ایک بے بس صحافی کی غیر موثر بد دعائیں!


\"barkat-kakar\"کل اپنے دیرینہ دوست جمعہ خان انقلابی کی ٹائم لائین پر ایک عجیب ویڈیو دیکھنے کو ملی۔ ویسے جے کے پوسٹ شئیر کرنے میں حد درجے کی احتیاط برتتے ہیں، ویڈیوز تو بالکل بھی شئیر نہیں کرتے، ہم نے بھی سارا کام چھوڑ کر اس ویڈیو کو دیکھنے کی حامی بھری۔ کیا دیکھتا ہوں کہ جم غفیر میں کعبہ کی طرف پشت کئے، قرآن مجید ہاتھ میں اٹھائے ایک جوان، سر منڈوائے ہوئے، خدا کو مخاطب کر کے شکستہ اردو میں لوگوں کو بد دعائیں دے رہا ہے۔ ہم نے کہا کہ اس شخص کی آنکھیں اور مُونچھ تو دیکھی بھالی ہیں، کافی غور کرنے پر پتہ چلا کہ یہ صاحب تو کوئٹہ کے اپنے اکلوتے فوٹوگرافر اور لکھاری ہیں، جو حج پر جانےسے پہلے دراز رومانوی زلفوں کے مالک تھے اور شاید پشتو میں شاعری بھی کیا کرتے تھے اور تو اور کارٹونسٹ بھی تھے۔ حج سے آنے کے بعد زلفوں، شاعری اور مصوری کی کیا صورت بنتی ہے یہ تو خدا جانتا ہے، لیکن یہاں پر اچھنبے کی بات یہ ہے کہ ان کو کامیابی سے پہچاننے کے بعد پہلا خیال جو دل میں موجزن ہوا وہ یہی تھا کہ جناب ایسی شش جہت شخصیت کو خانہ خدا میں بیٹھ کر بد دعائیں دینے کی کیا حاجت آن پڑی ہے۔ وہ جتنی بے باکی سے کوئٹہ کی پر خطر اور مٹی سے اٹی ہوئی، ٹھڑی گلی کوچوں میں خبروں اور تصاویر کے پیچھے ہو لیتے ہیں اس مناسبت سے تو وہ میدان عمل کے آدمی لگتے ہیں، بد دعائیں تو بےبسی کی آخری حدود پر پہنچنے کے بعد جا کر ایکٹیو ہونا شروع ہوتی ہیں اور مکمل بے عملی اور مایوسی کی کیفیت میں یہ نقطہ عروج تک پہنچ جاتی ہیں۔

ان کی بہادری اس سے بھی مسلم ہے کہ انہوں نے کئی خون آشام واقعات کی کورنگ کی اور ہر بار محفوظ نکل آئے۔ ہمارے دوست جمعہ خان نے کمنٹس میں بس یہی لکھا تھا کہ جناب! بلوچستان میں صحافیوں کی اوسط عمر (Average Life Expectancy)کے مطابق تو ان کو اب تک کب کا مرجانا چاہئے، اور ان کے نام پر تو تین، چار کرکٹ یا فٹبال کے میموریل ٹورنامنٹ بھی منعقد ہو جانے چاہئیں تھے۔

ہم نے ان کی رائے سے شدید اختلاف کیا کہ جناب بات کا بتنگڑ بنانا چہ معنی دارد۔ انہوں نے کہا کہ بد دعاوں کا اسلوبیاتی تجزیہ کیجئے تو آپ جان جائیں گے کہ ان کی بد دعاوں کے تیر بھی اُن نامعلوم افراد کی جانب چھوڑے جا رہے ہیں جن کی وجہ سے بقول انہوں نے گذشتہ چھ سالوں سے موت کو ہر پل اپنے پیچھے نتھنے پھُلائے ہوئے محسوس کیا ہے۔ ہم نے کہا قبلہ چھ سال پہلے اس بد دعا گو صحافی کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ ہمیں کیا پتہ؟ وہ بولے ذرا غور سے سننا پھر بات کرتے ہیں۔ ہم نے اس بار سننے کی کوش کی بس اتنا پتہ چل رہا تھا کہ وہ خانہ خدا میں، خدا کو مخاطب کر کے اچھوتے طرز کی بد دعائیں دے رہے ہیں، مثال کے طور پر، جو مجھے تنگ کر رہے ہیں، یا اللہ ان کے گھر شوگر کے مریضوں سے بھر دیں۔ یا اللہ ان کے گھر کینسر کے مریضوں سے بھر دیں۔۔ وغیرہ وغیرہ

ہم نے بھی جے کے کو یہی بتایا کہ جناب اس سے تو یقینأ بد دعاوں کی ایک نئی قبیل کا پتہ چلتا ہے، فاعل نے حد درجے کی تخلیقی سوچ کا خوب استعمال کیا ہے، مابعد جدیدیت میں بد دعائیں ایسی ہی ہونی چاہیئے، بلکہ آپ اسے ایک نیا سبق قرار دے سکتے ہیں، کون آپ کے قلم کو پکڑ سکتا ہے؟ ہاں یہ خوش آئیند ہے کہ لوگ بد دعائیں دینے میں بھی اب اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا خوب استعمال کرتے ہیں اور زمان و مکان کے انتخاب میں خاصے سیلیکٹیو رہتے ہیں۔ ہم نے یہ بیان دے کر جے کے سے پیچھا چھوڑانے کی استدعا کی اور اس بیان سے خاصے مطمئن تھے کہ آنجناب داد دیں گے گو کہ وہ اس معاملے میں حد درجے کے کنجوس واقع ہوئے ہیں۔ اس لئے ان کے جلے کٹے جواب کی پہلے سے توقع تھی۔

ان کا جواب اتنا جلدی آیا کہ مجھے گمان نہیں ہو رہا تھا، وہ تو لگتا ہے غالب سے بھی تیز جواب رکھنے میں پہلے سے تیار رہتے ہیں اور جھٹ سے فتویٰ دے ڈالتے ہیں کہ، میں جانتا ہوں وہ جو لکھیں گے جواب میں۔

ان کا جواب ذرا سا مختلف بھی تھا اور حوصلہ شکن بھی۔ لکھتے ہیں کہ مجھے ان کی بد دعا دینے پر کوئی اعتراض نہیں ہے، یہ ان کا حقِ مسلمانی ہے، مجھے تو اصل غصہ اس امر پر آرہا ہے کہ ان کی تمام تر بد دعائیں اگر ان کے عدو (دشمن) کو لگ بھی جائیں تو بے ضرر ہوں گی۔ ان کی بد دعاوں کا اگر تنقیدی جائزہ لیا جائے تو پہلی حقیقت یہ کھل جاتی ہے کہ ان کو تو بد دعا دینے کا سلیقہ بھی نہیں۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ بد دعا کے جو اسالیب زبان اردو میں مروج ہیں وہ اس سے مطلق بے خبر ہیں۔ اس کی بجائے اگر وہ پشتو میں طبع آزمائی کرتے تو شاید چند ایک نئی بد دعائیں بھی گوش گذار ہوجاتیں۔ وہ اس لحاظ سے بھی کم تجربہ کار بد دعا گو ثابت ہوئے ہیں کہ وہ اپنے واحد یا جمع غائب دشمنوں کے لئے جن بیماریوں کی سفارش خدا تعالیٰ سے گڑگڑا کر کر رہے ہیں وہ ساری قابل علاج ہیں، ہاں یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ جہاں سے موصوف صحافی کا تعلق ہے وہاں آج بھی لوگ ملیریا اور تپ دق سے مرجاتے ہیں۔ ان کے ہاں آج بھی شوگر اور کینسر جان لیوا مرض ہیں، میرے خیال میں ان کو بددعا دینے کا گر سیکھنا چاہیئے تھا، پھر وہ موثر ابلاغی وسیلے کا انتخاب کرتے اور اس کے بعد بے شک خانہ خدا میں اپنا کیس پیش کرتے۔

جے کے نے بات مکمل کی اور میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ شاید ہم کرہ ارض کے بے بس ترین صحافی کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے، جس نے شاید موت کو قریب سے دیکھا ہے، اور ایک امکانی لمحے کے آن پہنچنے سے خوفزدہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments