مسئلہ کشمیر کی پیچیدگی اور صدر ٹرمپ کی سادہ لوحی


اگر امریکی صدر ٹرمپ کی باتوں پر یقین کیا جائے تو کشمیر کا مسئلہ اتنا سیدھا اور آسان رہ جاتا ہے کہ وہاں مسلمان اور ہندو آباد ہیں جو آپس میں اچھی طرح نہیں رہ پاتے۔ اور پاکستان و ہندوستان کے وزرائے اعظم دونوں ذبردست انسان اور ٹرمپ کے دوست ہیں۔ اب کسی طرح ان دونوں کی دوستی ہوجائے تو اس مسئلہ کو آسانی سے حل کیا جاسکتا ہے۔ شاید اسی لئے صدر ٹرمپ اپنے عزیز دوست نریندر مودی سے اگلے ہفتے پیرس میں جی۔ 7 ملاقات کے دوران بات کریں گے اور یہ تنازعہ حل کروانے کے لئے اپنی طرف سے ’ثالثی‘ کی پوری کوشش کریں گے۔

یہ کہنا مشکل ہے کہ مقبوضہ یا آزاد کشمیر میں آباد کتنے حقیقی کشمیری، امریکی صدر کے تجویز کردہ اس حل سے متفق ہوں گے۔ یا مسئلہ کشمیر کے بارے میں ان کی تشخیص کو درست قرار دیں گے کہ یہ کشمیریوں کے بطور قوم شناخت اور آزادی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ دو مذاہب ماننے والوں کی لڑائی ہے۔ اگرچہ پاکستان اور ہندوستان نے اپنے اپنے طور پر اسے تقسیم ہند کے تناظر میں اسی طور دیکھنے اور ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ یعنی اب صدر ٹرمپ اس بنیاد کو ہی مسترد کررہے ہیں کہ کشمیری ایک قوم ہیں اور انہیں اپنے خطہ زمین کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حتمی حق حاصل ہونا چاہئے۔ یہی بات اصولی طور پر تنازعہ کی بنیاد ہے۔ وہ ایک ایسے معاملہ کومسئلہ قرار دے رہے ہیں جو کشمیریوں کو تقسیم کرنے کے لئے خارجی قوتوں نے عام کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسلام آباد یا نئی دہلی کا اپنے اپنے نقطہ نظر سے یہی طرز عمل رہا ہے۔ یہ دونوں ممالک عقیدہ سے قطع نظر کشمیریوں کو اس خطے کے باسیوں اور مشترکہ روایت و تہذیب کے وارث کے طور پر قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

پاکستان کی طرف سے کشمیر کا مقدمہ لڑنے کی بنیاد کشمیری اکثریت کا مسلمان ہونا رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان اب بھی زور شور سے اسی بنیاد پر بھارتی حکومت اور وزیراعظم کو ہندو انتہا پسند اور فاشسٹ قرار دیتے ہیں۔ اور دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ نئے آئینی انتظام کے تحت کشمیر میں مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرکے وہاں ہندو تسلط نافذ کرنے والے ہیں۔ جبکہ نریندر مودی اپنے طور پر کشمیر کو ماضی کے سیاسی اور انتظامی بندھنوں سے’ آزاد‘ کروا کے وہاں خوشحالی لانے کی بات کرتے ہیں۔ اس پالیسی کے نتیجہ میں کشمیر کی سرکاری املاک کو ہندو سرمایہ داروں کے مصرف میں دے کر ایسے معاشی اور سماجی حالات پیدا کئے جائیں گے کہ غریب کشمیری مسلمان اپنی املاک فروخت کرنے پر مجبور ہونے لگیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی ہندو بالادستی پر یقین رکھتی ہے۔ البتہ نریندر مودی اور ان کے ساتھیوں نے یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے معیشت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔

