معاشی بدحالی عمران خان کی مقبولیت کو نگل لے گی


عمران خان کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ بدعنوانی کے نعرے ملک کی دونوں اہم اور بڑی سیاسی پارٹیوں کی اہمیت اور حیثیت ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ اب معاملہ سیاسی لیڈروں کو سخت سزائیں دلوانے کی بات کرنے سے بڑھ کر نواز شریف اور آصف زرداری کے ائیر کنڈیشنر اور ٹی وی سیٹ ہٹوانے کے اعلانات تک پہنچ چکا ہے۔ اس نئی نعرے بازی سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ حکومت احتساب کو نظام کا مؤثر ہتھکنڈا بنانے میں ناکام ہو رہی ہے۔ اس ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ ایک ایسے عمل کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا ہے جو دراصل ریاست اور اس کے لوگوں کے خلاف جرائم کرنے والے عناصر کا قلع قمع کرنے کے لئے استعمال ہونا چاہیے۔

این آر او نہ دینے اور ’کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘ کے نعرے لگانے کی بجائے تحریک انصاف کی حکومت اگر نیب کی خود مختاری کو یقینی بنانے، احتساب کو صرف سیاسی قیادت تک محدود نہ رکھنے اور تفتیش و تحقیق کے جدید اور مؤثر طریقے روشناس کروانے کی کوشش کرتی تو بدعنوانی کے خلاف جنگ فیصلہ کن موڑ اختیار کرسکتی تھی۔ عمران خان یا تحریک انصاف اس بات کا کیا جواب دیں گے کہ پاناما کیس میں چار سو سے زائد پاکستانیوں کے نام تھے لیکن سزا صرف نواز شریف اور مریم نواز کو دی گئی ہے۔

تحریک انصاف نے شدت سے احتساب کو سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کرنے کے باوجود اس عمل کو شفاف اور غیر جانبدارانہ بنانے کے لئے قانون سازی کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ عمران خان ایک طرف یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ ’کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘ لیکن دوسری طرف وہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ نواز شریف اور آصف زرداری جن مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں، وہ ان کی حکومت نے نہیں بلکہ ان دونوں نے اپنے اپنے اقتدار کے دوران ایک دوسرے کو گرفت میں لینے کے لئے قائمکیے تھے۔

گویا وہ شفاف احتساب کے اصول کو خود ہی مسترد کرنے کا باعث بھی بنتے ہیں۔ اور اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ ان لوگوں نے ایک دوسرے کے لئے جو جال بچھائے تھے، اب وہ دونوں ہی اس میں پھنسے ہوئے ہیں۔ عمران خان کی یہی باتیں احتساب کو سماجی برائی کے خلاف ریاستی کارروائی سے زیادہ سیاسی انتقامی اقدام قرار دیتی ہیں۔ عمران خان اپنی سادہ لوحی میں مسلسل یہ بتاتے ہیں کہ احتساب کا عمل سیاسی مقاصد سے آلودہ ہے لیکن ان کے دشمن چونکہ حصار میں ہیں، اس لئے وہ مطمئن اور خوش ہیں۔

کسی ملک میں احتساب کی کامیابی اور بلاتفریق تمام لوگوں کو اس کے سامنے جوابدہ کرنے کے لئے یہ بات بنیادی اہمیت رکھتی ہے کہ یہ نظام سیاسی مداخلت سے آلودہ نہ ہو اور اس کی گرفت صرف حکمرانوں کے ایک خاص طبقہ تک ہی نہ ہو۔ اس وقت قومی احتساب بیورو میڈیا میں شہرت حاصل کرنے اور سیاسی لیڈروں کی گرفت کرنے کی حکمت عملی پر گامزن ہے لیکن اس کے سربراہ کا کردار مشکوک ہے اور وہ اپنے اعمال کا جواب دینے کے لئے پریس کانفرنس یا پریس ریلیز جاری کرنا ہی کافی سمجھتے ہیں۔ عمران خان اگر احتساب کی حساسیت سے آگاہ ہوتے تو وہ غیر موافق فیصلہ لکھنے والے ججوں کے خلاف ریفرنس بھجوانے کی بجائے نیب کے سربراہ کے بارے میں سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کرتے۔

یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ سیاست دان کا احتساب ہو سکتا ہے لیکن کسی مقبول سیاسی پارٹی کو کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔ عوام اپنے ووٹوں کے ذریعے جسے بھی منتخب کر کے اسمبلیوں میں بھیجیں ان کا احترام واجب ہے۔ اسمبلیوں میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے عوامی نمائیندوں کو بے وقعت کرنے سے جمہوریت مضبوط نہیں ہوسکتی۔ عمران خان کو ملک میں وسیع تر سیاسی ہم آہنگی کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔ سیاسی مفاہمت اپوزیشن کی نہیں، حکومت کی ضرورت ہے۔ اسی کے ذریعے قوم کو موجودہ معاشی و سیاسی بحران سے بچایا جا سکتا ہے۔

سیاسی لیڈروں کی باہمی کشمکش کی وجہ سے ہی ملک میں جمہوریت، طاقت ور اداروں کے رحم و کرم پر رہی ہے۔ عمران خان تصادم کو ختم کرکے قومی تعمیر کے منصوبہ پر عمل پیرا نہ ہوئے تو موجودہ معاشی بدحالی ان کی سیاسی مقبولیت کو نگل لے گی۔ پھر ایک پیج والوں کو بھی ان کی ضرورت محسوس نہیں ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali