میری چکن میری مرضی


خدا گواہ ہے کہ ہم ہفتے کے پانچ دن صبح نو سے شام چھ بجے تک یا لگ بھگ آٹھ گھنٹے جان توڑ محنت کرتے ہیں تاکہ لنچ کے ایک گھنٹے میں مرضی کی چکن کھا سکیں مگر زمانہ کہ ہم سے ازل سے بیر رکھتا ہے اور تا ابد رکھے گا، اس کی بھی اجازت نہیں دیتا۔

جان توڑ محنت کی تعریف پر یہاں لوگوں کو اعتراض ہو سکتا ہے لیکن پھر سوفسطائیوں کے اس وار سے کون بچا ہے۔ ہم خود یوں بھی تعریفوں کو عموماً پسند نہیں کرتے کہ ان کے پیچھے چھپا مقصد پہچاننا اکثر مشکل ہو جاتا ہے۔ پھریہ بھی کہ ہم ازلی کاہل واقع ہوئے ہیں اور جسے ہم جان توڑ محنت قرار دیتے ہیں، اسے اکثر لوگ دن میں آدھے گھنٹے کا کام کہیں گے۔ لیکن جناب، خلق خدا کی زبان کون ہی پکڑ سکتا ہے اور مقام شکر ہے کہ ہمارے مینیجرز ہرگز، ہرگز خلق خدا میں نہیں آتے۔

ہم نے آج تک دفتر تو بہت بدلے ہیں مگر اس معاملے میں دنیا کے اعتماد کا عالم نہیں بدلتا۔ سو اسی وجہ سے ہمارا بھی کام چلتا رہتا ہے اور ہماری نگرانی کرنے والوں کا بھی۔ سچ ہے کہ خدا شکر خورے کو شکر دیتا ہے اور ہم سے نکمے انجینئروں کو نرم دل باس جو جانتے ہیں کہ دن میں کچھ وقت تو گزرے دنوں کی رائیگانی پر تاسف منانے کا ہوتا ہے، کچھ آنے والے دنوں کا خوف کھانے کا۔ کچھ وقت صبح آنکھیں کھلنے میں لگتا ہے اور کچھ نکمے پن کی اداسی سے دل کے بہلنے کا۔

اپنی اینگزائٹی کو بھی وقت دینا پڑتا ہے اور دوستوں بہی خواہوں کے ٹیکسٹوں کو بھی۔ پھر ریاضی کی مساواتیں پڑھنے سمجھنے اور انھیں لگانے کے لیے الگ وقت درکار ہے اور ہم تو یوں بھی جہاں پہنچتے ہیں، روشنیاں بکھیرتے ہیں اور اس کا بل بھی نہیں مانگتے تو اگر کام میں ذرا سست ہیں تو کیا فرق پڑتا ہے۔ آخر نتیجے پر تو پہنچ ہی جاتے ہیں اور یہ بھی عام کہاں ہے۔

مبالغہ آرائی سے ہٹ کر تو اصل میں ہم خاطر کی طرح ویرانے ساتھ لیے پھرتے ہیں لیکن وہ اتنی آسانی سے نظر نہیں آتے لوگوں کو، یوں خدا نے ہماری انجینئری کا بھی پردہ رکھا ہے اور ہمارا بھی۔ ویرانوں سے تو ہر کوئی بھاگتا ہے، کم از کم ہمارے تجربے میں۔ انھیں دیکھنے کی کوشش کے لیے بہت دل گردہ چاہیے اور پھر اس کا فائدہ ہی کیا ہے، لہذا ہم کسی جاننے والے کوریکمنڈ بھی نہیں کرتے۔

کچھ عرصہ پہلے ہم دارالحکومت کے ایک پوش علاقے میں مزدوری کیا کرتے تھے مگر پھر ایک کم پوش علاقے میں جا اٹکے۔ یہاں ہم کانٹ کی ذرا جلدی پیروی کرتے ہوئے دوپہر کی سیر کرنے جاتے ہیں تو شاہراؤں پر اس قدر توجہ ملتی ہے کہ رائٹ کوارٹرز سے اس کا ڈھائی فیصد بھی نہیں ملتا، غزل میں جان مارنے اور زکوتم دہ کہ مسکین و فقیرم کا ترجمہ کرنے کے باوجود۔ ہر ناکام انسان کی طرح ہم اٹینشن سیکر ہیں اور اس میں بھی ناکام رہتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ظاہر ہے کچھ ادب آداب وابستہ ہیں۔

اس سب پھرنے کے بعد جب ہم کھانا کھانے پہنچے ہیں ایک تہذیب یافتہ بیکری تک تو یہاں لوگوں کو ہمارے چکن کھانے پر اعتراض ہو جاتا ہے اور اس پر ہماری ہمت، یعنی برداشت کرنے کی، قطعی جواب دے جاتی ہے۔ یہ تو ہمارا پرانا تجربہ ہے کہ کہیں دوسری تیسری مرتبہ کھانا خریدنے پہنچیں تو بیچنے والوں کو ہماری نیت پر شک ہو جاتا ہے، الا یہ کہ جگہ ایسی ہو جہاں کم از کم تین گنا قیمت پر کھانا ملتا ہو۔ لوگوں کا ہم کچھ کر سکتے ہیں نہ شک کا، لہٰذا اپنی کسٹمرز والی سروس واپس لینا پڑتی ہیں، وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے۔

اس بیکری کے نام سے ہمت سی بندھتی ہے کہ اس کا کچھ اثر یہاں کام کرنے والوں پر بھی ہوا ہو گا لیکن جناب، لوگ ہم سے امپریشن ایبل تھوڑا ہی ہوا کرتے ہیں۔ انھیں اعتراض رہتا ہے، اور شدید، کہ ہم چکن کیوں کھاتے ہیں، ہفتے میں ایک آدھ بار کیوں کھاتے ہیں، دوپہر کے دو بجے کیوں کھاتے ہیں، کھانا کھانے کے لیے بنائی گئی پبلک جگہ پر بیٹھ کر کیوں کھاتے ہیں اور شاید یہ بھی کہ اکیلے کیوں کھاتے ہیں۔ یوں تو انسان کی ساری پسند ناپسند اور قسمت آربیٹریری ہوتی ہے مگر اکیلے پن کی توجیہ ہم اتنی کر سکتے ہیں کہ ایک تو ہم الف اکیلے نہیں ہوتے، روسٹڈ چکن کا چوتھائی ٹکڑا ہوتا ہے ہمارے ساتھ اور پھر اہم بات یہ کہ خاطر کا شعر بھی کوئی چیز ہے، ”ہم جہاں پہنچے ہمارے ساتھ ویرانے گئے۔ “ اب کیا ہم سڑک پر پلے کارڈ لے کر کھڑے ہو جائیں، ”ضرورت ہے ایک چکن کھانے والے کی۔ “ مگر لوگ کہ اتنی گہرائی میں نہیں سوچتے، ہماری کڑی نگرانی کرتے ہیں شروع سے آخر تک اور اس انداز میں کہ اپنا بچپن یاد آ جاتا ہے جب ہمیں مہذب لوگوں کے درمیان بیٹھ کر کھانا کھانا سکھایا گیا تھا۔

ہم کہ اندازے لگانے کے شوقین ہیں، سوچتے ہیں کہ شاید یہ صاحبان دیکھتے ہوں کہ ہم چکن کھاتے کھاتے آس پاس رکھے گملے اٹھا کر کھانا نہ شروع کر دیں۔ اب اس کی ہم کیا گارنٹی دیں، ویجیٹیرین بلکہ ویگن ازم تو کبھی بھی نازل ہو سکتا ہے انسان پر۔ یہاں لوگوں کی تعریف انتہائی فراخ بلکہ ایگیلی ٹیرین ہے اور اس میں کھانے کھلانے، بیکری کے لیے ڈبل روٹیاں ڈھونے والے سب شامل ہیں۔

اپنے سماج کی پسند اور منشا ہم ایک عمر گزارنے کے بعد سمجھ پائے ہیں اور وہ یہ کہ عورتیں اوسط پر اچھی لگتی ہیں، باورچی خانہ اور چولہا وغیرہ تو اس کے ضمنی اور ذیلی مظاہر ہیں۔ آئیڈیل صورت حال میں ان کا قد رنگ ناک نقشہ نہ تو زیادہ دبتا ہوا ہو اور نہ زیادہ اٹھتا ہوا۔ اتنی کم عقل نہ ہوں کہ روٹی میں کونے کھدرے رہنے دیں اور اتنی کیورئیس بھی نہ ہوں کہ صدیوں سے سٹیٹس کو کی بٹھائی گرد پر سوال اٹھانا شروع کر دیں۔

زیادہ کم گو ہو ں تو بیوقوف ہیں اور زیادہ باتیں کریں تو بورنگ ہیں، سو بہتر ہیں اگر ٹیپ ریکارڈر کی طرح سارے بٹن رکھتی ہوں۔ اب اس کے بعد لوگ جینیات کے قوانین اور ریگریشن ٹو دا مین کو نہیں مانتے تو وہی ہوتا ہے جو ہمارے ہاں ہو رہا ہے، یعنی ہر معاملے میں ہر سطح پر اوسط پرستی۔ لیکن بھئی ہم اپنے اونچے پیمانوں کے ساتھ، جو فقط اپنے لیے ہوتے ہیں، کہاں ہی پہنچ پائے ہیں، سڑک چھاپ ہی تو ہیں اور انھی گردآلود سڑکوں کے۔

نان فائلر مزدور خواتین کو ہمارے ہاں کی سڑکوں پر کیسے پھرنا چاہیے کہ توجہ نہ ملے اور وہ اپنے خفیہ جاسوسی مشن نظر میں آئے بغیر سرانجام دے سکیں، اس ضمن میں ہم کچھ مشورے دے سکتے ہیں۔ عام سڑکوں پر نکلنے سے پہلے زلفیں لپیٹنے سے شاید کچھ مدد ملتی ہو مگر یہاں ہمارے اصول آڑے آ جاتے ہیں کہ انسان کا ظاہر و باطن ایک ہونا چاہیے۔ اپنی تمام تر پریشاں خاطری اور منتشر خیالی پر ہم اپنے بال سلجھانے کی زحمت کیوں کریں جبکہ ہمیں زندگی تک بکھری ہوئی ملی ہے۔

اگر ہم اپنے پچاس سو روپے کے جھمکے پہن کر اور زلفیں بکھیر کر سستی خوشیوں میں خوش رہتے ہیں تو اس میں کسی کا کیا جاتا ہے اور اس سے زیادہ کسی سے کچھ مانگتے بھی تو نہیں ہم۔ نہ تو ہمارے پاس کسی کا کریڈٹ کارڈ ہے جس سے مسوجنسٹ اشعار کے بگھار والی مہنگی لان خریدی جا سکتی ہے اور نہ ایسی شکل ہے جو اس لان میں سجتی ہو، تو پھر ہم اور کیا خریدیں۔ دنیا کے نہ تو بلائنڈ سپاٹ کی توجیہ کی جا سکتی ہے اور نہ ایسی بے تکی توجہ کی۔

لوگ باگ جو بلائنڈ سپاٹ ہر سڑک کے کنارے ترتیب سے لگے کچرے کے ڈھیر کے لئے رکھتے ہیں وہ ہمیں کیوں نہیں عنایت ہوتا، ہم بھی کچھ کھڑے زاویے اور کچھ پیچ و خم رکھنے والا کچرے کا ڈھیر ہی تو ہیں۔ مگر دنیا سے اس صرف نظری کی امید رکھنا بیکار ہی ہے کہ اس کا بلائنڈ سپاٹ صرف تب نظر آتا ہے جبکہ کوئی بیچاری کسی صاحب حیثیت صاحب جثہ خاتون کے ہاتھوں پٹ رہی ہوں۔

سڑکوں پر پھرنے اور توجہ کے مابین ایک اہم عنصر وقت کا بھی ہے۔ دوپہر کو پھر بھی زیادہ تر ٹیکسیاں وغیرہ رک کر پوچھتی ہیں کہ ”میڈم کہیں جانا ہے۔ “ مگر بھئی شام کے وقت تو اچھی بھلی گاڑیوں والے بھی ہارن بجانا شروع کر دیتے ہیں۔ شاید انھیں بھی دن کے ڈھلنے پر چڑھنے والا ڈپریشن ستاتا ہے، جس کی وجہ سے ہم بار بار اپنی نوکری تبدیل کیا کرتے ہیں۔ ایک بے نام سے خالی پن کو ہم بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں اور ہمیں ان بیچاروں سے پوری ہمدردی ہے لیکن انھیں کیسے بتائیں کہ انسان کے اندر کا خلا بہت مستقل مزاج ہوتا ہے، زندگی کی سڑک پر چلتے راہگیروں کو پک کرنے سے بہرحال نہیں بھرتا۔ پھر ہم ہمدردی اور نظریاتی قسم کی دینے کو تیار تو ہیں مگر ہمیں یہ اپنے لیے درکار ہرگز نہیں کہ مشینوں کو سیکھنا سکھا کر یعنی مشین لرننگ کے مارے ہمیں اتنے پیسے مل جاتے ہیں کہ لفٹ نہیں درکار رہتی کسی کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).