جنرل باجوہ کی مدت میں توسیع: پاکستان محفوظ و مضبوط ہاتھوں میں رہے گا


البتہ اس کے ساتھ ہی یہ باور کروانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے نئے پاکستان میں نئی روایت قائم کرنے کے دعویدار لیڈر اور میرٹ کے علاوہ ادارہ جاتی اصلاحات کے علمبردار وزیر اعظم کے قلم سے جاری ہونے والا یہ حکم نامہ، ان سب ارفع اصولوں کے برعکس ہے۔ اصلاح اور میرٹ کے بلند بانگ دعوے کرنے والے عمران خان سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ فوج کے سربراہ کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے ان اصولوں کو پیش نظر رکھتے، جن کے بارے میں وہ اکثر و بیشتر لیکچر دینا ضروری خیال رکھتے ہیں۔ اداروں کی اصلاح کے بنیادی اصول کی روشنی میں عمران خان سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ فوج کے سربراہ کی تعیناتی کے لئے وزیر اعظم کا خصوصی اختیار استعمال کرنے کا حق اپنے ہاتھ میں رکھنے کی بجائے، فوج میں سینارٹی کی بنیاد پر آرمی چیف کی تعیناتی کا اصول مروج کرتے۔ تاکہ جس طرح سپریم کورٹ میں طے کرلیا گیا ہے کہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ پر سینئر ترین جج ہی نئے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گے۔ فوج میں بھی اس اصول کو سختی سے نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔

اس طرح ملکی معاملات میں آرمی چیف کے اختیارات کے بارے میں دیومالائی قسم کے تصورات کو ختم کرنے میں بھی مدد مل سکتی تھی۔ ہر آرمی چیف کو یہ پتہ ہو کہ خواہ حالات کچھ بھی ہوں، اسے اپنی مدت پوری کے بعد کمان سینئر موسٹ جنرل کے حولے کرکے ریٹائر ہوجانا ہے۔ اس طرح ان تین برسوں میں وہ پوری توانائیاں فوج کی بہتری اور اپنی نیک نامی کے لئے صرف کرے گا۔ اس کے برعکس اگر یہ روایت راسخ کی جائے گی کہ کوئی جنرل حکومت کا قرب حاصل کرکے، وزیر اعظم کی خوشنودی یا اس کی مجبوری کی وجہ سے اپنے عہدے کی مدت میں توسیع حاصل کرسکتا ہے تو اس کی کارکردگی اور فوج کے کردار و مورال پر اثر پڑنا لازم ہے۔ اس حقیقت و احترام کے باوجود یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ پاک فوج ایک منظم اور اعلیٰ صلاحیتوں سے لیس ادارہ ہے جو ہر مشکل وقت میں قوم و ملک کی حفاظت کے لئے مستعد رہتا ہے۔

توسیع کے سوال پر بات کرتے ہوئے کسی ایک جنرل کی صلاحیت یا خوبیوں پر گفتگو مطلوب نہیں ہو سکتی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ بلاشبہ بے پناہ عسکری صلاحیتوں اور تجربہ کے حامل ہیں اور ملک و قوم کو اس تجربہ سے استفادہ بھی کرنا چاہیے۔ لیکن جب عہدہ کی مقرر مدت پوری کرنے پر کسی جنرل کو توسیع دی جاتی ہے تو اس سے ادارہ کی سینارٹی لائن متاثر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ فوج پر بطور ادارہ بھی عدم اعتماد کا بالواسطہ اظہار سامنے آتا ہے۔ وزیر اعظم موجودہ آرمی چیف کی توسیع کے لئے خواہ کوئی بھی دلیل استعمال کریں لیکن اس کا یہ مقصد تو سمجھا ہی جائے گا کہ موجودہ ’نازک‘ حالات میں کوئی دوسرا جنرل وہ کام کرنے کا اہل نہیں ہوسکتا جو موجودہ آرمی چیف سرانجام دے رہے ہیں۔ کسی بھی عسکری ادارے کے بارے میں اس قسم کا موہوم سا اشارہ بھی قومی و ملکی یا ادارے کے وسیع المدتی مفاد میں نہیں ہوسکتا۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کے موجودہ دور میں سیاسی معاملات میں مداخلت کے براہ راست الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔ جج ارشد ملک کے قضیہ کے علاوہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کا تعلق بھی فوج، ملکی عدالتی نظام اور سیاست سے جوڑا جاتا ہے۔ گزشتہ برس ہونے والے انتخابات میں عسکری اداروں کی مداخلت کو کئی استعاروں میں بیان کرنے کی کوشش ہوتی رہتی ہے۔ اسی طرح الزام لگایا جانے لگا کہ مسلم لیگ (ن) کی سابقہ حکومت کے خلاف ناموافق حالات پیدا کرنے کی ذمہ داری بھی فوج سے متعلق اداروں اور افراد پر عائد ہوتی ہے۔ اس پس منظر میں توقع کی جاسکتی تھی کہ جنرل باجوہ بھی اپنے پیشرو جنرل (ر) راحیل شریف کی طرح خود ہی توسیع لینے سے انکار کردیتے۔ تاہم انہوں نے یہ فیصلہ کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ البتہ اب ان سے یہ توقع ضرور کی جاتی ہے کہ وہ آنے والے برسوں میں فوج کو ملکی سیاست کی آلودگی سے پاک کرنے کے لئے کام کریں گے تاکہ فوج حقیقی معنوں میں پروفیشنل اور منظم ادارہ رہے۔ اور اس پر اپنے آئینی مینڈیٹ سے بڑھ کر کسی معاملہ میں مداخلت کرنے کا شائبہ بھی پیدا نہ ہو۔

ملک میں آرمی چیف کے طور پر خود ہی خود کو توسیع دینے والے چند فوجی آمروں کے علاہ صرف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کو پیپلز پارٹی کے سابق دور میں تین برس کی توسیع دی گئی تھی۔ عمران خان نے اگر سیاسی ضرورتوں کے تحت آج کے حکم نامہ پر دستخط کیے ہیں تو انہیں سابق صدر بلکہ سیاست کے بادشاہ گر آصف زرداری کے انجام سے سبق سیکھنا چاہیے تھا۔ لیکن زندگی میں شاید ہر شخص اپنی ہی غلطیوں سے سیکھتا ہے لیکن بعض اوقات ان کی اصلاح کا موقع نہیں ملتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali