اماں کا ریڈیو، الجھی ہوئی تاریخ اور رکا ہوا وقت


ریڈیو کی آوازوں سے وابستہ یادوں میں ایک آواز کوئٹہ سے نشر ہونے والے ایک ڈرامے کی تھی۔ میں نے ریڈیو ڈرامے سنِ شعور میں نہیں سنے۔ جتنے سنے، اتنے پر یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ خیال کو تصویر کردینے والے وہ ڈائیلاگ اور ڈائیلاگ ڈیلیوری تو اب سکرین کے پردے پر بھی نہیں ملتی۔ ریڈیو سے آنے والا ایک ایک ڈائیلاگ منظر کو ایسا نقش کرکے گزرتا کہ جیسے ذات پر بیت گیا ہو۔ کہنے والے ٹھِک ہی کہتے ہیں کہ ریڈیو اور تھیٹر کسی دور میں فن کاروں کے لیے درس گاہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ کساد بازاری کا یہ عالم ہے کہ اب علامہ اقبال کے پوتے ولید اقبال ہیں یا پھر ظفر اقبال کے بیٹے آفتاب اقبال ہیں۔ نقارخانے میں طوطی کی کہیں ایک آدھ صدا ہے، مگر وہ بھی کہاں ہے۔

کوئٹہ سے نشر ہونے والا یہ ڈرامہ کیا تھا، کردار کون تھے اور ڈرامہ نویس کون تھا یہ ہمیں یاد ہے نہ اماں کی یاد داشت میں کہیں محفوظ ہے۔ دوباتیں بس مجھے یاد ہیں۔ ایک، اماں اس ڈرامے کے مزاحیہ فقروں پر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوجاتی تھیں۔ قہقہوں والا یہ ماحول کرفیو میں نرمی پیدا کرنے کے لیے مددگار ثابت ہوتا تھا۔ دوسرا، اس ڈرامے نے میری مادری زبان پشتو کے ذخیرہ الفاظ غیر شعوری طور پر میرے حافظے پر ریکارڈ کردیے۔ جہاز، اخبار، پلیٹ، گلاس اور سالن کو کو پشتو میں کیا کہتے ہیں، میں نے اسی ڈرامے سے سیکھا۔

اماں ساٹھ کی دہائی میں کالا ڈھاکہ سے کراچی آئی تھیں۔ ایک لفظ اردو کا نہیں جانتی تھیں۔ میرا شعور بیدار ہوا تو انہیں اردو پڑھتے اور بولتے دیکھا۔ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ انہیں اردو بول چال سکھانے والے اساتذہ میں حضرتِ ریڈیو سرفہرست ہیں۔

آپ کو ایک بات بتاؤں؟ بے نظیر بھٹو ہمارے گھر میں خدا واسطے نفرت کی علامت تھیں۔ ہمارے لیے وہ ملک دشمن، انڈیا نواز، غدار، فاحشہ، اسلام دشمن اور خدا جانے کیا کچھ تھیں۔ انہیں ووٹ ڈالنا اپنے دین ایمان پر سوال پیدا کرنے والی بات تھی۔ ان کے مقابلے میں میاں نواز شریف محب وطن، انڈیا دشمن، غیرت مند اور حرم کے لاشریک پاسبان تھے۔ ان کو ووٹ دینا ایمانی غیرت اور ملی حمیت کا تقاضا تھا۔ مجھے یاد ہے ریڈیو پر خبر نشر ہوئی کہ کل وزیر اعظم اسلامی قوانین کے حوالے اہم خطاب کریں گے۔ گھر کے ماحول میں انتظار کی گھڑیاں گھل گئیں۔ اگلے روز تین بجے خطاب نشر ہوا۔ ہم سب ریڈیو کے گرد ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم بیٹھ گئے۔ وزیر اعظم نے وہاں اپنے خطبے میں کہا، میں ملک میں شریعت کے نفاذ کا وعدہ پورا کرنے جارہا ہوں، اور یہاں گھر کے آنگن میں خوشیوں کی وہ لہر دوڑ گئی کہ اللہ اللہ۔

ہنزہ بالا میں پسو اِن پر پڑاؤ کے لیے اترا تو وقار ملک نے ایک دکان دار سے تعارف کروایا۔ وقار نے کہا، اِ س دکان کے باہر پچھلے چالیس برس سے وقت رکا ہوا ہے۔ میری نظر لکڑی کی اس دکان کے اندر پڑے اماں کے ریڈیو جیسے ریڈیو پر پڑی تو دل مچل گیا۔ جی ہی جی میں کہا، دُکان کے اندر تو پچھلے چوبیس سال سے وقت رکا ہوا ہے۔

دو دن بعد دریائے غذر کے کنارے رندوں کی محفل لگی ہوئی تھی۔ علی احمد جان کے والد بزرگوار آئے، کچھ اٹھایا، بغل میں دبایا اور چل دیے۔ میں نے آواز دی، بزرگوار کھانا کھائیے نا! آواز آئی، میرا خبریں سننے کا وقت ہو گیا ہے۔ دیکھا تو ان کی بغل میں وہی ماں جی والا ریڈیوتھا۔ علی احمد جان یقینا تاریخ کے کچھ دلچسپ حوالے دے رہے ہوں گے، مگر دلِ ہنگامہ جو باہر ریڈیو کی آواز میں اٹکا ہوا تھا۔ دنیا کھانے میں مست تھی اور میں سمے سے پرے کہیں اپنے بچپن میں چھپن چھپائی کھیل رہا تھا۔ میں مانتا ہوں کہ یہ محفل کے آداب کے خلاف ہے مگر مجھ سے رہا نہ گیا، میں میزبانوں کو چھوڑکر باہر چلاگیا۔ بزرگوار بالکل ماں جی کی طرح دھیمی لائٹ میں خبریں سن رہے تھے۔ میں پاس ہی بیٹھ کر خبریں سننے لگا۔ وزیر اعظم کہہ رہے تھے، ریاستِ مدینہ جو علامہ اقبال کا خواب تھا وہی میرا بھی خواب ہے۔

بزرگوار نے مسکرا کر پوچھا، کیسے ہو؟ اُن کے سرہانے سے ریڈیو اٹھا کر میں نے کہا، وقت تو شاید پورے گلگت بلتستان میں ہی چوبیس سال سے رکا ہوا ہے۔ پوچھا کیسے؟ اب انہیں ریڈیو سے وابستہ یادوں کی داستان کیا سنا تھا۔ سو بات قدرے گھما کر میں نے کہا، چوبیس سال پہلے نفاذ شریعت کے نام پر واردات ہوئی تھی۔ وہی واردات آج ریاستِ مدینہ کے عنوان سے ہوئی ہے۔ وقت اور کیسے رکتا ہوگا صاحب!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2