کیا ہم ایٹمی جنگ کی جانب دھکیلے جا رہے ہیں؟


\"mahmood-shafi-bhatti\"

یہ بات درست ہے کہ کشمیر برصغیر کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ کشمیریوں کو حق خوارادیت ملنا چاہیے۔ میرے نزدیک کشمیر کاز کو سب سے پہلے اور بڑا نقصان جنرل مشرف نے پہنچایا جس نے آتے ہی نعرہ لگایا سب سے پہلے پاکستان۔ اگر کشمیریوں کی جدو جہد آزادی کو دیکها جاۓ تو قربانیوں کی ایک طویل داستان ہے۔ انڈین تھنک ٹینک کے خیال کے مطابق انکا ذہن تھا کہ یہ جدو جہد آزادی زیاده سے زیادہ دو نسلوں تک جاۓ گی۔ لیکن برہان وانی کی شہادت کے بعد صورتحال یکسر بدل چکی ہے۔ کشمیر کی تیسری نسل بھی اس جدو جہد میں شامل ہو چکی ہے اور نیا خون آنے سے اس تحریک میں مزید تیزی آئی ہے۔ گزشتہ ستر دنوں سے جس طرح آزادی کے لئے مظاہرے ہورہے ہیں یہ بات قابل ستائش ہے لیکن انڈین حکومت اور فوج کا رویہ قابل مذمت ہے۔ ان دنوں میں تقریباً سو سے زائد شہادتیں ہو چکیں ہیں لیکن بھارت اب بھی ظلم و بربریت جاری رکھے ہوۓ ہے۔ انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں لیکن اقوام متحدہ سمیت تمام بین الاقوامی ادارے اور تنظیمیں خاموش ہیں۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے جب اس معاملے کا ذکر کیا تو اسکے تمام دفاتر کو بند کر دیا گیا یہ ہے انڈیا کی سیکولر جمہوریت ہے۔ اس بات میں تو کو ئی تضاد نہیں کہ بی۔ جے۔ پی کی سیاست کا نقطہء کمال مسلم دشمنی ہے۔

کشمیر کی موجودہ صورتحال پر پہلے حکومت وقت کا خاموش ہونا اور بعد میں بولنا ایک مناسب خارجہ پالیسی نا ہونےکاثبوت ہے۔ جوں جوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس قریب آیا اور ہماری حکومت نے اس بارے میں ہوم ورک شروع ہی کیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں اوڑی ہیڈ کوارٹر پر حملہ ہو جاتا ہے جس سے سترہ انڈین فوجی اور چار حملہ آور ہلاک ہوۓ۔ اس حملے نے انڈیا کو بین الاقوامی سطح پر مظلوم بننے کا موقع فراہم کر دیا لیکن کل ہمارے وزیر اعظم کا جنرل اسمبلی میں خطاب اور صرف اپنی ترقی اور کشمیر ایشو کو بیان کرنا میرے نزدیک کافی نہیں تھا۔ وزیر اعظم کو کلبوشن کی گرفتاری،راء کی فنڈنگ اور انڈیا کس طرح پاکستان کو غیر مستحکم کر نے کے در پے ہے سب بیان کرنا چا ہیے تھا۔ اور خاص کر اوڑی حملے کے بارے میں دنیا کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا ۔ اب چھبیس کو دیکھتے ہیں کہ سشماسوراج کیا راگ الاپتی ہے۔ موجودہ صورتحال کے تناظر میں دونوں طرف لائن آف کنٹرول پر کافی نقل و حرکت ہے اور پشاور موٹروے کا بند ہونا بھی اسی جانب اشاره کرتا ہے۔ جنگیں وہی ملک جیتتے ہیں جو اندرونی طور پر مستحکم ہوتے ہیں تو کیا ہم اندرونی طور پر مستحکم ہیں؟ براہمداغ بگٹی کا جنیوا میں انڈین کمیشن کو شہریت کے لیے درخواست دینا کیا اچھی شنید ہے؟بلوچستان میں باغی تنظیمیں سر گرم ہیں، سندھ میں علیحدگی پسند ہیں، اسی طرح جنوبی پنجاب کی سرائیکی بیلٹ میں کچھ کچھ بے چینی ہے کیا ان حالات میں ہم جنگ کرسکتے ہیں؟

امریکہ،بھارت اور اسرائیل یہ تینوں ملک ایک بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرسکیں اور وہ اپنے اس منصوبے میں کسی حدتک کامیاب بھی نظر آۓ ہیں۔ خدانخواستہ اگر جنگ چھڑتی ہے ہم اپنی فوج ظاہر ہے مشرقی بارڈر پر لگائیں گے،اسی دوران ہمارا افغان بارڈر،اور ایران باڈر غیر محفوظ ہوجاۓ گا اور باغی گروہ آسانی سے اعلان بغاوت کرسکتے ہیں۔ اسی طرح انڈین ریاست راجستھان جو ہمارے تھر سامنے ہے وہاں انہوں نے وسیع فوجی چهاؤنیاں بنائی ہیں تاکہ اگر جنگ ہو تو وہ جسقم کی حمایت سے سندھ پر قابض ہوسکیں اور وہاں سے بلوچستان اور پھر افغان تعاون سے پختون بیلٹ کو زیر عتاب لا کر پھر پنجاب کو باآسانی نگلنا شامل ہے۔ اس ساری صورتحال میں سواۓ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے علاوہ کوئی آپشن نظر نہیں آتا اور پھر ہر طرف تباہی ہی ہوگی۔ دونوں ملکوں کو چاہیے کہ مذاکرات کا رستہ اپنائیں اور اپنی توانایاں مثبت اقدامات کی جانب لگائیں ۔ غربت دونوں طرف ہے۔ پہلے اپنا گھر سیدھا کرو پھر دوسرے کی بات کریں.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments