میڈیا کے بعد عدلیہ کا گلا گھونٹنے کی دیدہ دلیری


مسلم لیگ(ن) کے لیڈر رانا ثنا اللہ کے مقدمہ کی سماعت کے دوران وقفہ کے بعد پریزائڈنگ جج نے سماعت سے معذرت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اس مقدمہ میں مزید کارروائی نہیں کرسکتے کیوں کہ ان کی خدمات لاہور ہائی کورٹ کو واپس کردی گئی ہیں۔ انہوں نے یہ حیران کن انکشاف بھی کیا کہ انہیں یہ اطلاع واٹس ایپ پیغام کے ذریعے دی گئی ہے۔

ایک اہم سیاسی لیڈر کے خلاف جج کو تبدیل کرنے کا اچانک فیصلہ اور حیران کن طریقہ کسی چونکا دینے والے انکشاف سے کم نہ تھا۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب رانا ثنا للہ کے وکیل ان کی ضمانت کے لئے دلائل مکمل کرچکے تھے اور توقع کررہے تھے کہ عدالت انہیں منشیات کے ایک ایسے مقدمہ میں رہا کردے گی جس میں استغاثہ کے پاس کوئی خاص ثبوت و شواہد موجود نہیں ہیں۔ رانا ثنا اللہ کو منشیات ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کے مضحکہ خیز الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ گرفتاری کے بعد وفاقی وزیروں نے رانا ثنا اللہ کے ’جرائم ‘ کا انکشاف کرنے کے لئے خوب زور بیان صرف کیا تھا۔ اپوزیشن لیڈر اور پنجاب کے سابق وزیر قانون کو ایک عالمی سطح کا اسمگلر اور دہشت گرد وں کا سرپرست قرار دینے کی کوششیں کی گئی تھیں۔ حیرت ہے کہ اس قدر ’ٹھوس مقدمہ ‘ کے باوجود حکومت کو عین مقدمہ کی سماعت کے دوران جج کو تبدیل کرکے اس تاثر کو مضبوط کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اپوزیشن لیڈروں کے خلاف عدالتوں میں وہی جج تعینات ہوں گے جن کے بارے میں یہ یقین ہو کہ وہ حکومت وقت کو ’مایوس‘ نہیں کریں گے۔

رانا ثنا اللہ کے مقدمہ کی سماعت کرنے والے جج کے سبکدوش ہونے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ وزارت قانون و انصاف نے دو روز قبل ایک نوٹی فیکیشن کے ذریعے رانا ثنا اللہ کے مقدمہ کی سماعت کرنے والے منشیات عدالت کے جج کے علاوہ تین احتساب ججوں کا بھی فوری طور سے تبادلہ کیا ہے۔ حیرت انگیز طور پر یہ جج بھی مریم نواز اور شہباز شریف سمیت شریف خاندان کے خلاف مقدمات کی سماعت کررہے تھے۔ عام طور سے ایسی عدالتوں میں ججوں کی تعیناتی تین سال کے لئے ہوتی ہے ۔ اس مدت میں ججوں کا تبادلہ کرنے کی روایت موجود نہیں ہے تاہم اگر کسی انتظامی ضرورت کے تحت ایسا کرنا ضروری ہو تو اس فیصلہ کی تفصیلی وجوہ بتائی جاتی ہیں۔ تاہم 26 اگست کے حکم نامہ میں جن ججوں کے مقررہ وقت سے پہلے تبادلے کئے گئے ہیں ، انہیں یہ بتانے کی زحمت نہیں کی گئی کہ یہ فیصلہ کرنا کیوں ضروری تھا۔

یہ اقدام اگر سادہ لوحی یا کسی انتظامی مجبوری کے تحت بھی کیا گیا ہے تو بھی اس سے عدلیہ کی آزادی و خود مختاری اور عدالتی امور میں حکومت کی براہ راست مداخلت کا تاثر قائم ہوگا۔ یہ عین ممکن ہے کہ ان ججوں کی ’خود مختاری‘ سے کوئی خاص خطرہ نہ بھی موجود ہو لیکن اسی تاثر کو قوی کرنے کے لئے ججوں کے اچانک تبادلے کرتے ہوئے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔ سیاسی لیڈروں کے مقدمات کی سماعت کرنے والے زیریں عدالتوں کے ججوں کو یہ پیغام دینا مقصود ہو کہ کون لوگ حکومت وقت کی نظر میں گناہ گار ہیں اور ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا جائے۔ ملک میں قانون کی ناک ایک ایسے موم سے بنی ہوتی ہے جسے طاقت ور اور حکمران جب چاہے اپنی مرضی و منشا کے مطابق مروڑ سکتے ہیں۔ اس اقدام کا دوسرا مقصد عدلیہ کو کنٹرول میں رکھنے اور اسے حکومت وقت کی ضرورت اور مرضی کے مطابق فیصلے کرنے کا پیغام دینا ہو سکتا ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت میڈیا کے خلاف متعدد معاملات میں کامیابی سے یہ تجربہ کرچکی ہے۔ پیمرا کے علاوہ مختلف سرکاری اداروں کو استعمال کرتے ہوئے میڈیا مالکان کو حکومتی خواہش و ضرورت کے مطابق ادارتی پالیسی بنانے پر مجبور کیا جاچکا ہے۔ ملک کے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے مالکان حکومت کی مرضی و منشا کے بغیر کوئی خبر یا تبصرہ سامنے لانے سے حتی الامکان گریز کرتے ہیں۔ اور ان صحافیوں اور اینکرز سے ’نجات‘ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو حکومت وقت کی نظر میں ناپسندیدہ ہوں۔ اگر کوئی اینکر یا چینل اس کے باوجود کوئی انٹرویو یا رپورٹ نشر کرنے پر اصرار کرے تو بعض نادیدہ ہاتھ لائیو نشریات کو رکوانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ پھر کسی میں یہ پوچھنے کا حوصلہ نہیں ہوتا کہ ایسا کیوں ہؤا اور کس نے کیا؟

اسی طرح پشتون تحفظ موومنٹ کی خبروں کے علاوہ سیاسی لیڈروں کی سرگرمیوں اور بیانات کو سختی سے سنسر یا بلیک آؤٹ کرنے کی پالیسی مسلط کروا دی گئی ہے۔ لیکن یہ کام اس خوبی سے کیا گیا ہے کہ اسے پابندی کی بجائے ’ادارتی کنٹرول‘ کا خوبصورت نام دے دیا گیا ہے۔ اسی لئے دنیا بھر کی صحافی تنظیموں اور ملکی صحافیوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کے شور مچانے کے باوجود وزیراعظم اور ان کے مشیر نہایت ڈھٹائی سے یہ دعویٰ کرنے میں شرمندگی محسوس نہیں کرتے کہ پاکستان میں میڈیا کو جو آزادی حاصل ہے وہ تو امریکہ اور برطانیہ جیسے آزاد ممالک میں بھی حاصل نہیں ہے۔

لگتا ہے کہ عدلیہ کو کنٹرول کرنے کے لئے بھی حکومت وقت میڈیا پر قابو پانے کے تجربہ سے استفادہ کررہی ہے۔ جس طرح میڈیا مالکان اپنی مالی مجبوری یا ’قومی مفاد ‘ کی ضرورتوں کے تحت آزادانہ رائے یا خبروں کی بلا روک ٹوک ترسیل کو ’سیلف سنسر شپ‘ کہنے پر مجبور کردیے گئے ہیں اسی طرح اب زیریں عدالتوں کے ججوں کو تبادلوں کے دباؤ اور اعلیٰ عدالتوں کو قومی مفاد میں نظریہ ضرورت کے تقاضوں کے تحت وہی فیصلے کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے جو حکومت کے سیاسی مفادات کے لئے سود مند ہوں۔ وزیر اعظم اور ان کے ساتھی کسی حجاب کے بغیر سیاسی مخالفین کو چور اچکے قرار دے کر انہیں ہر قیمت پر جیلوں میں بند کرنے کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔ اور نیب نہایت تابعداری سے اس خواہش کی تکمیل میں مصروف ہے۔ نیب نے جس تیزی سے موجودہ حکومت کے مخالفین کو حراست میں لیا ہے اور ان کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات قائم کئے گئے ہیں، اس کی روشنی میں اب کسی کو شبہ نہیں رہا کہ یہ ادارہ خود مختار اکائی کہلانے کے باوجود سیاسی مقاصد کی تکمیل کا مؤثر ذریعہ بنا ہؤا ہے۔

 کوئی ذی شعور ملک میں احتساب کا مخالف نہیں ہو سکتا۔ نہ ہی کوئی محب وطن اس بات سے انکار کرے گا کہ سابقہ حکمرانوں سمیت ہر شخص کو اپنی کرپشن کا جواب دینا ہوگا اور ان کے خلاف ثبوت موجود ہوں تو انہیں اپنے کئے کی سزا بھگتنا ہوگی۔ لیکن اس بنیادی اصول کو تسلیم کرنے کے بعد جب یہ امید کی جاتی ہے کہ عدالتوں کی خود مختاری اور نیب کی شفافیت کو یقینی بنایا جائے تو پروپیگنڈا کا ایک سیلاب ایسی آوازوں کو بہا لے جانے کے لئے امڈا چلا آتا ہے۔ انصاف کو یقینی بنانے کے لئے اسے سیاست کی دست و برد سے محفوظ رکھنا ضروری ہوتا ہے لیکن یہاں حکومت خود ہی آزاد ججوں اور خود مختار عدلیہ کے خلاف مدعی بن کر سامنے آرہی ہے۔ اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ نیب کا الزام لگے یا عدالت سے کوئی عبوری فیصلہ آئے یا کوئی دوسرا واقعہ رونما ہو ایک کے بعد دوسرا وزیر دلائل کا انبار اٹھائے چلا آتا ہے۔

نواز شریف کو العزیزیہ کیس میں سزا دینے والے جج ارشد ملک کا معاملہ اس حوالے سے مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس جج کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد ، اسے جج کی معصومیت اور مریم نواز کی سیاسی چالاکی ثابت کرنے کے لئے عمران خان کی کابینہ کے ارکان پوری تندہی سے مصروف عمل ہوئے تھے گویا اس اہم قومی عہدے پر ان کی تقرری کا مقصد ہی ویڈیو زدہ ججوں کو بچانا ہو۔ بدقسمتی سے سپریم کورٹ نے اس معاملہ میں دائر کی جانے والی درخواستوں کا فیصلہ کرتے ہوئے جج کو گناہگار اور منصفوں کے لئے باعث شرم قرار دیا۔ لیکن اس کے باوجود اس جج کے دیے گئے متنازعہ فیصلہ کو مسترد کرنے کا حکم دینے سے گریز کیا۔ یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو ریفر کیا گیا ہے جہاں نواز شریف کی اپیلیں نامعلوم وجوہ کی بنیاد پر ہنوز تعطل کا شکار ہیں۔

اسی طرح اب پنجاب میں ججوں کے تبادلوں پر اگر لاہور ہائی کورٹ مداخلت نہیں کرتی اور وزارت قانون و انصاف سے یہ استفسار نہیں کیا جاتا کہ کس بنیاد پر اس کے زیر اختیار کام کرنے والے ججوں کو تبدیل کیا گیا ہے تو یہ طے ہوجائے گا کہ اعلیٰ عدالتیں اپنا دامن بچانے کی کوشش میں انصاف کا دامن تار تار کروانے کا سبب بن رہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali