پینے کے صاف پانی کا مسئلہ


\"mazhar

پاکستان کونسل فار ریسرچ ان واٹر ریسورسز(پی سی آر ڈبلیو آر) کی تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 80 فیصد آبادی آلودہ اور مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہے۔ ملک بھر کے 24اضلاع کے2807 دیہات سے جمع کیے جانے والے پانی کے نمونوں میں سے 69 سے 82 فیصد نمونے آلودہ اور مضر صحت پائے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پانی کی آلودگی زیادہ تر فضلے میں پیدا ہونے والے جراثیموں ، زہریلی دھاتوں، گدلا پن، پانی میں حل شدہ مضر صحت عناصر، نائٹریٹ اور فلورائیڈ کی موجودگی کی وجہ سے ہوئی۔ بیشتر علاقوں سے حاصل کیے گئے پانی کے نمونوں میں مضرصحت جراثیموں کی تعداد 69 فیصد تک بلند پائی گئی جبکہ بعض علاقوں سے حاصل کیے گئے پانی کے نمونوں میں صحت کے لیے نقصان دہ دھاتوں کی مقدار 24 فیصد جبکہ گدلے پن کی شرح 14 فیصد تک بلند پائی گئی۔

پانی میں موجود مضر صحت جراثیموں کی موجودگی سے ہیضہ، ڈائریا، پیچس، ہیپاٹائٹس اور ٹائیفائیڈ جیسی بیماریاں عام ہو رہی ہیں جبکہ پانی میں موجود آرسینک جیسی مضر صحت دھاتوں کی موجودگی مختلف اقسام کی ذیابیطس، جلدی امراض، گردوں کی خرابی، امراض قلب، بلند فشار خون، بچوں میں پیدائشی نقائص اور کینسر جیسی بیماریوں کی وجہ بن سکتی ہے۔ دوردراز اور پسماندہ علاقوں میں بسنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنی بقاء کے لیے کنوؤں ، جوہڑوں اور تالابوں کا مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق بیماریوں کی وجہ سے ہونے والی اموات میں40 فیصد اموات پیٹ کی بیماریوں کے باعث ہوتی ہیں جن کی بنیادی وجہ آلودہ پانی کا استعمال ہے۔ مالیاتی لحاظ سے جائزہ لیا جائے تو ملک کو آلودہ پانی کی وجہ سے ہونے والے امراض اور دیگر مسائل کے باعث سالانہ 110 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوتا ہے۔

\"dirty-tap-water\"

پینے کے صاف پانی کے حوالے سے شہری علاقوں کی صورتحال دیہی علاقوں سے بھی ابتر ہے۔ کچھ عرصہ قبل کئے گئے سروے کے مطابق ملک کے23 بڑے شہروں میں پینے کے پانی میں مضر صحت بیکٹریا،مٹی اور ٖفضلے کی آمیزش کے علاوہ آرسینک جیسی دھات کی خطرناک حد تک مقدار پائی گئی ۔ سروے رپورٹ کے مطابق شہری علاقوں کی صرف15فیصد آبادی کو صاف پانی کی سہولت میسر ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پینے کے پانی کا شدیدبحران وقتاً فوقتاً پیدا ہوتا رہتا ہے۔ سمندر کے کنارے آباد شہر کے باسیوں کی ایک بڑی تعداد کا پینے کے صاف پانی سے محروم ہونا ایک المیے سے کم نہیں۔ سمندر کے پانی کو ڈی سیلینیشن اور ریورس اوسموس کے طریقوں سے میٹھا بنا کرکراچی کی دو کروڑ سے زائد آبادی کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی یقینی بنائی جا سکتی ہے لیکن ارباب اختیار ان طریقوں پر غور کرنے پر بھی تیار نہیں۔ پاکستان میں پینے کے صاف پانی کا مسئلہ گھمبیر ہونے کی ایک وجہ زیر زمین پانی کی سطح کم ہونا بھی ہے۔ دیہی علاقوں میں بڑی تعداد میں لگائے جانے والے زرعی ٹیوب ویل کی وجہ سے زیر زمین پانی کے ذخائر کم ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ عالمی درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ اور بارشوں میں کمی سے بھی زیر زمین پانی کی سطح کم ہو رہی ہے۔

\"contaminated_drinking_water_177-349x238\"

گزشتہ ایک سال سے لاہور سمیت متعدد شہروں میں واٹرفلٹر پلانٹس لگائے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے عام شہریوں کی پینے کے صاف پانی تک رسائی قدرے بہتر تو ضرورہوتی جا رہی ہے لیکن کئی مقامات پر لگائے جانے والے فلٹر پلانٹس سے حاصل کیے گئے پانی کے نمونے کیمیائی اور حیاتیاتی طور پر مضر صحت پائے گئے ہیں۔ انفرادی سطح پر گھروں میں معیاری فلٹر پلانٹ لگانا عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے۔ صاف پانی کے حصول کے لیے لوگ بازار میں فروخت ہونے والے مختلف برانڈز کے منرلز واٹر پر انحصار کرتے ہیں لیکن پی سی آر ڈبلیو کی سہہ ماہی بنیادوں پر شائع ہونے والی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق مارکیٹ میں فروخت ہونے والے منرلز واٹرکے دو درجن کے قریب برانڈز کیمیائی اور حیاتیاتی طور پر آلودہ ہیں۔ وفاقی حکومت نے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے ذریعے پی سی آر ڈبلیو کو بوتلوں میں فروخت ہونے والے پانی کی نگرانی اور معیار کو بہتر بنانے کے لیے سہہ ماہی بنیادوں پر رپورٹ مرتب کرنے اور عوام کی آگاہی کے لیے اسے شائع کرنے کی ذمہ داری تفویض کی ہے۔ حکومت نے ملک بھر میں1.2 ارب روپے کی لاگت سے 24 واٹر ٹیسٹنگ لیبارٹریز قائم کی ہیں جنکا مقصد پینے کے پانی میں آلودہ مادوں کی جانچ پڑتال کرکے شہریوں تک پینے کے صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانا ہے لیکن فنڈز کی کمی کی وجہ سے نہ صرف ادارے کی کچھ لیبارٹریز بند ہونے کا خدشہ ہے بلکہ وہاں کام کرنے والے 200 ملازمین کو کئی ماہ سے تنخواہیں ادا نہیں کی جا سکیں جس کی وجہ سے اعلی تعلیم یافتہ اور تکنیکی اہلیت کے حامل کئی افراد ادارے کو چھوڑ گئے ہیں۔

\"water\"

موجودہ حکومت وفاقی اور صوبائی سطح پر سڑکوں، پلوں اور انڈر پاسز کی تعمیر کے ساتھ ساتھگ میٹرو بسوں اور اورنج لائن ٹرین جیسے منصوبوں پر کئی سو ارب روپے کی سرمایہ کاری کر چکی ہے لیکن تعلیم، صحت اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی جیسی بنیادی انسانی اور سماجی ضرورتوں کو یقینی بنانا حکومت کی ترجیحات میں سب سے نچلے نمبروں پر ہے۔ نواز حکومت انفرا سٹرکچر کی سہولیات کو اپ گریڈ کر کے معاشی ترقی کے حصول پر یقین رکھتی ہے لیکن ماضی کے آئینے میں تاریخ کا جائزہ لیں تو چین سمیت کئی ملکوں نے سماجی فلاح و بہبود پر توجہ دیکر معاشی ترقی کی منزل کا حصول آسانی سے ممکن بنایا۔ پاکستان میں صحت کے معاملات گھمبیر صورت اختیار کرنے کی سب سے بڑی وجہ آلودہ پانی ہے۔ صحت عامہ کی صورتحال کو بہتر بنائے بغیر معاشی ترقی کا حصول ممکن نہیں اور صحت عامہ کی صورتحال میں واضح بہتری کے لیے دیہی اور شہری علاقوں کی 80 فیصد سے زائد آبادی کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی ناگزیر ہے۔ صوبائی حکومتوں کو شہری اور دیہی علاقوں میں آبادی کے حجم کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب فاصلوں پر معیاری فلٹر پلانٹس لگانے کے کام کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments