انسانی حقوق کے کارکن دہشت گرد نہیں!


\"umarایک وقت تھا جب میں یہ سوچتا تھا کہ میں جس فرقے سے تعلق رکھتا ہوں صرف وہی ٹھیک ہے اور باقی سب غلط ہیں۔ اپنے عقیدے اور مذہب سے اندھی محبت اور دوسرے تمام عقائد اور مذاہب سے نفرت میرے اندر رچی بسی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب میں یہ سوچا کرتا تھا کہ دنیا کے باقی تمام مذاہب غلط ہیں اور ان مذاہب کے ماننے والے تمام افراد کو صرف میرے ہی مذہب کو مان لینا چاہیے اور اپنی زندگیاں صرف میرے ہی مذہب کے مطابق گزارنی چاہیے۔ میرے ہی مذہب کو پوری دنیا میں راج کرنا چاہیئے اور اس کے لیے جو بھی راستہ اختیار کرنا پڑے وہ کیا جانا چاہیئے۔ ذات برادری کا غرور اور اونچ نیچ کا تصور میرے اندر بہت مضبوط تھا۔ عدم برداشت اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی جھگڑوں جیسی عادتیں میرے اندر موجود تھیں۔
لیکن پھر جب میں نے عملی زندگی میں قدم رکھا تو ساتھ ہی سماجی فلاح و بہبود کے ایک ادارے کی طرف سے بنائی گئی محلے کی سطح پر ایک تنظیم میں شمولیت اختیار کر لی اور پھر سماجی کاموں کا ایسا جنون سوار ہوا کہ اسی شعبہ سے باقاعدہ وابستگی ہو گئی۔ مختلف سماجی اور انسانی حقوق کے اداروں میں مختلف اوقات میں ملازمت کرنے کا موقع ملا۔ اپنے کیریئر کے دوران مختلف تربیتی پروگراموں میں شریک ہوا تو میرے اندر بہت سی تبدیلی آنے لگی۔ میں جو اپنی ذات، اپنے عقیدے اور اپنے مذہب سے باہر کچھ سوچنے والا نہ تھا وہ انسانیت کی بنیادوں پر سوچنے لگا۔ تمام مذاہب، عقائد کا احترام اور ان کے ماننے والوں سے بطور انسان محبت کے رویے نے میرے اندر جگہ بنا لی۔ ذات برادری اور اونچ نیچ کا تصور میرے اندر سے ختم ہو کر تمام انسانوں کی برابری کا تصور میرے اندر رچ بس گیا۔ سماجی اور انسانی حقوق کا کام کرنے والے اداروں اور لوگوں سے میرے تعلق نے مجھے جو دیا وہ اس دنیا اور اس میں بسنے والے تمام انسانوں کی بقاء اور خوشحالی کے لیے انتہائی ناگزیر ہے۔
یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں غلط اور ٹھیک دونوں قسم کے لوگ موجود ہوتے ہیں لہٰذا یہ بات بھی تسلیم شدہ ہے اور ہونی بھی چاہیے کہ پاکستان میں کام کرنے والے سماجی اور انسانی حقوق کے اداروں اور ان سے وابستہ افراد میں بھی کچھ غلط لوگ ہو سکتے ہیں تاہم اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ان تمام اداروں اور ان سے وابستہ افراد کو ہراساں کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا جائے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کچھ اسی طرح کا سلسلہ چلا ہوا ہے۔
پاکستان میں جس طرح سماجی اور انسانی حقوق کے کارکنوں اور اداروں کو دہشت زدہ کیا جا رہا ہے اگر اس سے آدھی توجہ پاکستان میں نفرتوں کے بیوپاریوں، انتہا پسندوں، دہشت گردوں، ان کے سہولت کاروں اور ان کے لیے ہمدردیاں رکھنے والوں کے خلاف پوری دیانت داری سے کارروائی کرنے پر دی جائے تو اس ملک سے دہشت گردی کا یقینی خاتمہ ہو سکتا ہے لیکن افسوس کہ یہاں کالعدم دہشت گرد تنظیمیں کھلے عام چوک چوراہوں میں چندے مانگتی پھرتی ہیں، کالعدم تنظیموں کے رہنما جگہ جگہ جلسے کرتے پھرتے ہیں، نفرت آمیز تحریر و تقریر کا سلسلہ عروج پر ہے، مذہب کے نام پر قانون کو ہاتھ میں لے کر قتل کرنے والے قاتلوں کو ہیرو بنا کر ان کے حق میں بڑی بڑی ریلیاں نکالی جا تی ہیں، چوک چوراہوں میں بیٹھ کر ریاست کو چیلنج کرتے ہیں، ریاستی اداروں کو گالیاں دیتے ہیں اور آئینی عہدوں پر بیٹھے عہدیداران کو غلیظ القابات سے نوازتے ہیں، ہمارے دارالحکومت میں بیٹھ کر عالمی دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں اور ان کو ملک میں کام کے آغاز کی دعوتیں دیتے ہیں، ریاستی آئین کو نہ ماننے کا اعلان کرتے ہیں، لیکن ہماری ریاست نے کبوتر کی طرح ان کی طرف سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
وطنِ عزیز پاکستان میں آج تک جتنے بھی دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں کسی ایک بھی واقعے میں کسی بھی سماجی یا انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کوئی کارکن ملوث نہیں پایا گیا۔ کسی ایک بم دھماکے کے مقام سے کسی سماجی یا انسانی حقوق کے کسی کارکن کا سر نہیں ملا۔ عسکری، سیاسی، مذہبی اور دیگر معروف شخصیات پر ہونے والے حملوں میں کبھی کوئی انسانی حقوق کا کارکن ملوث نہیں پایا گیا۔ ہاں البتہ یہ ضرور ہوا کہ پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے جدو جہد کرنے والے کارکنان کی زنددگیوں کے چراغ ضرور گل ہوئے۔ کبھی پروین رحمان نشانہ بنی تو کبھی سبین محمود، کبھی راشد رحمان کو موت کا پروانہ تھما دیا گیا تو کبھی عمر اصغر خان کو دنیاسے رخصت کر دیا گیا۔
اس ملک کو ان سماجی تنظیموں اور انسانی حقوق کے کارکنان سے خطرہ نہیں ہے بلکہ ان نفرت کے ٹھیکیداروں سے، انتہا پسندوں سے، دہشت گردوں اور ان کے سہولتکاروں سے اور ان کے لیے ہمدردیاں رکھنے والوں سے خطرہ ہے لہٰذا مہربانی فرما کر اس طرف توجہ کریں اور ان کے خلاف کارروائی کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments