منیب الرحمٰن کی شاعری میں تنہائی اور دانائی کے راز


اس نظم کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس میں اپنے تجربے کا بیان ہے لیکن خود ترحمی نہیں ہے ’گوشہ گیری سے دوستی کرنے کا عہد ہے بلکہ اس اندھیرے میں بھی اپنے محبوب کی موجودگی سے روشنی کا ذکر ہے چاہے محبوب کی موجودگی حقیقی ہو یا خیالی۔

جب منیب الرحمٰن کی شریک حیات انہیں داغِ مفارقت دے کر راہیِ ملکِ عدم ہوئیں تو منیب الرحمٰن کو ایک نئے انداز سے خاموشی اور تنہائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس خاموشی اور تنہائی کا ایک پہلو ان کی خود کلامی کی عکاس نظم۔ ناشتے کی میز پر۔ میں دکھائی دیتا ہے

ابر آلود فضا ’بھیگا ہوا دن

منہ اندھیرے

بے صدا سنسان کمرہ

کوئی بھی چہرہ نہ آہٹ

صرف اپنی ذات کا احساسِ سنگین

گھر کے اندر پھیلتی کافی کی خوشبو

میں اکیلا ناشتے کی میز پر بیٹھا ہوا ہوں

اور باہر بوندا باندی ہو رہی ہے

اس نظم سے واضح ہے کہ منیب الرحمٰن شاعری کے اس مقام پر ہیں جہاں وہ قاری کے سامنے چند لفطوں میں بیک وقت خارجی اور داخلی دونوں مناظر پیش کر سکتے ہیں۔ باہر کا منظر ایک فوٹو گرافر کے کیمرے سے اور اندر کا منظر ایک حساس شاعر کی آگہی سے۔ انہیں انسانی نفسیات پر کافی دسترس ہے اسی لیے وہ

صرف اپنی ذات کا احساسِ سنگیں

جیسا مصرعہ تخلیق کر سکتے ہیں۔

منیب الرحمٰن زندگی کے اس دور میں ہیں جہاں ان کے بہت سے ہمعصر یا تو اس دنیا سے رخصت ہو گئے یا وہ نرسنگ ہومز میں زندگی گزار رہے ہیں۔ منیب الرحمٰن جب اپنی ایک ایسی دوست سے ملنے ’جو الزائمر کی مریضہ بن چکی تھیں‘ نرسنگ ہوم گئے تو انہیں ایک عجیب و غریب تجربہ ہوا جس کا نقشہ انہوں نے اپنی نظم۔ عیادت۔ میں رقم کیا ہے

ایک سونا بجھا بجھا کمرہ

نیم تاریک مقبرہ جیسے

دس برس ہو گئے کہ اس کا دماغ

سو رہاہے گھنے اندھیرے میں

عقل ماؤف ہوش گم کردہ

کیا خبر کیا چھپا ہے درپردہ

میں اسے دیکھتا ہوں حسرت سے

اپنے بستر پہ سکڑی سکڑائی

پاؤں سمٹائے بے حس و حرکت

عاجز و ناتواں نحیف و نزار

اک ہمیشہ کی نیند میں بیدار

مجھ کو آیا نہ تھا خیال کبھی

اس کا ہو جائے گا یہ حال کبھی

دیکھیے کون ملنے آئے ہیں

میرے بارے میں نرس کہتی ہے

وہ مگر بے نیاز رہتی ہے

جیسے میرا وہاں وجود نہ ہو

اس کو احساسِ ہست و بود نہ ہو

اس کی ہستی عجیب ہستی ہے

جیسے سوئے ہوؤں کی بستی ہے

اس کا جینا عجیب جینا ہے

موت کا یہ بھی اک قرینہ ہے

زندگی اس سے خار کھاتی ہے

موت اسے دور سے چڑاتی ہے

منیب الرحمٰن کی اس نظم سے مجھے اپنا وہ بزرگ مریض یاد آ گیا جو الزائمر کا مریض تھا۔ اس کی بیوی روز اس سے ملنے آتی تھی اور جب وہ اسے گلے لگانے کی کوشش کرتی تھی تو وہ اسے دھکا دے کر دور کر دیتا تھا اور کہتا تھا میں تم سے گلے نہیں مل سکتا کیونکہ تم ایک اجنبی عورت ہو غیر ہو میں شادی شدہ ہوں اور میری بیوی گھر میں میرا انتظار کر رہی ہے۔ وہ اپنی بیماری کی وجہ سے اپنی بیوی کو پہچان نہ پاتا تھا۔

منیب الرحمٰن کی شاعری سہل ممتنع کی اعلیٰ مثال ہے جو SIMPLE بھی ہے PROFOUND بھی۔ جو کیفیت میر تقی میر اپنی غزل کے شعروں میں پیدا کرتے تھے منیب الرحمٰن وہ کیفیت مختصر نظموں میں پیدا کرتے ہیں۔ میں اس کی ایک مثال دے کر آپ سے رخصت چاہوں گا۔

میر کا شعر ہے

کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات

کلی نے یہ سن کر تبسم کیا

میرؔ نے زندگی کی بے ثباتی کو کس احسن طریقے سے اپنے شاعرانہ انداز سے ایک شعر میں بیان کیا ہے۔ اب منیب الرحمٰن کی ایک نظم۔ہوا میں صابن کے بلبلے۔ ملاحظہ ہو

ہوا میں صابن کے بلبلے اڑ رہے ہوں جیسے

نہ ہاتھ آئیں

ذرا سا چھونے سے ٹوٹ جائیں

یہی ہمارے تمہارے دن ہیں

یہی ہماری تمہاری راتیں

بری بھلی ہیں

مجھے ملی ہیں

یہ چند باتیں

جو ایک دن آئے گا کہ صوت و صدا کو ترسیں

کسی اب خوش نوا کو ترسیں

اس آنے والی گھڑی سے پہلے

تم اپنے دل میں مجھے بٹھا لو

یہ پھول گلدان میں سجا لو

میرؔ نے بھی کلی اور پھول کا ذکر کیا اور منیب الرحمٰن نے بھی صابن کے بلبلوں سے نظم کا آغاز کیا اور پھول اور گلدان پر نظم کا اختتام۔ ذرا غور کریں

تم اپنے دل میں مجھے بٹھا لو

یہ پھول گلدان میں سجا لو

کتنی سادگی سے کتنی بڑی بات کہہ دی

یہ ان کی شاعری کے کرافٹ اور آرٹ کے ماسٹر سٹروکس ہیں اور ان کی ماسٹرپیس نظموں میں سے ایک ماسٹر پیس نظم۔ میں نے یہ نظم اس لیے پیش کی ہے تا کہ آپکو منیب الرحمٰن کی شاعری کی عظمت کا احساس ہو۔

منیب الرحمیٰن کی شاعری ان کی زندگی کی خاموشی ’تنہائی اور دانائی کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ ان کی نظمیں عالمی ادب کی کسی بھی محفل میں بڑے فخر سے پیش کی جا سکتی ہیں۔ ،

بدقسمتی سے منیب الرحمیٰن کو اردو ادب میں وہ پزیرائی حاصل نہیں ہوئی جس کے وہ بجا طور پر مستحق ہیں۔ میری نگاہ میں اس کی ایک وجہ ان کی پبلک ریلیشننگ سے درویشانہ بے نیازی ہے۔ یہ میری خوش بختی کہ مجھے ان کے ساتھ چند قیمتی گھڑیاں گزارنے اور اپنی کتاب LITERARY ENCOUNTERS کے لیے ان سے ایک تفصیلی انٹرویولینے کا موقع ملا۔

***     ***

( 25 اگست 2019 کو 95 سالہ منیب الرحمٰن کے اعزاز میں ٹورانٹو میں منعقد ہونے والے سیمینار میں پڑھا گیا۔

ڈاکٹر منیب الرحمٰن 18 جولائی 1924 کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے فارسی اور تاریخ مین ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ فارسی ادب مین ڈاکٹریٹ کی ڈگری لندن یونیورسٹی سے حاصل کی۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبہ فارسی سے منسلک رہے۔ 1970 میں امریکا گئے جہاں آک لینڈ یونیورسٹی کے شعبہ لسانیات میں تدریسی فرائض اداکیے ۔ ایران مین قیام کے دوران جدید فارسی شاعری کے گہرے مطالعے کا موقع ملا۔ بازدید، شہر گمنام اور نقطہ موہوم کے نام سے ڈاکٹر منیب الرحمٰن کے شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔)

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail