سبز ہلالی پرچم میں لپٹی کشمیری بچے کی لاش


\"edit\"گیارہ سالہ ناصر شفیع کل رات سری نگر کے ایک اسپتال میں دم توڑ گیا۔ اسے نماز جنازہ کےلئے لایا گیا تو اس کی میت پاکستانی جھنڈے میں لپٹی ہوئی تھی۔ مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی جھنڈا پاکستان سے محبت کے اظہار کی بجائے بھارتی استبداد سے نفرت اور حق خود اختیاری کے مطالبے کی علامت کے طور پر بلند کیا جاتا ہے۔ نئی دہلی میں بیٹھے سیاستدان کشمیری عوام کے اس جذبہ آزادی کو سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ مقبوضہ کشیر میں حکمران پی ڈی پی کے بھارتی لوک سبھا کے رکن طارق حمید کرا نے دو روز قبل پارٹی اور اپنی نشست سے استعفیٰ دیتے ہوئے کشمیری عوام پر ہونے والے مظالم کو نازی فوج کے استبداد سے بھی بدتر قرار دیا تھا۔ انہوں نے واضح کیا تھا کہ نریندر مودی کی سرپرستی میں حکومت اور بھارتیہ جنتا پارٹی ملک میں نفرت پھیلانے اور اقلیتوں کےلئے حالات ناسازگار بنانے کا سبب ہے۔ اس سے شاندار بھارت اب عدم رواداری کا نمونہ بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری ریاست میں باپ اپنے معصوم بچوں کے جنازے اٹھا رہے ہیں۔ عوام پر گولیاں برسائی جا رہی ہیں۔ ریاست کی حکومت لاتعلق اور بے بس ہے ۔ ان حالات میں ایسی جابرانہ پالیسیاں نافذ کرنے والے عناصر کا ساتھ دینا میرے ضمیر کی آواز کے خلاف ہے۔ دس گیارہ برس کے بچوں کو بندوق کی زد پر لینے والی حکومت کے نمائندے اب بین الاقوامی اداروں میں ”سب اچھا ہے“ کا نعرہ لگا کر پاکستان کو تمام مسائل کی جڑ قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ناصر شفیع عام سا اسکول جانے والا بچہ تھا۔ وہ نوجوانوں کی نعرے بازی دیکھنے کےلئے گھر سے نکلا تھا کہ انسانوں کو معذور ، ناکارہ اور نابینا کرنے والے چھروں والے کارتوس اسے بھی آ کر لگے۔ شدید زخمی حالت میں اسے اسپتال لے جایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکا۔ جب اس کے والد اور عزیز ، احباب اور محلہ دار اس کی میت کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر سپرد خاک کر رہے تھے تو وہاں کوئی بھی پاکستان کا ایجنٹ نہیں تھا۔ وہ سارے کشمیری تھے۔ وہ اسی دھرتی پر پیدا ہوئے اور اسی کے سینے میں دفن ہو جانے کی آرزو رکھتے ہیں۔ وہ غدار وطن نہیں ہیں لیکن وہ اپنی سرزمین پر زبردستی قبضہ کرنے والوں کو برداشت کرنے کےلئے تیار نہیں ہیں۔ بھارتی حکومت نے احتجاج اور سیاسی اختلاف رجسٹر کروانے کے سارے راستے بند کر دیئے ہیں۔ بھارت کو ہندو ریاست بنانے کا خواب دیکھنے والے حکمران لوگوں کی چیخ و پکار سننے پر آمادہ نہیں ہیں۔ ستر روز سے مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ ہے۔ عیدالاضحیٰ پر لوگوں کو نماز ادا کرنے اور خوشی منانے کا حق نہیں دیا گیا۔ ان دنوں میں 90 نوجوان، بھارتی فورسز کے ہاتھوں جاں بحق ہو چکے ہیں۔ دس ہزار اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ سینکڑوں آنکھوں میں چھرے لگنے کی وجہ سے یا تو بینائی سے محروم ہو چکے ہیں یا وہ نابینا ہو سکتے ہیں۔ کشمیر کے گلی کوچوں میں فوجی اور سکیورٹی فورسز کے ایسے اہلکار تعینات ہیں جو آزادی کا نعرہ بلند کرنے والے نوجوانوں پر کبھی براہ راست فائرنگ کرتے ہیں، کبھی انہیں چھروں سے زد و کوب کیا جاتا ہے، کبھی آنسو گیس سے ہجوم کو منتشر کرنے کی کوشش ہوتی ہے اور کبھی مرچوں بھرے بم پھوڑ کر گھروں میں بند بچوں اور عورتوں تک کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ طاقت کے زور پر دیوار سے لگائے ہوئے نہتے لوگ صرف نعرہ ہی لگا سکتے ہیں۔ مجبوری کے عالم میں آزادی کی خواہش کے اظہار کےلئے پاکستانی جھنڈا ہی بلند کر سکتے ہیں۔

بھارت کشمیری عوام کے علاوہ پاکستان سے بھی اس صورتحال کا انتقام لینا چاہتا ہے۔ نئی دہلی کی وزارت خارجہ کے کئی اہلکار وزیر خارجہ سشما سوراج کی تقریر تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ اس میں پاکستان کو دہشت گردی کا سرپرست ، بھارت کے مسائل کا ذمہ دار ، کشمیر میں احتجاج کا محرک اور بلوچستان میں عوام کے حقوق مسترد کرنے والے ایک غیرانسانی ملک اور حکومت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ وزیراعظم نواز شریف 21 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا پردہ چاک کریں گے۔ وہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے اور اقوام متحدہ کو اپنی ہی منظور کردہ قراردادوں پر عملدرآمد کےلئے اقدام کرنے کی دہائی دیں گے۔ وہ بتائیں گے کہ مقبوضہ کشمیر کی گلیوں میں گیارہ سال کے ناصر شفیع کو کس جرم کی سزا دی گئی ہے۔ اس کو تو آزادی کا مفہوم بھی پوری طرح معلوم نہیں ہو گا۔ 2009 میں 15 سال کے برہان وانی کو بھی صرف یہ پتہ تھا کہ اس کے بے گناہ بھائی کو بھارتی سکیورٹی فورسز نے تشدد کر کے مار ڈالا تھا۔ اس نے ماں باپ کا عافیت کدہ چھوڑا اور اس جہدوجہد میں شامل ہو گیا جو اپنے وطن کو قابض افواج سے واگزار کروانے کےلئے کی جا رہی تھی۔ گیارہ سال کے بچے کو ہلاک اور پندرہ سال کے بچے کے ہاتھ میں بندوق دینے والی حکومت نہایت معصومیت سے پوچھتی ہے کہ اس کا کیا قصور ہے۔ ہنگامہ تو وہ لوگ کرتے ہیں جو سڑکوں پر نکلتے ہیں۔ جو پاکستان کا جھنڈا اٹھاتے ہیں اور بھارت سے آزادی چاہتے ہیں۔ بھارت کو اپنے گریبان میں جھانک کر اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہوگا کہ بچوں کے ہاتھ میں بندوق اور نوجوانوں کی زبانوں پر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لانے کا ذمہ دار کون ہے۔

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی دعوے دار حکومت کسی قانون اور اصول کو ماننے کےلئے تیار نہیں ہے۔ اسی لئے اسے اپنی فورسز کے ظلم میں قانون کی بالا دستی دکھائی دیتی ہے، عالمی فورم پر کشمیری عوام سے کئے گئے وعدوں سے انحراف اسے یاد نہیں رہتا۔ جب تک بھارتی حکومت ڈھٹائی اور بے شرمی سے کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دیتی رہے گی، وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہے گی کہ کشمیر کی گلیوں میں بچے مرنے یا زخمی ہونے کی پرواہ کئے بغیر کیوں فوجیوں پر پتھر پھینکنے سے خوفزدہ نہیں ہوتے۔ کیوں گیارہ برس کے معصوم شہید کے باپ کو اپنے بچے کی میت پر پاکستانی پرچم ڈالنے سے ڈر نہیں لگتا۔ مواصلت اور ضروریات زندگی میسر نہ ہونے کے باوجود ، روزگار سے محروم ہوتے ہوئے بھی، افق پر امید کی کرن نظر نہ آنے کے باوصف کشمیری عوام کیوں بھارتی سکیورٹی فورسز کے نافذ کردہ کرفیو کی خلاف ورزی کا حوصلہ کر لیتے ہیں۔ یہ آزادی کی تمنا ہے۔ اس آرزو کو نہ تو دبایا جا سکتا ہے اور نہ اس کی خواہش کرنے والوں کو ہمیشہ کےلئے اس حق سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ ناصر شفیع کے خون نے اس خواہش اور عزم پر مہر تصدیق ثبت کی ہے کہ بالآخر کشمیری عوام آزادی حاصل کرکے رہیں گے۔

یہ حق دینے سے انکار کرنے والی حکومت کے نمائندوں نے جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں کشمیر کی صورتحال کو وقتی تشدد قرار دیتے ہوئے پاکستان کو انسانی حقوق کا سب سے بڑا دشمن قرار دینے کی کوشش کی۔ پاکستان کی مندوب تہمینہ جنجوعہ نے اس الزام کا جواب دیتے ہوئے واضح کیا کہ کشمیر کے سوال پر عالمی برادری سے کئے ہوئے وعدوں سے انکار کرکے بھارت دراصل تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں ہے۔ یہ کشمیری عوام کا وطن ہے اور وہی اس کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو منظور کرنے کے بعد انہیں تسلیم کرنے اور استصواب کے اصول پر عملدرآمد سے انکار کیا ہے۔ کشمیری عوام کے خلاف مظالم اور جبر کی سنگینی کو چھپانے کے لئے پاکستان کے صوبے بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سوال اٹھایا جا رہا ہے۔ محترمہ تہمینہ جنجوعہ نے واضح کیا کہ بلوچستان خالصتاً پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ بھارت میں انسانی حقوق کی بھیانک صورتحال پر بات کرنے سے گریز کیا ہے لیکن کشمیر کا معاملہ جدا ہے۔ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ اس کے مستقبل کا فیصلہ صرف کشمیری عوام کے حق خود اختیاری کے ذریعے ہو سکتا ہے۔ پاکستانی مندوب نے عالمی برادری کو بتایا ہے کہ بلوچستان کے بارے میں بات کر کے بھارت ہمسایہ ملکوں کے معاملات میں مداخلت کی دیرینہ پالیسی پر عمل کر رہا ہے۔

جنیوا کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں از سر نو نوک جھونک ہوگی اور الزام تراشی کی کوشش کی جائے گی۔ بھارت کو کشمیر کی صورتحال اور وہاں پر عوام کے احتجاج سے پیدا ہونے والے حالات کی وجہ سے اقوام عالم کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس خجالت سے نجات حاصل کرنے کا آسان طریقہ تو کشمیر کے مستقبل کے بارے میں کشمیری قیادت اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ہے۔ پاکستان اس کی پیشکش کر چکا ہے۔ بھارت کے نئے سرپرست امریکہ نے بھی یہی مشورہ دیا ہے۔ لیکن بھارت کو اپنے حجم، معیشت کی قوت اور نئے دوستوں کی غیر مشروط حمایت پر ضرورت سے زیادہ بھروسہ ہے۔ وہ عالمی فورمز میں کشمیر کی صورت حال پر پاکستان کی تنقید کا جواب دینے کے لئے بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک کا حوالہ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ بلوچی زبان میں ریڈیو نشریات شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ناراض بلوچ رہنماﺅں کو رجھانے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔ ان ہتھکنڈوں سے پاکستان کو زچ کیا جائے گا۔ نئی دہلی میں 21 ستمبر کو نواز شریف کی تقریر کے ایک ایک حرف پر غور کیا جائے گا تاکہ وزیر خارجہ سشما سوراج اس کا سخت اور درشت جواب تیار کر کے 26 ستمبر کوجنرل اسمبلی سے مخاطب ہوں۔

ایک طرف کشمیری عوام جانوں کو ہتھیلی پر رکھے، صعوبتیں برداشت کرتے، آزادی کی شمع کو روشن کئے ہوئے ہیں تو دوسری طرف ان کے حق خود اختیاری کے سب سے بڑے حامی پاکستان کی آواز صدا بصحرا ثابت ہو رہی ہے۔ متعدد غلط پالیسیوں کے نتیجے میں عالمی دارالحکومتوں میں اسلام آباد اپنا اعتماد کھو چکا ہے۔ کشمیر کے سوال پر بھی کوئی انقلابی یا بدلتے حالات کے مطابق نیا لائحہ عمل اختیار کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دے کر لوگوں کا خون گرمانے کی کوشش ضرور کی جاتی ہے۔ حالانکہ کشمیریوں کی تحریک اور حالات کے تناظر میں بحث کا موضوع یہ نہیں ہے کہ پاکستان کے لئے کشمیر کتنا ضروری ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ اس خطے کے لوگ اپنے وطن کے بارے میں کیا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کو یہ فرق سمجھنے اور اس کے مطابق پالیسیاں سامنے لانے کی اشد ضرورت ہے۔

بھارت پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگاتے ہوئے پاکستان کو اپنے دامن پر لگے دھبے بھی دور کرنے ہوں گے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل اگر آزاد کشمیر کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے وفد بھیجنا چاہتی ہے تو اسلام آباد کو اسے نئی دہلی کے فیصلہ سے مشروط نہیں کرنا چاہئے۔ اسی طرح بلوچستان میں بھارتی سازشوں اور مداخلت کا پردہ ضرور چاک کیا جائے لیکن اس کے ساتھ ہی بلوچستان کے شہریوں کی جائز خواہشات کی تکمیل کے لئے فوری اور موثر اقدام بھی ہونے چاہئیں۔ لوگوں کو اٹھانے اور لاپتہ افراد کے بارے میں ریاستی جبر سے جواب دینے کا طرزعمل میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کمزوریوں کو دور کیا جائے جو دشمن کے ہاتھ میں تلوار بن رہی ہیں۔

جنیوا میں انسانی حقوق کونسل یا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کی صورت حال پر کی جانے والی تقریروں کا صرف اسی صورت میں فائدہ ہو سکتا ہے اگر پاکستان اپنے ملک میں زور زبردستی کا رویہ ترک کر کے انسانی حقوق کے حوالے سےعالمی معیار کو بنیاد مان کر طرز عمل اختیار کرے گا۔ بصورت دیگر بھارت کی آواز پاکستان کے مقابلے میں زیادہ بلند ہوگی اور دنیا کے ممالک کی اکثریت بھی اسے غور سے سنے گی۔ اس آواز کو مدھم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ پاکستان پرانی ڈگر کو چھوڑ کر نیا طریقہ اختیار کرے۔ تب ہی اس خواب کی تکمیل ممکن ہوگی جس کے لئے ناصر شفیع نے جان دی اور اس کی سبز ہلالی پرچم میں لپٹی لاش کو ایک باپ غرور اور اطمینان سے سپرد خاک کر رہا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2771 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments