بلاول کی سیاست اور پیپلز پارٹی کا احیا


کہتے ہیں امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے پیپلز پارٹی کا احیا ایک خواب لگتا تھا اور آج یہ خواب بلاول کے مزاحمتی سیاست کی وجہ سے تعبیر کے قریب ہے۔ ایک جامع سیاسی اپروچ کیا ہے یہیں کہ آپ کی سیاست صرف اپنی ذات کا طواف نہ کرے بلاول جمہوری جدوجہد کو پھر وہی سے شروع کررہا ہے جہاں بی بی شہید چھوڑ کر گئی تھی۔ انسانی حقوق کے پامالی پر صدائے احتجاج بلند کرنا جبر کے خلاف اواز اٹھانا گمشدہ افراد کے لیے مسلسل بات کرنا بلاول کا خاصہ بن چکا ہے۔

پی پی پی کے احیا کا خواب صرف اس صورت ہی شرمندۂ تعبیر ہو سکتا تھا جو کام اب بلاول کررہا ہے یہ جماعت عوام میں واپس آرہی ہے گلی محلہ کی سطح پر نئی تنظیم سازی کی ہورہی ہے بوڑھے تھکے ہوئے گھوڑوں کی جگہ تازہ دم تازہ کار جوان سامنے آرہے ہیں ابھی بھی اپنے بنیادی منشور سے رہنمائی لے کر جائے طبقاتی جدو جہد شروع کی جائے مزدور کسان طالب علم اور غریب عوام کو اہمیت دی جائے تو کوئی امر مانع نہیں کہ پیپلز پارٹی پوری قوت کے ساتھ واپسی کرسکتی ہے۔

پیپلز پارٹی غریبوں کی جماعت ہے اس حقیقت کو عملی طور پر ثابت کیا جائے ڈرائنگ روم کی سیاست کو تج دیا جائے پکوڑے بیچنے والوں نانبائیوں حجاموں قسائیوں رکشہ ٹیکسی ڈرائیوروں سبزی فروشوں دیہاڑی دار مزدوروں مستریوں عام نچلے درجہ کے ان تھک سیاسی کارکنوں صوفیوں ملنگوں مجاوروں کلرکوں بابوؤں مالیوں چپڑاسیوں موچیوں حلوائیوں چھابڑی فروشوں چھوٹے دکانداروں نے پیپلز پارٹی کو ہمیشہ جتایا تھا اب بھی ترجیح انہیں دی جائے ان کی بات کی جائے جو کہ بلاول کر بھی رہا ہے ان کے مسائل کے حل کے لئے آواز اٹھائیں پھر انتخابات میں دیکھیں آپ کو نتائج حیران کردیں گے۔

یہ سب لوگ اپنے اپنے کاروبار میں مگن سیاست سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں ووٹ کا حق اب استعمال نہیں کرتے روزی روٹی کی فکر میں غلطاں رہتے ہیں قربانی دے دے کر تھک گئے ہیں انقلاب اور تبدیلی کا نعرہ بھی انہیں ایک دو دن کے لئے اپنے کام کاج سے الگ نہیں کرسکتا کہ ان کے نزدیک یہ صرف الفاظ رہ گئے ہیں اپنا مفہو م کھو بیٹھے ہیں کیوں کہ یہ بے نظیر شہید کے بعد اپنے رہ نماؤں کے کرتوت دیکھ چکے ہیں۔ بلاول کے لیے بڑا چیلینج یہی ہے کہ وہ ان روٹھے کارکنوں اور ووٹرز کو واپس اپنے ساتھ جوڑ لے۔

بھٹو کے نام اور پیغام میں آج بھی بہت کشش ہے مگر ماضی میں کون لوگ یہ نام استعمال کر تے رہے ہیں عوام کو خوب معلوم ہے شاہ محمود قریشی چار ساڑھے چار سال تک وزارت خارجہ کے مزے لوٹتا رہا اور پھر پیپلز پارٹی اچھی نہیں ہے کہہ کر رخصت ہوگیا پارٹی ڈوبنے لگی تو ہیوی ویٹ ایک ایک کرکے اترنے لگے اگر بلاول صاحب پیپلز پارٹی کے احیا کا خواب دیکھ رہے ہیں تو اسے بائیں بازو کی حقیقی پارٹی بنانا ہوگا سوشلسٹ نظریات کا پرچار کرنا ہوگا اس پر شرمندگی اور بزدلی کا راستہ ترک کرنا ہوگا جھوٹے پروپیگنڈے کو غلط ثابت کرنا ہوگا کارل مارکس اور لینن سے پہلے بھی اس علاقہ میں سوشلسٹ نظریات موجود تھے اکبر اعظم کے مقابلہ میں بایزید انصاری کی جدوجہد انہی نظریات کا ثمر تھی۔ کسانوں کی تحریک جاگیرداروں کے خلاف بغاوت کا خمیر انہی نظریات سے پیدا ہوا تھا پیپلز پارٹی کوغریب اور پسے ہوئے طبقات کو عزت دینا ہوگی انہیں پارٹی کی گراس روٹ قیادت سے لے کر بلند ترین مناصب کا حقدار تسلیم کرنا ہوگا۔ پارٹی معاملات میں حصہ دار بنانا ہوگاتب جا کر ان کا خواب پریشاں ختم ہوگا۔

جب کہ بھوکے ننگے عوام خوشحالی کو گلی کا موڑ مڑتے ہوئے دیکھنے کی تمنا میں سسکتے بلکتے جاتے ہیں یہ تصور عام ہے کہ سرمایہ داروں تاجروں کی جماعت پی ایم ایل ن کی حکومت جب بھی آتی ہے سرمایہ داروں کارخانہ داروں کا خاص خیال رکھتی ہے بڑے بڑے میگا پراجیکٹس کی تعمیر میں خاص کاروباری اداروں کی چاندی ہو جاتی ہے عوام کو انتظار ہے ان کی اپنی پارٹی ہونے کا ذمہ کون اٹھاتا ہے تحریک انصاف ایم کیو ایم اے این پی یا پیپلز پارٹی خواب لے لو خواب کی صدائیں لگانے والے تو بہت ہیں مگر بلاول حقیقی مسیحا بن سکتا ہے صدیوں سے پستے آئے عوام اب شدت سے اس قیادت کے منتظر ہیں جو آکر ان کی تقدیر بدلنے کے لئے جدوجہد کرے گا۔

چشمِ گوہر بار نے اوڑھی بدن پر آبشار
شمع نے کاڑھا لہو سے ایک پروانے کانام


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).