ایک عام مشرقی مرد کے لیے عورت یا کنیز ہے یا ایک سیکس ڈول


جو لوگ محبت کی لو میریج کرتے ہیں انہیں رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ اس معاشرے میں محبت کو گناہ سمجھا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ماں باپ بچوں کو نہیں سکھاتے کہ وہ اپنا شریکِ حیات کیسے تلاش کریں۔

جب میں پشاور کے ایڈورڈز کالج میں پڑھتا تھا تو ایک دن ہمارے پرنسپل فل ایڈمنڈز ہمیں انگریزی کا لیکچر دینے آئے۔ اس لیکچر کے دوران انہوں نے ہمیں بتایا کہ ان کا بیٹا انگلینڈ سے پی ایچ ڈی کر کے واپس لوٹا ہے۔ طلبا نے ان سے جب پوچھا کہ کیا وہ اپنے بیٹے کے لیے دلہن تلاش کر رہے ہیں تو انہوں نے مسکرا کر کہا

’ وہ اپنے لیے دلہن خود تلاش کرے گا اور اگر وہ اپنے لیے بیوی تلاش نہیں کر سکتا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ابھی شادی کے لیے تیار نہیں ہے‘
مجھے اپنے پرنسپل کے الفاظ ابھی تک نہیں بھولے۔

کوئی مرد اپنے لیے شریکِ سفر کیسے تلاش کرتا ہے۔
ہمارے والدین اور بزرگ اپنے بچوں کو اس فیصلے کے لیے تیار نہیں کرتے۔

ایک عام مشرقی مرد کے لیے عورت یا کنیز ہے یا ایک سیکس ڈول۔ اسی لیے جب وہ فیس بک یا انٹرنیٹ پر کوئی حسیں چہرہ کوئی رنگیں زلف کوئی دیدہ زیب لباس دیکھتا ہے تو اسے شادی کا پیغام بھیج دیتا ہے۔

مشرقی مرد نے ابھی نہیں سیکھا کہ
عورت سے دوستی کیسے کی جاتی ہے
عورت کی رائے کا احترام کیسے کیا جاتا ہے
عورت کو محبت کا پیغام کیسے بھیجا جاتا ہے

مشرقی مرد نے ابھی نہیں سیکھا کہ عورت مارکٹ میں پڑا ہوا ایک بکاؤ مال نہیں ہے۔ عورت ایک انسان ہے جس کا اپنا ایک ذہن ہے۔ اپنی ایک شخصیت ہے۔ اپنا ایک نقطہِ نظر ہے۔ وہ صاحب الرائے ہے اور اس کی رائے اہم ہے۔

گلِ رعنا صاحبہ۔ میں نہیں جانتا آپ کا خاندان آپ سے کیا توقعات وابستہ کیے ہوئے ہے؟ اور آپ ان سے کیا توقعات رکھتی ہیں؟

کیا آپ اپنی مرضی سے اپنی شادی کر سکتی ہیں اور اپنے شریکِ سفر کے ساتھ زندگی گزار سکتی ہیں۔ ساحر لدھیانوی نے ایک صدی پہلے فرمایا تھا
؎ اتنی ہمت ہے تو دنیا سے بغاوت کر لو
ورنہ ماں باپ جہاں کہتے ہیں شادی کر لو

آپ چونکہ ایک پڑھی لکھی ، سمجھدار اور ذہین عورت ہیں جو اپنے پیشے کی کامیابی کی وجہ سے کچھ دولت اور شہرت کما رہی ہیں تو یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ مرد آپ کو ٹرافی وائف بنانا چاہتے ہوں۔

میں چونکہ آپ کی زندگی کی تفاصیل سے واقف نہیں اس لیے آپ کو وہ مشورے دے سکتا ہوں جو میں اپنی عورت دوستوں اور خواتین مریضاؤں کو دیتا ہوں۔ ہو سکتا ہے ان سے آپ بھی اور ’ہم سب‘ کے دیگر قارئین بھی کچھ استفادہ کر سکیں۔ میں ان سے کہتا ہوں

مرد دو طرح کے ہوتے ہیں گولڈ اور گولڈ پلیٹڈ۔

آپ کے لیے ان میں تمیز کرنا بہت اہم ہے۔ جو تو گولڈ ہیں وہ اچھے ساتھی اور شریکِ سفر ثابت ہوتے ہیں اور جو صرف گولڈ پلیٹڈ ہیں ان کی قلعی بہت جلد اتر جاتی ہے۔

آپ کے لیے یہ بھی اہم ہے کہ آپ شادی کے فیصلے سے پہلے اس مرد کے چند ایسے دوستوں اور رفقائی کار سے ملیں جو انہیں برسوں سے جانتے ہوں اور ان سے اس شخص کے کردار کے بارے میں پوچھیں۔

میرا خیال ہے آپ کو اپنی سہیلیوں سے مدد لینی چاہیے آپ کو انہیں بتانا چاہیے کہ آپ کس قسم کے انسان کو اپنا شریکِ حیات بنانا چاہتی ہیں اور پھر آپ اس شخص سے چند بار ملیں تا کہ آپ اس سے مکالمہ کر سکیں اور اس کی شخصیت اور سوچ کے بارے میں فیصلہ کر سکیں۔ چند ملاقاتوں میں ہی آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ وہ آپ کی عزت اور رائے کا احترام کرتے ہیں یا نہیں۔

ویسا میرا نہیں خیال کہ ایک خوشحال اور کامیاب زندگی گزارنے کے لیے شریکِ حیات کا ہونا ضروری ہے۔ ایک گھر ہونا۔ ایک اچھا جوب ہونا۔ مخلص دوستوں کا حلقہ ہونا۔ کچھ تخلیقی مشاغل ہونا ایک انسان کو خوش رکھنے کے لیے کافی ہے۔ اگر ایک قابلِ احترام محبت کرنے والے شریکِ سفر مل جائے تو کیا کہنا ورنہ انسان اس کے بغیر بھی عزت کی زندگی گزار سکتا ہے۔

میں یہ بھی نہیں جانتا کہ آپ کے لیے کتنا اہم ہے آپ کا شریکِ سفر آپ ہی کے مذہب اور کلچر سے تعلق رکھتا ہو؟ میں نے بہت سے ایسے خوشحال اور کامیاب جوڑے دیکھے ہیں جن کا تعلق مختف ممالک اور ثقافتوں سے تھا لیکن وہ ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے اور ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے۔

گلِ رعنا صاحبہ! مجھ سے رابطہ قائم کرنے کا شکریہ۔ آپ کے خط سے اور عورتوں کو بھی اپنے مسائل کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنے کی اور ان مسائل کو حل کرنے کی ترغیب ملے گی۔ شکریہ۔

مخلص۔
ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail