افسانوں کے مجموعے ”خوابوں کی پرورش“ سے ایک افسانہ ”رسی“۔


آخر وہ دن آ ہی گیا جسے عید کہا جاتا ہے۔ یہ حمید کی زندگی کی پہلی عید تھی جب اُس نے نہ نیا لباس زیبِ تن کیا تھا نہ نئے جوتے پہنے تھے۔ بلکہ آج تو اُس کا لباس کئی دنوں کا میلا تھا۔ اُس کے جوتے گوبر اور کیچڑ سے لتھڑے ہوئے تھے۔ اُس کا صافہ میل سے اٹا پڑا تھا۔ اُس کی داڑھی، مونچھیں اور بال بڑھے ہوئے تھے۔ شاید مجنوں بھی اُس سے کہیں زیادہ صاف ہو گا۔

آج صبح وہ کچھ جلدی ہی بیدار ہو گیا تھا۔ نہر پر جا کر دو تین ڈبکیاں لگائیں اور چل پڑا اپنی منزل کی طرف، جہاں اُس کا چُنا تھا۔ وہ چُنے کی سوچ لئے اُس گلی میں پہنچا جہاں وہ گھر تھا جس میں چُنا بندھا ہوا تھا۔ لوگوں کو ایک ہی طرف جاتے دیکھ کر وہ بھی مسجد میں چلا گیا۔ اُس نے پورا وعظ سنا۔ مولوی صاحب قربانی کا واقعہ اور فلسفہ بیان کر رہے تھے۔ آج حمید کو قربانی سے متعلق وہ وہ باتیں بھی پتہ چلیں جو اُ س نے پہلے کبھی بھی نہیں سنی تھیں۔ دعا میں اُس نے اللہ سے بہت دعائیں مانگیں۔ پتہ نہیں کیا کیا۔ مگر سب کا مرکز چُنا تھا۔

وہ عید کی نماز پڑھ کر اُس گھر کے دروازے کے پاس جا کر بیٹھ گیاجس کے اندر اُس کا چُنا موجود تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں دروازہ کھلا اور ایک بچہ چُنے کی رسی پکڑے باہر آیا۔ اُس بچے کے ہاتھ میں چُنا بہت معصوم سا دکھائی دے رہا تھا۔ ایک معصوم کے ہاتھ میں اپنے چُنے کو دیکھ کر حمید بہت خوش ہوا۔ بچہ چُنے کو کھینچ رہا تھا لیکن چُنا آگے نہیں بڑھ رہا تھا۔ وہ تو چاہتا تھا کہ حمید اُس کے پاس آئے، اُ س کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرے، اُسے پیار کرے۔ حمید سے بھی رہا نہ گیا وہ نہ چاہتے ہوئے آگے بڑھا اور چُنے کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ جونہی اُس نے چنے کی کمر پر ہاتھ رکھا اُسے لگا جیسے اُس نے جلتے ہوئے کوئلوں پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔

”اوے چُنے تُو اداس ہو گیا ہے۔ دیکھ یہ بھی تو اپناہی گھر ہے۔ “
اُ س نے اُ س کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہا۔

”پتہ ہے آج تُو پیغمبر کے بکرے کے پاس جائے گا، وہاں تجھے اور بھی بہت سے بکرے ملیں گے، وہ بڑے معصوم اور پیارے ہوں گے۔ وہاں تمہارابہت دل لگے گا۔ اور پتہ ہے وہاں تجھے نہ بے بے کی یاد آئے گی نہ میری۔ اوئے تیرے یار جو ہوں گے وہاں۔ “

وہ بولتا جا رہا تھا اور آنسوؤں کو پیتا جا رہا تھا۔
پھر اُسے عجیب سا خیال آیا،
” جب ہم جنت میں جائیں گے تو ہمیں حوریں ملیں گی۔ مگراِسے کیا ملے گا۔ “

اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اُ سے کس چیز کی اُمید دلائے، کس چیز کا وعدہ کرے اور کس کی نوید سنائے۔
اچانک بچے نے اُسے ہاتھ سے پیچھے ہٹاتے ہوئے کہا،
”یہ تیرا نہیں ہے ہمارا ہے۔ جا یہاں سے۔ “

اوے بھائی تیرا ہی ہے، تیرا ہی ہے حمید یہ کہہ کر وہاں سے ہٹا اور دروازے کے سامنے ایک گٹر کے اوپر بنے چبوترے پر بیٹھ گیا۔ جب بچے نے اُسے وہاں بیٹھے دیکھا تو ڈانٹتے ہوئے کہا،
”جاؤ یہاں سے ابھی ہم نے حلال نہیں کیا۔ تھوڑی دیر بعدآجانا۔ “

”حلال“
یہ لفظ اُس کے دل پر اس طرح گرا جس طرح قصائی کی چھری۔ اُس نے ضبط کیا اور کچھ دور جا کر بیٹھ گیا۔

کچھ ہی دیر میں ایک قصائی آیا، چُنے کو اندر لے جایا گیا اور پھر گیٹ سے باہر چھوٹے سے لان پر لٹا دیا، قصائی نے اُ س کے گلے میں بندھی رسی چھری سے کاٹ کر دور پھینک دی۔ حمید آنکھیں بند کر کے بیٹھ گیا۔ اُس کے کانوں میں چُنے کی آخری آواز پڑی تو اُس کی آنکھیں کھلیں لیکن پھر بند ہو گئیں۔ وہ تاریکی کی گہرائیوں میں ڈوب گیا۔

ا ُس نے دیکھاکہ بے بے چُنے کو فیڈر سے دودھ پلا رہی ہے۔ چُنا اُس کے پیچھے پیچھے اور کبھی وہ چُنے کے پیچھے پیچھے۔ آج چُنے کو بخار ہے۔ اُسے گڑ اور سونف کا شربت پلایا جارہا ہے۔ مُنی نے کتنی ضد کی تھی کہ چُنا نہ بکے۔ ۔

”اؤ بھائی جاؤ! ابھی گوشت تیار ہو رہا ہے کچھ دیر بعد آنا۔ “
اس آواز نے اُسے خیالات سے باہرنکالا تو سامنے کچھ نہ تھا نہ چُنا نہ قصائی۔ ایک شخص خون کے تازہ تازہ دھبے دھو رہا تھا۔

”اب تیرا یہاں کیا ہے۔ چل مِیدے چل۔ اب بس۔ “

یہ کہہ کر وہ اٹھا اور بند دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے آگے بڑھا۔ وہ ابھی چند قدم ہی چلا تھا کہ کسی شے سے الجھ کر گرپڑا، اُٹھا اور پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک رسی اُس کے پیروں کے ساتھ چمٹی ہوئی تھی۔ اُس نے رسی اُٹھائی اور لپیٹ کر مٹھی میں بند کر لی۔

”چُنا نہ رہا۔ تُوکب تک رہے گی۔ چُنا بھی فانی تُو بھی فانی۔ ہم سب فانی۔ چُنابھی فانی ہم بھی فانی۔ چُنا نہ رہا تو ہم کب رہیں گے۔ پتہ نہیں کتنے چُنے اپنی رسیاں چھوڑ کر یہاں سے چلے گئے۔ پتہ نہیں کتنی رسیاں اپنے چُنوں کی یاد میں روتی خاک ہو گئیں۔ چُنابھی خاک، اُ س کی رسی بھی خاک، میں بھی خاک۔ یہ چلتے پھرتے سب خاک۔ پتہ نہیں کب کس کی گردن سے اس دنیا کی رسی اُتر جائے۔ چل رسئیے گھر چلتے ہیں۔ خاک تو تُوبھی ہے خاک میں بھی۔ دیکھیں کون پہلے خاک میں ملتا ہے۔ میں تو گنہگار سا شخص ہوں تو تو شاہ جی کی دی ہوئی پاک رسی ہے۔ پر رسی شاہ جی کی ہو یا شاہ عنایت کی ہٹی کی، سوت کی ہو یا ریشم کی۔ رسی رسی ہی ہوتی ہے خاک۔ بس خاک۔ “

ان جیسے بے شمار خیالات لئے ہوئے وہ اپنے گاؤں پہنچ گیا۔

ایک بکری کا بچہ۔ اُ س کے گلے میں رسی۔ شاہ جی کی دی ہوئی رسی۔ اور ہاتھ حمید کا۔ اب اُس نے اُس بکری کے بچے کا کوئی نام نہ رکھا، اب اُ سس نے اُ سکے لئے کوئی شیمپو نہ خریدا۔ نہ ہی صاف پانیوں سے اُگے ہوئے شٹالے کا کھیت خریدا۔

کیونکہ اب وہ سیکھ چکا تھا۔
بوہتا پیار نہ کریں، نہیں تے رُل جاویں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3