائمن کولس کو مبارکباد کے پیغامات بھی ملے۔ مگر اس سارے قصے میں سب سے اہم اور قابلِ غور چیز برطانوی حکومت، میڈیا اور عوام کا اس عمل پر عدم ردِعمل تھا۔ اگر محتاط ترین الفاظ میں بھی کہا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ محترم سفیر کے قبول اسلام کی وجہ سے وہاں کسی کے کان پر جوں بھی نہیں رینگی۔

اب ذرا تصور کریں کہ اٹلی میں پاکستانی سفیر یا سفارت خانے کے کسی اور اہم عہدیدار نے مسیحیت قبول کر لی ہوتی اور ویٹیکن میں حاضری دی ہوتی تو تو اس عمل پر پاکستان میں کس قسم کا ردِعمل سامنے آنا تھا۔ یقیناً آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ اب تک ان سفیر کی اس حرکت کے نتیجے میں نواز شریف حکومت پر کم از کم غداری کا الزام تو لگ ہی چکا ہوتا کہ اب تک ان کو واپس کیوں نہیں بلایا گیا۔ اس کے علاوہ اس عمل کے پیچھے بہت سے عالمی صیہونی سازشوں کی خبر بھی لائی جا چکی ہوتی۔ ان کے پاکستان میں موجود اہلِ خانہ کے ساتھ بھی کچھ کم نہ ہوتی۔ ہو سکتا ہے آپ مجھ سے کہیں کہ یہ محض میرے مفروضات ہیں اور پاکستان میں ایسا کچھ نہ ہوتا مگر جناب آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی کہ پاکستان میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جس کی بنیاد پر یہ سب کچھ تصور کرنا بے جا نہیں –

پاکستان سے ہر سال درجنوں تبیلغی جماعتیں دنیا کے مختلف ممالک کو جن میں یورپی ممالک اور امریکہ شامل ہیں جاتی ہیں۔ اکثر اجتماعات اور تقاریب میں ان تبلیغی دوروں کی وجہ سے کافی لوگوں کے اسلام قبول کرنے کا فخریہ ذکر بھی ہوتا ہے۔ مگر کیا کسی کو اجازت ہے کہ وہ پاکستان میں آ کر مسیحیت یا کسی اور مذہب کی کھلے عام یا ڈھکے چھپے انداز میں تبلیغ کرے اور لوگوں کو اپنے مذہب کی طرف راغب کرے۔ یہاں تو مسیحی مشنری سکولوں اور اسپتالوں تک کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کہ یہ لوگوں کو اچھی خدمات ہی اس لئے دے رہے ہیں کہ لوگوں کو بہکا سکیں۔ اور مرتد کی سزا تو آپ جانتے ہی ہیں۔ اگر ہماری عدالتیں ایسی سزائیں دینے میں کچھ چوں چراں کریں تو ہر گلی محلے میں کھلی عوامی عدالتیں یہ فرض کفایہ ادا کرنے کو ہر دم تیار تو ہیں ہی۔ اگر کسی دوسرے ملک میں رہنے والا کوئی نمایاں حیثیت رکھنے والا پاکستانی مسلمان مرتد ہو جائے تو کیا ان ریڈی میڈ عدالتوں کی موجودگی میں اس کے لئے پاکستان میں بحفاظت واپسی ممکن ہو گی ؟

دوسرے ملکوں میں جا کر اسلام سے پھر جانا تو خیر ایک بہت بڑی بات ہے ہماری چند اداکاراؤں نے دوسرے ممالک میں جا کر جب اداکاری کے \’جوہر\’ دکھائے تو یہاں جو طوفان اٹھا اور جو غیرت کے آبگینوں کو ٹھیس پہنچی وہ اپنی مثال آپ تھی- جو غیرت نواب پور میں خواتین کو قصبے کی گلیوں میں برہنہ پھرانے پر ٹس سے مس نہ ہوئی اور مختاراں مائی کی اجتماعی آبرو ریزی پر بھنگ پی کر سوئی رہی، وہ وینا ملک کی نیم برہنہ تصاویر پر انگڑائی لے کر اس طرح جاگی کہ باید و شاید۔ شاید کسی کو یاد ہو انیتا ایوب نامی ایک اداکارہ ہوا کرتیں تھیں انہوں نے کسی مقابلہ حسن میں شرکت کر لی تو اسی قسم کا طوفان اٹھایا گیا تھا اور ان کا پاکستان میں رہنا محال ہو گیا تھا۔

محترم سائمن کولس نے جو کیا وہ بحیثیت ایک عاقل اور بالغ انسان کے ان کا حق تھا اور برطانوی حکومت، میڈیا اور عوام اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک مذہب ایک انسان کا ذاتی فعل ہے اور کسی ریاست اور انسان کو اس میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں۔ ریاست فرد سے معاملہ اس کی اہلیت اور قابلیت کے مطابق کرتی ہے نہ کہ فرد کے مذہب کے مطابق۔ اب چاہے سائمن کولس صاحب مسیحی ہوں یا مسلمان، برطانوی حکومت کو کوئی غرض نہیں۔ ریاست کو غرض ہے تو اس بات سے کہ آیا وہ اپنے فرائض منصبی احسن طریقے سے ادا کر رہے ہیں یا نہیں اور برطانوی حکومت کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں یا نہیں اور یہی صحیح طرز عمل ہے۔

ہمیں بھی یہی بات سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ بہت سی چیزیں افراد کے انفرادی معاملات کے زمرے میں آتی ہیں اور ریاست کو، میڈیا کو اور عوام کو ان پر توجہ دینے کی کوئی خاص ضرورت نہیں بلکہ حق نہیں۔ اسی طریقے سے افراد کی بہترین صلاحیتوں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ ہم جس بات کا حق دوسروں سے مانگتے ہیں اور جس پر فخر کرتے ہیں وہ ہمیں دوسروں کو دینے کے لئے بھی تیار ہونا چاہئے۔ کیونکہ یہی مہذب اقوام کا وطیرہ ہوتا ہے۔ ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کل یہ حق بھی ہم سے چھین لیا جائے اور ہم ایک بار پھر مغرب کی تنگ نظری کا بے جا رونا رو رہے ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments