جنت کشمیر لہو لہان، ہزاروں نوجوان گرفتار، خواتین سے دست درازیاں


اس حوالے سے وزرات خارجہ، دفاع اور اقوام متحدہ میں تعینات مستقل مندوب کو ٹھوس بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستانی موقف پر عالمی برادری سنجیدگی سے توجہ دیں سکیں۔ خاص کر وزیر اعظم اُس وقت امریکا میں جنرل اسمبلی سے خطاب کررہے ہوں گے جب افغان امن عمل کا مرحلہ بھی کسی منطقی انجام کے قریب پہنچ یا حل ہوچکا ہوگا۔ لہذا وزیر اعظم کا ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

خاص طور پر خطے میں تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال کے تناظر میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں و اداروں کو ایک صفحے پر آنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ سیاسی خلفشار و ملک میں سیاسی بے چینی اور عوام کی توجہ منتشر ہونے سے پاکستان اپنے ٹھوس و اصولی موقف کو عالمی برداری میں پُر اعتماد طریقے سے نہیں پہنچا پائے گا اور یہی بھارت کی سازش بھی ہے تاکہ مسئلہ کشمیر و افغانستان سے عالمی برداری کی توجہ ہٹائی جاسکے۔ اور آر ایس ایس کے نازی نظریے کی سازشی منصوبوں کو کامیاب کیا جاسکے۔

پاکستان اس وقت سفارتی حوالے سے اہم ممالک سے مسلسل رابطے میں ہے۔ خارجہ محاذ پر پاکستانی دسفارتی مشن کو مسئلہ کشمیر کو اقوام عالم کے سامنے مزید نمایاں طور پر اجاگر کرنے کے لئے ضروری ہدایات دی جا چکی ہیں۔ تاہم اس حوالے سے وزرات خارجہ کو مزید کام ی ضرورت ہے۔ وزیر خارجہ کو بھارت کے مکروہ کردار کو عالمی برداری کے سامنے لانے کے لئے پاکستان سے وابستہ مشترکہ مفادات کے حامل ممالک کی حمایت کے حصول کی کوششوں کو مزید تیز کرنا ہوگا۔

کیونکہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال خطرناک حد تک بگڑتی جا رہی ہے اور کشمیر کے حالات اُس نہج پر پہنچ رہے ہیں جہاں سے واپسی کا راستہ بہت تلخ و تکلیف دہ ہوگا۔ عالمی برادری کو احساس کرنا ہوگاکہ مقبوضہ کشمیر میں حراست میں لئے جانے والے کشمیری نوجوانوں کی کالے قانون کے تحت گرفتاریوں اور کرفیو سے متاثرہ علاقوں میں عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے سے اسٹریجک ٹینشن میں اضافہ ہورہا ہے۔ جس سے خطے میں خطرناک جنگ ہونے کے امکانات بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔

بھارت کی جانب سے مسلسل لائن آف کنٹرول کی خلاف وزری اور آبی جارحیت کے بعد پاکستان بھارت کی کسی بھی مکروہ سازشی منصوبے سے غافل نہیں ہے لیکن حالات کا بہاؤ جس جانب ہے اس کا رخ موڑنا پھر کسی بھی ملک کے لئے ممکن نہیں ہوگا۔ یہاں امر قابل ذکر ہے کہ ایک جانب امریکی صدر ٹرمپ ثالثی کی پیش کش کرتے ہیں تو دوسری جانب امریکی انتظامیہ امریکی صدر کے بیان کے برعکس معاملے کو سلجھانے کے بجائے الجھانے میں مصروف ہے۔ امریکا محکمہ خارجہ کے عہدے دار کا کہنا ہے کہ پاکستان عالمی فورمز پر جانے کی بجائے بھارت سے براہ راست مذاکرات کرے، امریکی محکمہ خارجہ کے سینئر عہدیدار نے کہا کہ پاکستان دہشتگردی کی حمایت بند کرنے کے حوالے سے موثر اور دیرپا اقدامات کرے، ایسے حالات میں ہم سمجھتے ہیں کہ پیداواری مذاکرات اور دو ملکوں کے درمیان گفت و شنید ہو سکتی ہے، صدر ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ اگر دونوں فریق چاہیں تو وہ ثالثی کے لئے تیار ہیں لیکن ان سے ثالثی کے لئے نہیں کہا گیا۔

غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کی سینئر عہدیدار نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں لوگوں کی گرفتاریوں اور خطے میں شہریوں پر مسلسل پابندیوں پر تشویش ہے۔ ہم قانون کے مطابق انفرادی حقوق کے احترام کا مطالبہ کرتے ہیں، انہوں نے جامع مذاکرات پر زور دیا۔ خاتون عہدیدار نے کہا کہ ہم بھارتی تشویش سے بھی آگاہ ہیں تاہم ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ خطے میں فوری طور پر حالات کو معمول پر لایا جائے۔

، امریکی عہدیدار نے اسے بھارتی حکام کی ”اسٹینڈرڈ ٹاکنگ پوائنٹس“ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان کا اپنا فیصلہ ہے کہ وہ کشمیر ایشو دنیا بھر میں تمام پلیٹ فارمز پر لیجائے لیکن امریکی انتظامیہ سمجھتی ہے کہ مسئلہ کشمیر کو کثیر الفریقی بنا کر نہیں بلکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان براہِ راست مذاکرات سے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکا کنٹرول لائن کی حیثیت کو عالمی سرحد میں تبدیل کرنے کا مشورہ نہیں دے گا۔

مقبوضہ کشمیر اور افغانستان امن عمل ک حل سے خطے میں جہاں امن کا بسیرا ممکن ہے تو دوسری جانب خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ اور ایٹمی جنگ نہ ہونے کا بھی خطرہ ٹل جانے کی امید کی جا سکتی ہے۔ اب یہ عالمی برداری کی ذمے داری بنتی ہے کہ انتہا پسند ی و شدت پسندی جو کہ کسی بھی شکل میں خطے میں موجود ہے وہ کسی ایک ملک کے لئے نقصان کا سبب نہیں بنے گی بلکہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے اس لئے افغانستان امن حل اور مقبوضہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرانے کا یہ ایک سنہری موقع ہے۔ عالمی طاقتیں سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر انسانی حقوق کی پاسداری کریں تو جنگ ختم ہو سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3