احمدی مسئلہ، ٹرمپ اور زاہد الراشدی صاحب


روزنامہ اوصاف لاہورنے اپنے 3 اگست 2019ء کے شمارہ میں جناب زاہد الراشدی صاحب کا ایک کالم ’قادیانی مسئلہ اور صدر ٹرمپ‘‘ کے عنوان سے ایک کالم شائع کیا ہے۔ جناب زاہد الراشدی صاحب ایک ایسی مذہبی شخصیت ہیں جن کا صحافت کے ساتھ پرانا تعلق ہے اور وہ اکثر ان معاملات پر خامہ فرسائی فرماتے رہتے ہیں۔

 کالم کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ

’’چند روز قبل امریکہ کے صدر ٹرمپ کے ساتھ ایک قادیانی وفد کی ملاقات کی خبر سے قادیانی مسئلہ ایک نیا رُخ اختیار کر گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ قادیانی وفد نے امریکی وفد سے شکایت کی ہے کہ پاکستان میں انہیں مسلمان تسلیم نہیں کیا جاتا ہے اس کے جواب میں صدر امریکہ نے کیا کہا اس کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا‘‘۔

حیرت ہے کہ مولانا نے یا تو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اس ویڈیو کو دیکھا نہیں یا جان بوجھ کر ابہام پیدا فرمایا ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مندرجہ بالا واقعہ کی مختصر تفصیل بیان کی جائے۔

گذشتہ دو برس سے امریکن سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے مذہبی ہم آہنگی کو اُجاگر کرنے کے لئے ایک کانفرنس منعقد کی جاتی ہے جس میں مقالہ جات پڑھے جاتے ہیں۔ مکالمے ہوتے ہیں اور اس امر کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ مذہبی منافرت کو کیسے کم کیا جائے اور بھائی چارہ کو کس طرح فروغ دیا جائے۔

اس سال جولائی کے اوائل میں یہ کانفرنس منعقد ہوئی اور اس میں امسال مختلف ممالک سے 1000کے قریب مندوبین شریک ہوئے۔ نیز س کانفرنس میں دنیا بھر سے 24 ممالک کے 27 ایسے لوگ جو مذہبی انتہا پسندی کا نشانہ بنے تھے ان کو مدعو کیا گیا اور یہ مختلف مذاہب اور مکتبہ ہائے فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں عیسائی، بدھ، یزیدی، یہودی اور مسلمان سبھی شامل تھے۔ اور میانمر، ویت نام، نارتھ کوریا، ایران، ترکی، کیوبا، ایری ٹیریا، نائیجریا، سوڈان، یمن، جرمنی اور عراق کے باشندے تھے۔ ان میں ڈاکٹر فرید احمد بھی شامل تھے جو خود کرائسٹ چرچ میں ہونے والے حملہ میں زخمی ہوئے اوران کی اہلیہ شہید ہو گئیں۔

اس کانفرنس کے دوران ان تمام افراد کی صدر امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کروائی گئی اور تمام افراد نے اپنا اپنا تعارف کروایا۔ اس موقع پرپاکستان سے مدعو کئے جانے والے احمدی عبدالشکور صاحب بھی موجود تھے جنہیں اس کانفرنس کے منتظمین نے خود چنا، بلوایا اور سفر کے انتظامات کئے۔ اس موقع پر صرف شکور صاحب ہی نہیں ہر رُکن سے جو گفتگو ہوئی وہ ریکارڈ ہوئی اور نشر بھی کی گئی۔

شکور صاحب نے ’اُردو‘ میں اپنے بارہ میں جو تعارف پیش کیا وہ اس طرح ہے کہ میں احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہوں۔ ہمیں 1974ء میں پاکستان میں غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ ہمارے گھروں اور دوکانوں کو لوٹا گیا۔ میں اپنے بچوں کو لے کر ربوہ منتقل ہوگیا۔ مجھے جماعت کتب فروخت کرنے پر پانچ سال قید اور چھ لاکھ روپے جرمانہ کی سزا ہوئی۔ (لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے احکامات کے بعد) سوا تین سال بعد رہا ہوا۔ میں امریکہ میں اپنے آپ کو مسلمان کہہ سکتا ہوں مگر پاکستان میں نہیں۔ اگر کہوں گا تو سزا دی جاتی ہے۔ ہم پُرامن کمیونٹی ہیں ہم گالیوں اور بدزبانی کے جواب میں کسی کو کچھ نہیں کہتے اور اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑتے ہیں۔

اس کا ترجمہ جناب شان تاثیر صاحب نے ساتھ ساتھ کیا۔

پھر اس کے بعد تمام تعارف کے جواب میں امریکی صدرٹرمپ نے جو کہا وہ بھی اسی ویڈیو میں موجود ہے۔ زاہد الراشدی صاحب اگر اس ویڈیو کو ملاحظہ فرما لیتے تو انہیں یہ کہنے کی ضرورت نہ پڑتی کہ قادیانی امریکن صدر کے پاس شکایت لے کرگئے ہیں اور پتہ نہیں ٹرمپ نے کیا کہا ہے اس گفتگو میں شکور صاحب سے پہلے تمام شرکا  اپنے اپنے خیالات سے صدر ٹرمپ کو مطلع کر چکے تھے۔ شکور صاحب نے جو گفتگو کی، کیا مولانا موصوف اس میں سے کسی بات کی تردید کرسکتے ہیں؟

مولانا راشدی صاحب کی اس بات سے دنیا کا ہر ذی شعور اتفاق کرے گا کہ صدر ٹرمپ چھوڑ، دنیا کا کوئی بھی حکمران بلکہ حکمرانوں کا مجموعہ اور اقوام متحدہ بھی کسی دنیا کے ملک میں کسی فردیا گروہ کو مسلمان یا غیر مسلم قرار دینے کی اتھارٹی نہیں رکھتا۔ یہ ایک مذہبی معاملہ ہے اور ہر فرد کا حق ہے کہ وہ جو اپنے آپ کو سمجھے اس کا اعلان کرے اور کسی بھی شخص کا یہ حق ہے کہ وہ دوسرے کو جو چاہے سمجھے۔ لیکن یہ حق تو کسی مہذب معاشرے میں بہرحال کسی کو نہیں دیا جاتا کہ دوسرا فرد اس کے سمجھ کے مطابق اپنے آپ کو بھی سمجھے۔

۔ یہاں یہ بات بھی واضح ہوچکی ہے کہ کوئی قادیانی وفد صدر ٹرمپ کو ملنے نہیں گیا تھا اور نہ ہی اس ضمن میں کوئی شکایت کرنے گیا تھا۔ شکور صاحب نہ تو کوئی جماعت عہدیدار ہیں اور نہ ہی جماعت کی نمائندگی میں وہاں گئے تھے۔

محض اپنی بات کی قیمت بڑھانے کیلئے راشد ی صاحب نے جان بوجھ کر مغالطہ پیش کیا ہے اور پھر شکور صاحب تو صاف کہہ رہے ہیں اور آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر کہہ رہے ہیں کہ وہ یہ معاملہ خدا پر چھوڑتے ہیں۔ ٹرمپ سے کوئی شکایت کی نہ درخواست کی اور نہ ہی کوئی مدد طلب کی۔

اگر راشدی صاحب، صدر ٹرمپ کو خدا سمجھتے ہیں جن پر شکور صاحب نے معاملہ چھوڑا ہے تو یہ راشدی صاحب کا اپنا معاملہ ہے۔۔۔۔ !

راشدی صاحب نے اپنے کالم میں مورمن فرقہ کی مثال پیش کی ہے اور شیخی بھگارتے ہوئے اپنے ایک نشریاتی پروگرام کا حوالہ دیا ہے کہ کس طرح انہوں نے یہ مثال پیش کر کے ایک مسیحی مذہبی رہنما کو خاموش کر دیا۔

میرے خیال میں اللہ تعالیٰ نے اُن کے قلم اور زبان سے یہ مثال پیش کروا کے ان کے اپنے دلائل کی نفی کروائی ہے۔ کیا راشدی صاحب بتائیں گے کہ مورمن فرقہ کو کس ملک نے یا خاص طور پر امریکہ نے حکومتی، عدالتی سطح پر غیر عیسائی اقلیت قرار دے کر ان کے عیسائی ہونے کا ٹائٹل یا ان کے مذہبی اعتقادات یا ان کی تبلیغ پر پابندی لگائی ہے؟کتنے مورمنز پر بائبل پڑھنے پر مقدمات ہوئے ہیں ؟کتنوں کواپنے عیسائی کہنے پر قید کی سزائیں دی گئیں؟کوئی اگر انہیں عیسائی نہیں سمجھتا نہ سمجھے مگر ریاست نے اس کام میں کوئی مداخلت نہیں کی۔ یہ اعزاز دنیا بھر میں پاکستان کو ہی حاصل ہوا ہے۔ اس لئے یہ دلیل کہ عیسائیوں کاکوئی گروہ دوسرے کو سچا عیسائی نہیں سمجھتاہر گز قابل اعتنا نہیں۔

۔ ویسے راشدی صاحب کو یہ بھی اچھی طرح یادہوگا کہ مسلمانوں میں سے ہر فرقہ اپنے سوا دوسروں کو کیا سمجھتا ہے اور اپنے فتاویٰ میں ان کو کن کن الفاظ میں یاد کرتا ہے اس باب میں تو کتابیں بھری پڑی ہیں۔

رہ گئی بات کہ پارلیمنٹ، عدالت عظمیٰ، مذہبی قیادت اور سول سوسائٹی کے عناصر اربعہ یعنی اکثریت کسی کی سماجی حیثیت کا فیصلہ کرے۔ عدالت سول سوسائٹی۔ وغیرہ

بدقسمتی سے مذہبی قیادت خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتی ہوجب بھی کسی کی سماجی حیثیت کا فیصلہ کرتی رہی، تاریخ ان کے اثرات کو ہمیشہ منفی نظر سے دیکھتی رہی ہے۔ خود یورپ میں کٹر مذہبی قیادت کے نظریات کی بدولت جو گھٹن پیدا ہوئی اور قتل وغارت کا بازار گرم ہوا، اسے تاریخ میں کس نام سے یاد کیا جاتا ہے؟

خود وطن عزیز میں یہی مذہبی قیادت تھی جس نے قیام پاکستان سے ہی یہ روش جاری کردی اور نتیجتاً پاکستان کی تاریخ کا پہلا مارشل لاء (خواہ وہ جزوی ہی تھا) انہی علماء کے پیداکردہ فساد کے نتیجہ میں لگا اور قوم آج تک اس کے اثرات سے نکل نہیں سکی۔ اکثریت کے بل بوتے پر مذہبی فیصلے کرنے کی ذہنیت نے جو گُل کھلائے ہیں اس کا ذکر قارئین کی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔

پاکستانی عدلیہ نے اس غیر فطری روش کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے ہولناکیوں کا پون صدی قبل ہی اندازہ لگالیا تھا۔ اللہ تعالیٰ جزاء دے فسادات1953ء کی عدالتی انکوائری کمیٹی کوجس نے اس معاملہ کو بھانپا اور علمائے کرام کو اس طرف توجہ بھی دلائی۔ فاضل جج صاحبان اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں:

’’اگرپاکستان کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے دستور کی بنیاد مذہب پر رکھے تو یہی حق ان ملکوں کو بھی دینا ہوگا جن میں مسلمان کافی بڑی اقلیت پر مشتمل ہیں یا جو کسی ایسے ملک میں غالب اکثریت رکھتے ہیں جن میں حاکمیت کسی غیر مسلم قوم کو حاصل ہے لہذا ہم نے مختلف علماء سے یہ سوال کیا کہ اگر پاکستان میں غیر مسلموں کے ساتھ شہریت کے معاملات میں  مسلموں سے مختلف سلوک کیا جائے تو کیا علماء کو اس امر پر کوئی اعتراض ہو گا کہ دوسرے ملکوں میں مسلمانوں کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ روا رکھا جائے‘‘۔

یہ سوالات فاضل جج صاحبان نے مختلف ’علماء‘ مذہبی قیادت سے کئے ان میں سے دو جوابات درج ذیل کئے جاتے ہیں۔

عالم نمبر1 مولوی ابوالحسنات قادری

سوال:کیاآپ ہندوؤں کا جو ہندوستان میں اکثریت رکھتے ہیں یہ حق تسلیم کریں گے کہ وہ اپنے ہاں ہندو دھرم کے ماتحت مملکت قائم کر لیں؟

جواب:ہاں

سوال:اگر اس نظام حکومت میں منو شاستر کے ماتحت مسلمانوں سے ملیچھوں یا شودروں کا سلوک کیا جائے تو کیا آپ کو کوئی اعتراض ہوگا؟

جواب:جی نہیں۔

عالم نمبر2 مولانا ابو الاعلیٰ مودودی

سوال:اگر ہم پاکستان میں اس شکل کی اسلامی حکومت قائم کرلیں تو کیا آپ ہندوؤں کو اجازت دیں گے کہ وہ اپنے دستور کی بنیاد اپنے مذہب پر رکھیں؟

جواب:یقینا مجھے اس پر کوئی اعتراض نہ ہوگا کہ حکومت کے اس نظام میں مسلمانوں سے ملیچھوں اور شودورں کا سا سلوک کیا جائے۔ ان پر منو کے قوانین کا اطلاق کیا جائے اور انہیں حکومت میں حصہ اور شہریت کے حقوق قطعاً نہ دیئے جائیں۔

رپورٹ تحقیقاتی عدالت برائے تحقیقات فسادات پنجاب1953ء صفحہ 354 ناشر نیا زمانہ پبلیکیشنز لاہور

اور اس قسم کے جوابات دوسرے علماء نے بھی دیئے۔

آپ نے ملاحظہ کیا ’مذہبی قیادت‘ نے کس بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ ہندوستان اور دیگر ممالک میں بسنے والے اُمت محمدیہ کے نہتے، معصوم اور بے بس مظلوم افراد کے لئے ان کی حکومتوں کے ہاتھ میں قتل وغارت کا کھلا لائسنس دیدیا۔ اب اگر یہ کہاجائے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کی شہ اسی ’مذہبی قیادت‘ نے سرکاری طور پر دے دی تھی تو کیا غلط ہوگا۔ اب کس منہ سے ہندوستان اور فلسطین اور کشمیر کے مظلوموں کا مقدمہ لے کر دنیا میں جائیں گے۔

پھر اکثریت ہی کے بل بوتے پر فرانس، ہالینڈ، امریکہ، سوئٹزرلینڈ اور دیگر ممالک کی ’پارلیمنٹ‘، ’عدلیہ‘، ’مذہبی قیادت‘ اور ’سول سوسائٹی‘ آئے دن مسلم مخالف اقدامات مثلاً نقاب اوربرقع پر پابندی، مینار بنانے پر پابندی وغیرہ جیسے معاملات اُٹھا رہی ہے تو ان کے ہاتھوں میں یہ خنجر کس نے تھمایا تھا جس سے اب تک لہو ٹپک رہا ہے۔

لہذا میری گزارش ہے کہ قوم کو اپنی تحریروں سے گمراہ نہ کیجئے۔ آپ کو یاد ہونا چاہیے کہ میثاق مدینہ اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی رو سے پاکستان اخلاقی، مذہبی، قانونی اور شرعی طور پر پابند ہر فرد کی آزادی کو یقینی بنانے کا پابند ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).