بی جے پی کی حکومت نے گزشتہ چند برس کے دوران پاکستان کے خلاف معاشی ہتھیار کو استعمال کر کے ہی پاکستان کی مجبوریوں اور بے بسی میں اضافہ کیا ہے۔ پہلے دہشت گردی کے معاملہ پر پاکستان کے خلاف عالمی فضا تیار کی گئی، امریکہ سے دوستی گانٹھی گئی اور بالآخر ایف اے ٹی ایف کو پاکستان کے سر پر سوار کردیا گیا۔ اب پاکستان کو بھارتی جارحیت سے زیادہ اس بات کی فکر ہونی چاہئے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس اسے گرے سے بلیک لسٹ میں ڈال کر اس کی معیشت کی کمر بالکل ہی نہ توڑ دے۔

اس کے ساتھ ہی گزشتہ دو دہائیوں کے دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ تو پاکستان نے لڑی اور مسلم امہ کے نام پر پاکستانی نوجوانوں کو’ اسلام کے مجاہد ‘ بنایا گیا لیکن عرب ملکوں کو اپنی دولت کی حفاظت کے لئے بھارتی منڈی زیادہ دلکش دکھائی دینے لگی۔ اسے ستم ظریفی ہی کہا جا سکتا ہے کہ حرمین شریفین کی حفاظت کے نام پر سعودی شاہی خاندان کی حکومت کا محافظ ہونے کا دعویدار تو پاکستان اور اس کی فوج ہے لیکن شاہی خاندان اپنے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری بھارتی کمپنیوں کے ذریعے بھارت میں کر رہا ہے۔ اگرچہ پچیس تیس سال پہلے بھی عرب ممالک زبانی دعوؤں کی حد تک ہی پاکستان کے ساتھ تھے لیکن اب کشمیریوں کے خلاف مودی حکومت کے یک طرفہ جارحانہ اقدام پر ان ممالک کی طرف سے پاکستان کو زبانی تائید اور حمایت بھی حاصل نہیں ہوسکی۔ ایک لے دے کے ٹرمپ رہ گئے ہیں، جنہوں نے مسئلہ کی نبض پر ہاتھ رکھ کر یعنی اسے ہندو مسلمان تنازعہ قرار دے کر ثالثی کی کوششیں شروع کی ہیں۔

یہ ایک کثیر الجہت بحث ہوگی کہ ٹرمپ کی ان کوششوں کا مقصد کیا ہے لیکن اگر اسے ہندوستان میں ہندو بالادستی اور پاکستان میں مدینہ ریاست بنانے کے نعروں کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ اور یہ زمینی حقیقت تسلیم کرلی جائے کہ بھارت اور پاکستان دونوں ہی کشمیر کے حصے پر قابض ہیں اور ان میں سے کوئی بھی اپنے زیر تسلط علاقے سے دست بردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہے۔ تو یہ سمجھنا آسان ہو سکتا ہے کہ امریکی حکومت اسی طرز کا کوئی حل تلاش کرنے کی کوشش میں ہے جس کے خد و خال مشرف باجپائی کے آگرہ مذاکرات میں طے ہوئے تھے اور جن پر پاکستانی فوج کی قیادت اور بھارتیہ جنتا پارٹی کا اتفاق رائے تھا۔

صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش اور پاکستان کی طرف سے اس پر غیرمعمولی گرم جوشی کے اظہار سے کیا یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ اس جوش و خروش کی بنیاد آگرہ اتفاق رائے ہی ہے جس کے مطابق مبینہ طور پر یہ بات طے کی گئی تھی کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے زیرتسلط کشمیر کی موجودہ حیثیت کو تسلیم کرلیں گے اور لائن آف کنٹرول کو ورکنگ باؤنڈری مان لیا جائے گا۔ اس تنازعہ کو حل کرنے کے بعد دونوں ملکوں میں مواصلت اور تجارت کو فروغ دیا جائے گا جس میں کشمیر کے دونوں ملکوں میں تقسیم حصوں کے درمیان آمد ورفت کو معمول پر لانا بھی شامل ہو گا۔ یہ حل پاکستان کی معاشی ، سماجی اور سیاسی صورت حال میں شاید ایک مناسب راستہ ہو لیکن اس میں کشمیر کے اصل مسئلہ یعنی کشمیری عوام کے حق خود اختیاری کا معاملہ فراموش کر دیا جائے گا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے بھارت کو افغانستان کے لئے بری راستہ دینے کی پیشکش کو بھی اس بڑی تصویر کے فریم میں ہی دیکھنا چاہئے۔ شاید اسی لئے ان کے عہدے کی مدت میں توسیع بھی وقت کی اہم ترین ضرورت تھی۔

تاہم یہ سوال اپنی جگہ موجود رہے گا کہ اس بات کی ضمانت کون فراہم کرے گا کہ کشمیری عوام کو اس حل پر کیسے آن بورڈ لیا جائے گا۔ پاکستان اور بھارت بعض خود ساختہ کشمیری لیڈروں کے ذریعے اس اتفاق رائے کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش ضرور کرسکتے ہیں لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ کشمیریوں کے جذبہ حریت کے سامنے یہ کوششیں کس حد تک کامیاب ہوں گی۔ موجودہ صورت حال میں پاکستان کشمیریوں کو آزادی اور بھارت خوشحالی اور استحکام کا جھانسا دے کر لبھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اس کے باوجود بھارتی زیر انتظام کشمیر میں مکمل بغاوت کے آثار ہیں اور پاکستانی کشمیری اس امید پر پاکستان کا ساتھ دیتے ہیں کہ نہ تو ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ ہے اور اگر آزادی کی کوئی امید باقی ہے تو اسے پاکستان کی سفارتی، سیاسی اور عسکری مدد سے مشروط سمجھا جاتا ہے۔ البتہ امریکہ کے تعاون سے اپنے اپنے کشمیر پر مستقل قبضہ کرنے کے بعد پاکستان کے پاس بھی کشمیریوں کو جھانسہ دینے کا کوئی نعرہ نہیں ہو گا۔

ٹرمپ نے جس طرح اس مسئلہ کو ہندو مسلمان تنازعہ بنا کر پیش کیا ہے، اس سے تکنیکی طور پر بھارتی حکومت کے حالیہ آئینی و انتظامی اقدامات کی تصدیق بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ امریکی صدر کشمیری عوام کے حق اور وہاں انسانی حقوق سلب کرنے کی بات نہیں کرتے بلکہ اسے مسلمان ہندو لڑائی قرار دے کر کوئی راستہ تلاش کرنے کی بات کررہے ہیں ۔ دو قومی نظریہ کے رومان میں مبتلا لوگوں کے لئے یہ شاندار کامیابی کے مترادف ہوگا لیکن کسی کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہوگا کہ اگر کشمیر کا معاملہ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر حل ہونا چاہئے تو بھارت کی 20 کروڑ کے لگ بھگ مسلمان آبادی کو ہندو استبداد سے کیسے بچایا جائے گا ۔

امریکی صدر کے تازہ بیان سے اگر کشمیر کے معاملہ پر امکانات سامنے آئے ہیں تو متعدد خدشات بھی سر اٹھائیں گے۔ ٹرمپ کی باتوں اور خواہش کو خواہ کسی زاویے سے دیکھا اور سمجھا جائے اس میں کشمیر کا طویل المدت حل موجود نہیں ہے۔ البتہ یہ اشارہ ضرور ملا ہے کہ امریکہ، پاکستان اور ہندوستان کے ساتھ مل کر اس کا کوئی جزوقتی حل تلاش کرنا چاہتا ہے تاکہ اس علاقے میں افغان امن معاہدہ، سی پیک اور بحر جنوبی چین سمیت امریکی مفادات کو محفوظ کیا جا سکے۔ پاکستان اور بھارت اسی امریکی چار خانہ میں اپنے اپنے مفاد تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔

ان سب قیاسات اور اندیشوں کے ہجوم میں یہ بات زیادہ اہم ہوگئی ہے کہ پاکستانی حکومت درپردہ طے ہونے والے معاملات پر قوم کو اعتماد میں لے۔ بتایا جائے کہ 70 برس تک قوم کو جس نعرے کے پیچھے لگایا گیا تھا، کیا نئے پاکستان کی بنیاد اس کی لاش پر رکھی جائے گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali