پاکستان اور دو قومی نظریہ: اکیس سوالات


\"mohammad-din-jauhar\"

محترم جناب وجاہت مسعود صاحب نے ”ہم سب“ پر شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں دو قومی نظریے کے حوالے سے چودہ سوالات پر مشتمل ایک فہرست جاری کی ہے۔ اس فہرست میں دیے گئے سوالات نہایت اہم اور جواب طلب ہیں۔ گزارش ہے کہ ان سوالات کے برعکس، یہ فہرست جن شرائط کے ساتھ سامنے لائی گئی ہے، وہ بھی توجہ طلب اور اہم تر ہیں۔ برصغیر کی تاریخ کے تناظر میں ہم بھی دو قومی نظریے پر بساط بھر ایک موقف رکھتے ہیں، اور ظاہر ہے کہ ان سوالات کا بھلا برا جواب بھی عرض کر سکتے ہیں۔ لیکن فی الوقت ہمارے نزدیک فہرست سازی ان سوالوں سے زیادہ اہم کام ہے، کیونکہ جو سوالات فہرست میں بار نہ پا سکیں ان کو عموماً طے شدہ خیال کیا جاتا ہے۔ فہرست سازی کے اس موقع پر ہم بھی سوت کی اٹی لے کر حاضر ہوئے ہیں، اور جب جوابات کا سودا طے ہو گا تب اس اٹی کو بھی کھولنے کی کوشش کریں گے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ اس فہرست کے ساتھ ”قیام پاکستان کے بعد“ کی نہایت دلچسپ شرط لگائی گئی ہے۔ ایسی شرائط مکالمے کے کھلے پن پر اثرانداز ہوتی ہیں اور پہلے سے طے شدہ موقف کو سوالات کی شکل میں سامنے لاتی ہیں۔ ہماری رائے میں گفتگو اور مکالمے کو کھلا رکھنے کی ضرورت اہم ہے۔ دوسری گزارش یہ ہے کہ ”اس سوال کو فی الوقت ایک طرف رکھ دینا چاہیے“ کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ اور یہ فیصلہ ان سوالات پر کیوں وارد نہیں کیا گیا جو فہرست میں درج ہیں؟ یعنی یہ عین ممکن تھا کہ اس فہرست میں موجود ایک آدھ ”سوال کو فی الوقت“ یہ شرف حاصل ہو کہ ”اسے ایک طرف رکھ دینا چاہیے“ لیکن وہ شرف سے محروم رہا۔ ایسا ہونا کیا معنی رکھتا ہے؟ نفس مسئلہ اور اس پر اٹھنے والے سوالات کی اہمیت کا فیصلہ یک طرفہ نہیں ہو سکتا۔ نفس مسئلہ اور اس پر اٹھنے والے ضروری سوالات کا متفقہ ہونا فریقین کے مابین مکالمے کی اصل بنیاد ہے۔ بصورت دیگر، اس طرح کی فہرستیں ممتحن کے سوالات بن جاتی ہیں، اور مکالمے میں پیشرفت تو دور کی بات ہے، مکالمے کی فضا ہی قائم نہیں ہو پاتی۔ مکالمے میں فریقین کی حیثیت کا مساوی ہونا ضروری ہے، کیونکہ ایک فریق کو یہ اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ یک طرفہ terms of reference طے کرے۔ تیسری گزارش یہ ہے کہ ”پاکستان کے سیاسی ارتقا اور اجتماعی مکالمے کے تناظر“ میں پیدا ہونے والی ”ضرورت“ کی نوعیت کیا ہے اور کیوں پیدا ہوئی ہے؟ اس بات سے تو ہم متفق ہیں کہ دو قومی نظریے پر سوالات اٹھانا ایک جائز سرگرمی اور ضرورت ہے، ہمارا سوال اس کی نوعیت اور اس کی صراحت سے ہے۔ چوتھی گزارش یہ ہے کہ تناظر اور مکالمے کی ”ضرورت“ سے پیدا ہونے والے سوالات کو اس فہرست میں کس اصول کو معیار بنا کر درج اور کچھ دیگر سوالات کو خارج کیا گیا ہے؟ کیا یہ ”ضرورت“ خالص نظری کارگزاری ہے یا اس کا قومی اور عالمی سیاسی حالات کے ساتھ بھی کوئی تعلق ہے؟ پانچویں گزارش یہ ہے کہ ان سوالات کو ”پاکستان کے سیاسی ارتقا اور اجتماعی مکالمے کے تناظر“ میں رہتے ہوئے اٹھایا گیا ہے، تو ان کی تاریخی اور تہذیبی تفصیلات کو حد درجہ مختصر کیوں رکھا جا رہا ہے؟ چھٹی گزارش یہ ہے کہ وجاہت صاحب اپنی کریم النفسی کی وجہ سے ممتحن کی جگہ کھڑے نہیں ہو سکتے کہ وہ بہت محن پرور ہوتے ہیں، لیکن میں یہ ضرور جاننا چاہوں گا سوال کنندہ (سائل) اور جواب دہندہ (مجیب) کے لیے کیا پوزیشن فرض کی گئی ہے؟ یہاں کٹہرے میں کون ہے اور کیوں ہے اور سوال کنندہ کہاں موجود ہے؟ یہ سوالات وجاہت صاحب کے نہیں ہیں، بلکہ یہ تو عین وہی سوالات ہیں جو اس وقت مغرب اور بھارت کی علمی اور فکری اسٹیبلشمنٹ اٹھا رہی ہے۔ یہ جاننا کیوں غیرضروری ہے کہ کیوں اٹھا رہی ہے؟ پھر ان سوالات کے فکری اور طاقتی تلازمات کو الگ الگ دیکھنے کی بجائے ان میں التباس کیوں پیدا کیا جا رہا ہے؟

سوالوں کے جوابات تو اہل علم لاتے رہیں گے، لیکن فہرست سازی جواب سے زیادہ اہم کام ہے۔ گزارش ہے کہ فہرست سازی کی اہمیت ہمارے نزدیک صرف ابراہیم بن ادھم کی کہانی پڑھ کر واضح نہیں ہوئی تھی، اس میں بہت کچھ دخل نادرا کا بھی ہے۔ آج کل تو فہرست میں ہونے نہ ہونے کا مطلب ہی ہونا نہ ہونا ہے۔ ذیل میں ہم اکیس سوالات کی ایک فہرست پیش کر رہے ہیں، جن کو دو قومی نظریے پر گفتگو میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ فہرست مذکورہ فہرست کے متبادل کے طور پر پیش نہیں کی جا رہی۔ یہ سوالات ہرگز حتمی نہیں ہیں، تحمل اور ادا میں ان کی قطع برید ممکن ہے:

  1. نظریے سے کیا مراد ہے اور سیاسی طاقت سے اس کے تعلق کی نوعیت کیا ہے؟
  2. ”قوم“ سے کیا مراد ہے اور جدید عہد میں اس کی سیاسی تشکیل کس طرح ہوتی ہے؟
  3. نظریے اور قوم کا باہمی تعلق کیا ہے اور کیا یہ وقتی ہوتا ہے یا مستقل؟
  4. نظریے اور مذہب کا باہمی تعلق کیا ہے؟
  5. برصغیر میں سیاسی سیکولرزم اور جغرافیائی نیشنلزم کی باہمی نسبتیں اور ان کی معنویت کیا ہے؟
  6. برصغیر میں سیکولرزم اور دو قومی نظریے کے مابین اصل تنازع کیا ہے؟
  7. جدید عہد میں نسل، رنگ اور زبان قوم اور نیشنلزم کی بنیاد ہیں، اور یہ مکمل طور پر نسل پرستانہ ہیں۔ ان سب کی خالص ترین داخلی شکل فسطائیت ہے اور خارجی شکل استعماریت ہے۔ انیسویں صدی کے تقریباً وسط سے طبقاتی تصورات نے سیاسی نظریہ بن کر ”قومیت“ کے تصور کی تشکیل کی اور یہ غیر نسل پرستانہ ہے۔ سوال یہ ہے مذہب سے جواز یافتہ نظریہ قوم سازی کیوں نہیں کر سکتا اور اسے قوم کی تشکیلی بنیاد قرار دینے پر کیا اعتراضات ہیں اور ان اعتراضات کی validity کیا ہے؟
  8. سیاسی شناخت سے کیا مراد ہے اور اسے کس طرح متعین کیا جاتا ہے اور کون کرتا ہے؟
  9. اگر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ متنازع ہے، تو کیا انسان کی ”حاکمیت اعلیٰ“ ایک متفق علیہ مسئلہ ہے؟
  10. بطور ایک سیاسی تصور ”حاکمیت اعلیٰ“ سے کیا مراد ہے؟ اور اس کی بنیاد میں کار فرما تہذیبی قدر کیا ہے؟
  11. ہمارے ہاں دو قومی نظریے پر ہونے والی گفتگو کا ہم عصر عالمی پس منظر کیا ہے اور اس میں عالمی سیاسی طاقت اور مہا سرمائے کی ترجیحات کو نظرانداز کرنا کیوں ضروری ہے؟
  12. اگر سیکولرزم کی بنیاد پر برصغیر کے باشندوں کو ایک ملک میں رہنا چاہیے تھا، تو اس اصول کا اطلاق یورپ کے باشندوں پر کیوں نہیں ہوتا اور وہ اس وعظ سے کیوں محروم رکھے جا رہے ہیں؟
  13. پاکستان کے سیاسی امور میں اسلام کی ”گنجائش“ اور اہمیت دو قومی نظریے کی وجہ سے ہے۔ اسلام اور سیاسی امور کو الگ الگ رکھنے کے لیے دو قومی نظریے پر عالمی ”داد تحقیق“ بھی شامل ہو گئی ہے۔ مذہب اور سیاسی امور کی علیحدگی کا مسئلہ یورپ نے مذہب کے رد سے حل کر لیا۔ ہمارے لیے یہ حل ماننا کیوں ضروری ہے؟
  14. مغربی استعمار نے بیسویں صدی کے تقریباً نصف اول میں دنیا بھر میں اپنی ترجیحات پر یا محکوم معاشروں کی داخلی حرکیات کی بنیاد پر سیاسی تقسیم کے عمل کو روا رکھا، اور دنیا بھر کو ”لکیروں“ سے بھر دیا۔ ظاہر ہے یہ ”لکیریں“ افریقہ، لاطینی امریکہ اور ایشیا میں میں ”غیرمعمولی امن“ اور ”غیرمعمولی ترقی“ کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں۔ لیکن برصغیر میں پڑنے والی”لکیر“ ایسی ہے جو ”امن“ اور ”ترقی“ کے خلاف پڑی ہے۔ مغربی دنیا اور بھارت میں دو قومی نظریے پر علم اور تحقیق کے جو دریا بہائے جا رہے ہیں کیا ان کا مقصد ”امن“ اور ”ترقی“ کو سینچنا ہے یا کچھ اور؟
  15. اگر کوئی مسلم معاشرہ، مثال کے طور پر بنگلہ دیش، اپنی مذہبی شناخت کو رد کر کے نسلی یا لسانی شناخت پر اصرار کرتا ہے تو کیا اسلام یا ”مذہبی نیشنلزم“ کا جواز ختم ہو جاتا ہے؟ یعنی ہمیں مغربی فکر اور بنگلہ دیش کی فرمانبرداری کا درس بیک وقت کیوں دیا جاتا ہے؟
  16. کیا مذہب کی بنیاد پر قوم کی تشکیل کا نظریہ ارادی ہے یا ”سائنسی“؟ یعنی اگر پارسی، عیسائی، ہندو، سکھ یا بنٹو وغیرہ اپنے قوم ہونے کا فیصلہ مذہب کی بنیاد پر نہیں کرتے تو کیا یہ بات سائنسی اصول کی طرح مسلمانوں پر بھی وارد ہوتی ہے یا نہیں؟
  17. اگر کسی بھی سیاسی نظریے کا براہ راست تعلق قومی شناخت سے ہے، تو ظاہر ہے کہ قومی شناخت براہ راست قومی بقا سے متعلق ہو گئی۔ کیا دو قومی نظریے کا تعلق برصغیر میں مسلمان کی سیاسی بقا سے ہے یا نہیں؟
  18. موجودہ یورپ میں اقلیتوں کا مسئلہ ”حل“ ہو گیا ہے، اور اسرائیل میں سرے سے ”کوئی اقلیت“ موجود ہی نہیں ہے کیونکہ اسرائیل کا بنیادی دعویٰ land without people کا تھا، اور امریکہ میں ”نسلی اقلیت“ کا مسئلہ بھی موجود نہیں، بس ایک لا اینڈ آرڈر کا تھوڑا سا مسئلہ ہے جس میں کالوں کا روزمرہ قتل اقلیتوں کی ”حفاظت“ کے لیے ”قانون کی بالادستی اور پاسداری“ کا اظہار ہے، پھر کشمیر میں چونکہ سات لاکھ بھارتی فوج موجود ہے، تو یہ مسئلہ بھی حل ہی سمجھو، لیکن دنیا میں اگر اقلیتوں کا مسئلہ کہیں ہے تو وہ پاکستان میں ہے اور اس کی وجہ دو قومی نظریہ ہے، لہٰذا اسے ”پاکستان کے سیاسی ارتقا اور اجتماعی مکالمے کے تناظر“ میں زیر بحث لانا ضروری ہے۔ کیا یہ یک چشم، اور tailor-made تناظر مقدس ہے یا اس کو زیربحث لایا جا سکتا ہے؟
  19. پاکستان سمیت دنیا کا تقریباً ہر ملک اپنے آئین میں انسانی حقوق کو تسلیم کرتا ہے، اور اقلیتوں کی بلا امتیاز شہریت کا بھی اقرار کرتا ہے۔ عملی طور پر دنیا کا ہر ملک انسانی حقوق اور اقلیتوں کے حوالے سے افراط و تفریط کا شکار رہتا ہے۔ اگر وہاں معاشرے اور ریاست کی عملی نارسائیوں کا سبب نظریے کو نہیں بتایا جاتا تو یہ ”علمی“ طریقۂ کار دو قومی نظریے اور اسلام کے ساتھ کیوں مخصوص ہے؟
  20. دہشت گردی کا تعلق سیاسی طاقت سے یقینی ہے اور نظریے سے ممکن ہے۔ دو قومی نظریے اور اسلام کو دہشت گردی کے تناظر میں زیربحث لانے اور عالمی سیاسی حرکیات اور لبرل مہاسرمائے کے ایجنڈے کو نظر انداز کر دینے کا ”علمی تناظر“ کب اور کہاں دریافت ہوا؟ اگر یہ دریافت کی چیز نہیں تو ایجاد کی یقیناً ہے، تو اس کا موجد کون ہے؟
  21. چلیے، ہم اس تحقیر پر بھی خاموش رہتے ہیں کہ دو قومی نظریے کے حامیوں کا تاریخی تناظر ”مطالعہ پاکستان“ سے حاصل ہوا ہے اور وہ تاریخی شعور سے بھی عاری ہیں۔ ہماری رائے میں دو قومی نظریے کی بحث میں تاریخی تناظر اور تاریخی شعور بنیادی ترین اہمیت رکھتے ہیں، اور ساری بحث کا نقطۂ آغاز ہیں۔ گزارش ہے کہ متجددین، سیکولر اہل قلم اور لبرل مہا سرمائے کے حامی اہل دانش کا تاریخی تناظر کیا ہے اور اس کی تفصیلات کہاں دستیاب ہیں؟ ہمارے یہ اساطین تاریخی شعور سے تو یقیناً بہرہ ور ہیں، تو وہ تاریخی شعور کیا ہے؟ یہ تاریخی شعور کس فکر میں اور اہم تر یہ کہ کس اجتماعی عمل میں ظاہر ہوا ہے؟ یہ تاریخی شعور برصغیر کی مسلم تاریخ اور تہذیب کے بارے میں کیا اولیٰ موقف رکھتا ہے؟ اگر ہماری تاریخ پر دنیا کا ہر صاحب دانش رائے زنی کا حق رکھتا ہے تو ہمیں یہ حق کیوں حاصل نہیں ہے؟

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments