جامعہ پنجاب کے \”غنڈے\” (2)


\"zia-ur-rahman\"

خدا خدا کر کے رات گزر گئی۔ صبح ناشتہ کے بعد باقی کاغذی کارروائی مکمل ہونے پر اپنے روم چلا گیا اور بستر وغیرہ سیٹ کرنے کے بعد پھر سے واپس گاؤں جانے کا پروگرام بنانے لگا کیونکہ ابھی کلاسز شروع ہونے میں دو ہفتے باقی تھے اسی لئے جتنی جلدی ممکن ہوسکے علاقہ ”غیر“ سے ”فرار“ ہونے میں عافیت جانی۔ لیکن شاید قسمت کو کچھ اور منظور تھا تقریباً تین بجے ناظم میرے کمرے میں آیا حال چال پوچھنے کے بعد میں نے اپنے گاؤں کا پروگرام بتایا تو وہ کچھ سوچ میں پڑھ گیا۔ میں سمجھا شاید میں نے اٌسے اپنے پروگرام کے بارے میں بتا کر خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے اور یہ خدشہ اس وقت یقین میں بدلنے لگا جب وہ کہنے لگے ”آج ہاسٹل میں ویلکم پارٹی ہے اسی لئے کل چلے جانا“ میں نے بمشکل وہ سانس پھیپھڑوں تک پہنچائی اور سر ہلاتے ہوئے ”حکم“ کی تعمیل کی۔

میں سوچنے لگا ”غنڈوں“ کی جو منظر کشی پرائیوٹ ٹی وی چینلز پر ہوئی تھی وہ اناً فاناً صحیح تھی۔ ویلکم پارٹی میں یہ لوگ اپنے کام وغیرہ کے بارے میں بتائیں گے پھر ممبر شپ کرواتے ہوں گے۔ ”غنڈہ گردی“ کی بنیادی اٌصول پر بات ہوگی شاید ٹریننگ سیشن بھی ہوگا۔ اور پھر ہم بھی دنیا میں ”غنڈہ“ کے نام سے مشہور ہوجائیں گے۔ میں دل تھام کر غنڈہ گردی سے ”انکار“ کا سوچنے لگا لیکن یک لخت میرا دماغ انکار کی ”انجام“ کے طرف جانے لگا۔ ”تشدد، سگریٹ یا گرم استری کی جلن“، اور یا پھر۔۔۔ ”بوری“۔ نہیں میں نے انکار نہیں کرنا۔ دل سے صدا آئی۔ مغرب کے بعد پارٹی شروع ہوئی میں دبے پاؤں نا چاہتے ہوئے پارٹی میں چلا گیا۔

سٹیج پر چار سے پانچ لوگ بیٹھے تھے جس کا تعارف ”ناظم جامعہ“، ”ناظم علاقہ“ اور اسی طرح کچھ اور عجیب سے عہدوں کے ساتھ ہونے لگا۔ میں فوراً سمجھ گیا یہی ”اوپر“ والے لوگ ہوں گے جو ”بوری“ کے پروانے پر دستخط کرتے ہیں۔ ناظم جامعہ سٹیج پر آئے۔ اور اپنے اپ کو ”اسلامی جمعیت طلبہ“ نامی تنظیم کا کارکن ظاہر کیا۔ قرآن و سنت کی بات کی۔ پڑھائی پر دھیان دینے کے وعظ کرنے لگے۔ ساتھ میں نماز باجماعت کے فوائد بتانے لگے۔ اس کے بعد ہاسٹل کے سینئر سٹوڈنٹس نے تفریحی خاکے تقاریر وغیرہ پیش کیئے۔ میں گٌم سٌم ایک طرف بیٹھا سوچ رہا تھا یہ غنڈے بھی عجیب ہیں، آخر کب اپنا رنگ دکھا ئیں گے؟

پارٹی کے اختتام پر کھانے کا پروگرام تھا، ساتھ میں کشمیری چائے بھی سرو ہو رہی تھی۔ چائے کا گلابی رنگ زندگی میں پہلی دفعہ اس وقت دیکھا اور میں نے وہ چائے یکسر نظر انداز کردی کیونکہ اس چائے کا رنگ ہمارے علاقوں میں دیسی نشہ ”ٹھنڈائی“ سے ملتا جٌلتا تھا میں سمجھا شاید ”غنڈے“ بھی وہ نشہ کرتے ہوں گے۔ ویلکم پارٹی بھی اپنے اختتام کو پہنچی لیکن غنڈے اپنا اصل چہرہ دکھا نہیں رہے تھے اور جوں جوں وقت گزرتا چلا گیا میرا خوف بڑھتا گیا کہ غنڈے حقیقت میں درندوں والے کام کرتے ہوں گے اسی لئے تو اتنے منظم انداز میں ابھی تک اپنا اصل شناخت چٌپھائے ہوئے ہیں۔ رات گزر گئی اور صبح سویرے میں لاہور سے دیر کے لئے روانہ ہوا۔ سارے سفر میں میری ایک ہی سوچ تھی کہ پورا نہیں تو ”آدھا“ غنڈہ ضرور بن چکا ہوں کیونکہ ایک دفعہ سٌنا تھا آدھا غنڈہ بندہ تب بنتا ہے جب وہ ایک تھالی پر غنڈوں کے ساتھ اکھٹا کھانا کھا لے۔ اور یہ سوچتے ہی مجھے اپنی آپ سے نفرت ہونے لگ جاتی تھی۔

دسمبر کی شروعات میں ایک مرتبہ پھر میں جامعہ وارد ہوا۔ اب چونکہ کلاسز شروع ہوچکی تھیں اسی لئے دھیان زیادہ تر پڑھائی کے طرف تھا۔ بہرحال لاشعوری طور پر خوف اٌسی صورت موجود تھا۔ چار دن بعد وہی ویلکم پارٹی کا ڈرامہ ڈیپارٹمنٹ میں رچایا گیا۔ وہی وعظ۔۔ تسلیاں اور پڑھائی پر دھیان کا بھاشن البتہ یہاں میں نے دو فرق دیکھے، ایک یہ کہ ہمارے اساتذہ بھی سٹیج پر موجود تھے اور مہمان خصوصی کسی اور ڈیپارٹمنٹ کا ہیڈ تھا۔ ظاہر سی بات ہے یہ تو ڈنڈے کے زور پر لائے گئے تھے۔ دوسرا یہ کہ اس ویلکم پارٹی میں لڑکیاں بھی مدعو تھیں لیکن میں یہ اندازہ کرنے سے قاصر رہا کہ ان کو بھی ڈنڈے کے زور پر لایا گیا ہے یا میری طرح خوف کے وجہ سے خودبخود آئی ہیں۔

دن گزرتے گئے اور میری اٌلجھن کی گتھی سٌلجھنے سے کوسوں دور۔ ایک دن نماز جمعہ کے بعد جامع مسجد کے سامنے والے چمن میں بڑی تعداد میں غنڈے اکھٹے تھے میرے ذہن میں آیا غنڈے نماز تو نہیں پڑھتے ہوں گے۔ شاید آج کسی کی شامت ہے باہر سے کوئی ”ہستی“ آئی ہوگی۔ میں دور لائبریری کے سائے میں کھڑا تماشے کا انتظار کرنے لگا۔ میرا خیال تھا آج ”غنڈہ گردی“ کے سارے پردے گریں گے۔ لیکن میں اس لمحہ ہکا بکا رہ گیا کہ اصل میں غنڈے ”تحفظ ناموس رسالت“ ریلی کے لئے وہاں جمع ہونے لگے تھے۔ اور پھر ایک جلوس کی شکل میں مین گیٹ کے طرف واک کرنے لگے۔ مجھے بھی ایک باریش نے دعوت دی اور میں ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ریلی میں شامل ہوگیا۔ آج پہلی دفعہ مجھے لاشعوری طور پر ”غنڈوں“ کے گروپ میں خوف محسوس نہیں ہورہا تھا۔ شاید یہ

ریلی کے مقصد کا اثر تھا یا کوئی دوسری وجہ۔ بہرحال سوچ کے دریچے پھر بھی غنڈوں کی ”کارروائیوں“ کا انتظار کرنے لگیں۔ گو مگو کی صورت حال میں دو ہفتے اور بھی گزر گئے اس دوران ایک آدھ بار ہاسٹل ناظم کے ساتھ میری ملاقات ہوئی۔ پھر 16 دسمبر کا سورج طلوع ہوا۔ دن ڈھل گئی اور شام کے اندھیرے چھانے لگے۔ ایک تو ویسے بھی مجھے دسمبر میں انجانے سے احساسات گھیر لیتے ہیں اوپر سے 16 دسمبر سقوط ڈھاکہ۔ مغرب کے بعد میں آفس کے ساتھ کھڑا اخبار پڑھ رہا تھا کہ ناظم آکر مجھے کہنے لگا چلو 16 نمبر ہاسٹل چلتے ہے اور میں نے ہاں یا ناں کی جرات کیے بغیر حکم کی تعمیل کرنے کی۔ کیونکہ میرے ذہن کے سانچوں میں وزیرستان اور جامعہ پنجاب میں خاص فرق نہیں تھا اور یہ تو مجھے پتہ تھا وزیرستان میں ”انکار“ کا انجام کیا ہوتا ہے۔

راستے میں پتہ نہیں میرے خیالات کون کون سی وادیاں گوم رہی تھیں۔۔ کہ اتنے میں ناظم گویا ہوئے 16 نمبر ہاسٹل میں ”سقوط ڈھاکہ کانفرنس“ ہے۔ میں فوراً سمجھ گیا غنڈے 71 کی اپنی ”غنڈہ گردیوں“ کے ریکارڈز بتائیں گے۔ کتنا پیسے لوٹا تھا۔ کتنے جگر گوشے قتل کیے۔ کتنے زیوارات چھینے تھے۔ ایک لمحے کے لئے میں ”ٹاںگیں“ توڑنے والی دھمکی بھی میں ان غنڈوں کے کھاتے میں درج کرنے لگا تھا لیکن پھر خیال آیا نہیں وہ تو جمہوریت کا رہنما اور آزادی رائے کے اظہار کا داعی تھا۔

خیر ان سوچوں میں محو ہم ہاسٹل کے گیٹ پہنچ گئے۔ وہاں پہلے سے کافی لوگ موجود تھے۔ میں گم سٌم ایک طرف بیٹھ گیا۔ ابھی تک میں نے غنڈوں کے جتنے بھی ”منافقت“ کے ڈرامے اٹینڈ کیے تھے ان ساروں میں میرا دھیان اور توجہ ایک منٹ بھی ان کے وعظ و نصیحت کے طرف نہیں گیا تھا۔ کیونکہ یہ میرا جامعہ آنے سے پہلے کا فیصلہ تھا کہ غنڈوں کی ہر طرح کی چالوں اور داموں سے بچ کر رہنا ہے۔

ایک لمحے کے لئے میری نظریں سٹیج کی جانب جانے لگیں۔ مہمان خصوصی کی کٌرسی پر ڈاکٹر صفدر محمود براجمان تھے۔ ایک سیکنڈ کے لئے مجھے لگا میں خواب دیکھ رہا ہوں لیکن جلد ہی احساس ہوا کہ نہیں حقیقت ہے۔ میرا تجسس اور بھی بڑھنے لگا۔ پہلے تو میں سوچنے لگا شاید یہ بھی ڈنڈے کا کمال ہوگا لیکن دوسرے لمحے خیال آیا نہیں وہ ایک بڑا صحافی ہے ایسا نہیں ہوسکتا۔ خیر میری توجہ مسلسل سٹیج پر مرکوز رہی کہ کب ڈاکٹر صاحب خیالات کا اظہار کریں گے۔

ناظم جامعہ آئے اور 71 کی جنگ میں ”جمعیت“ کی قربانیوں کا ذکر کیا۔ یہاں مجھے ایک بات کلیر ہو گئی کہ ”غنڈہ“ اور ”جمعیت“ ایک ہی جنس کا نام ہے۔ کیونکہ ”بریکنگ نیوز“ میں یہ دونوں الفاظ ایک ہی چیز کے لئے مستعمل تھے۔ ڈاکٹر صاحب سٹیج پر آئے اور سقوط ڈھاکہ کی تاریخ اور اٌس کے اثرات پر بات کرنے لگے۔ جب بات ”جمعیت“ پر آنے لگی تو اٌنہوں نے بھی ناظم کی باتوں کی توثیق کی اور فرمایا کہ 71 کے جنگ میں جمعیت کے نوجوان پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑے تھے۔ یہ سنتے ہی میرے آنکھیں چندھیا گئیں۔ میرے اوپر جیسے کسی نے منوں مٹی ڈالی ہوں۔ میں وہاں سے بھاگنا چاہ رہا تھا مگر میرے ٹانگوں میں دم نہیں تھا۔ مجھے احساس ندامت بھی ہورہا رہا تھا کہ جن کو میں بدمعاش سمجھ رہا ہوں اٌنہوں نے دھرتی ماں کے لئے قربانیاں دی ہیں کہ جب بہت سارے ملک کا ”سودا“ کررہے تھے تو ”غنڈے“ اس کے حفاظت کے لئے جان دے رہے تھے۔

واپسی پر اپنے ہاسٹل جاتے ہوئے سوچ آنے لگی کہ میں جزبات کی رو میں بہہ گیا ہوں اور بٌری طرح غنڈوں کے دام میں پھنس چٌکا ہوں۔ لیکن ایک بات کا اطمینان تھا کہ مجھے ڈاکٹر صاحب پر یقین تھا۔ اس رات کے بعد میرے اندر ایک اور لڑائی نے جنم لیا۔ دماغ ”غنڈوں“ پر مٌصر تھا اور دل ڈاکٹر صاحب والی ”جمعیت“ کا صدا لگا رہا تھا۔ لڑائی میں کون فتح یاب ہوا؟ اس کے لئے اگلے اوراق کا انتظار کیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments