سیاسی تصادم عمران خان کے اقتدار کو لے ڈوبے گا


صدر عاف علوی نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایک ناکام حکومت کو کامیاب ترین ثابت کرنے کے لئے اپنی سی کوشش کر دیکھی اور ناکام رہے۔ اپوزیشن ہی نہیں بلکہ میڈیا اور پاکستان کے حالات پر نظر رکھنے والے مبصر بھی تحریک انصاف کی ایک سالہ کارکردگی، معاشی بحران، خارجہ محاذ پر پے در پے پریشانی کے علاوہ سیاسی عدم استحکام پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔

تاہم صدر مملکت کی تقریر سے یوں لگتا ہے کہ مدینہ ریاست کے اصولوں کے مطابق انصاف عام ہو چکا ہے، مظلوموں کی دادرسی کے لئے پوری انتظامی مشینری اور سیاسی لیڈر ہمہ وقت مصروف ہیں اور میڈیا کو حکومت کی رہنمائی کرنے اور اس کی غلط کاریوں پر تنقید کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ صدر مملکت نے ملکی صورت حال کے بارے میں اپنی طویل تقریر میں جو تاثر قائم کرنے کی کوشش کی ہے، بدقسمتی سے وہ گزشتہ روز فل کورٹ ریفرنس میں ملک کے چیف جسٹس کے ارشادات سے برعکس ہے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نہ صرف سیاسی گھٹن کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا تھا بلکہ یہ بھی کہا تھا کہ اختلاف رائے کی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے بداعتمادی پیدا ہورہی ہے جو معاشرے میں جمہوریت کے لئے نقصان دہ ہوسکتی ہے۔ انہوں نے احتساب کے عمل کو بنیادی قانونی و آئینی اخلاقیات کے لئے خطرہ قرار دیتے ہوئے ملک میں سنسر شپ کا ذکر بھی کیا تھا۔ اب صدر عارف علوی نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں ببانگ دہل یہ اعلان کیا ہے کہ میڈیا نہ صرف آزاد ہے بلکہ اسے ریاست کے چوتھے ستون کی حیثیت حاصل ہے۔ عوام کے لئے فل کورٹ کا اجلاس اور پارلیمنٹ دونوں ہی مقدس اور قابل احترام پلیٹ فارم ہیں۔ اس لئے ہر سننے والے کو یہ پریشانی تو لاحق ہوگی کہ ان دونوں میں سے کسی بات کو سچ مانا جائے۔

جس وقت پاکستانی شہریوں کوصدر عارف علوی کی وفا شعار قسم کی تقریر سنائی جارہی تھی، اسی وقت ماسکو سے وزیر اعظم پاکستان کے ایک روسی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو کے مندرجات بھی خبروں کی زینت بن رہے تھے۔ اس انٹرویو میں انہوں نے اپنے اس دیرینہ مؤقف کو دہرانے کی ضرورت محسوس کی ہے کہ پاکستان نے نائن الیون کے بعد امریکہ کی جنگ میں شریک ہوکر غلطی کی تھی۔ اگر یہ فیصلہ نہ کیا جاتا تو نہ پاکستان کو 70 ہزار جانوں کی قربانی دینا پڑتی، نہ ہی ایک سو ارب ڈالر کا نقصان ہوتا اور نہ ہی امریکہ افغانستان میں اتحادی فوجوں کی ناکامی کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کرتا۔ عمران خان اپوزیشن سے اقتدار کا سفر طے کرتے ہوئے اس قسم کے جذباتی نعرے لگایا کرتے تھے۔ اب وہ اس مقصد میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ انہیں اقتدار سنبھالے ایک برس بیت چکا ہے۔ اس موقع پر امریکہ سے پرانا شکوہ دہرانے کا کوئی سبب تو ہونا چاہیے۔ اس کی وضاحت البتہ اس انٹرویو میں موجود نہیں ہے۔

صدر عارف علوی نے گزشتہ ایک ماہ کے دوران وزیر اعظم کی تقریروں کو اپنے شیریں خطاب میں دہراتے ہوئے اپنی پارٹی کے چئیرمین سے مکمل وفاداری کا ثبوت ضرور دیا ہے لیکن دنیا کو جنگ کے خوف سے دھمکانے کا یہ ہتھکنڈا تو عمران خان اور شاہ محمود قریشی کئی ہفتوں سے استعمال کرتے رہے ہیں اور کسی کو اپنی بات سننے پر آمادہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ دنیا بدستور کشمیر کو دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان ایک ایسا تنازعہ سمجھتی ہے جسے وہ باہمی بات چیت سے ہی حل کرسکتے ہیں۔

 بھارت میں چونکہ ہماری قیادت کے خیال میں ایک فاشسٹ پارٹی حکومت کر رہی ہے، اس لئے اس سے مذاکرات سے کوئی مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ ایک طرف کشمیر میں مکمل لاک ڈاؤن جاری ہے تو دوسری طرف پاکستان کی طرف سے جنگ کے اندیشے اور دنیا پر اس کے اثرات کا انتباہ دینے کا سلسلہ بھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ ایسے میں یہ غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی کہ اس قسم کی بیان بازی سے ایک ذمہ دار جوہری طاقت کے طور پر پاکستان کی شہرت داغدار ہوتی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان اگر افغانستان میں امریکی جنگ کو اس کی اپنی غلطیوں کا ثمر سمجھتے ہیں تو دورہ امریکہ کے دوران وہ خود صدر ٹرمپ کو اس بات کی یقین دہانی کیوں کروا کے آئے تھے کہ وہ بنفس نفیس طالبان قیادت سے ملیں گے اور اسے افغان حکومت سے بات چیت شروع کرنے پر آمادہ کریں گے۔ صدر ٹرمپ کی طرف سے چند روز قبل طالبان سے اچانک مذاکرات معطل کرنے کے اعلان کی بنیادی وجہ دو ہی نکات تھے۔ ایک یہ کہ طالبان مذاکرات کے دوران اور معاہدہ پر دستخط سے پہلے جنگ بندی پر آمادہ نہیں تھے اور دوئم یہ کہ طالبان قیادت کسی بھی قیمت پر صدر اشرف غنی کی حکومت سے بات چیت پر تیار نہیں تھی۔ اب وزیر اعظم کو افغانستان میں امریکہ کی ناکامی اور پاکستان پر اس کے ناجائز الزام کا تذکرہ کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے؟

عمران خان کو علم ہونا چاہیے کہ 2001 میں نائن الیون کے بعد کن حالات میں پاکستانی حکومت نے امریکہ کا ساتھ دینے اور افغانستان میں اس کی فوجی کارروائی کی راہ ہموار کرنے پر رضا مندی ظاہر کی تھی۔ پھر یہ حکومت عمران خان کے کسی سیاسی رقیب کی نہیں تھی بلکہ اسی پاک فوج کے سربراہ حکمران تھے جس کے ساتھ ایک پیج کے مزے لیتے ہوئے عمران خان ابھی تک حکومت چلانے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کا حلیف بننے کا فیصلہ بھی فوج کا تھا اور امریکہ سے حاصل ہونے والے 33 ارب ڈالر بھی فوج کے سربراہ کی براہ راست حکمرانی کے دوران ہی وصول ہوئے تھے۔ 2007 کی عدلیہ بحالی تحریک کی وجہ سے سابق صدر پرویز مشرف کو مجبوری کے عالم میں اقتدار سے سبکدوش ہونا پڑا۔ ورنہ وہ تو تاحیات ملک کا صدر بننے کی خواہش پال بیٹھے تھے۔

پاکستانی وزیر اعظم کو گڑے مردے اکھاڑنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ یہ معاملات ماضی کا حصہ ہیں۔ اب تحریک انصاف کی حکومت کو موجودہ حالات میں اپنی کارکردگی کا جائزہ لینے اور داخلی اور خارجہ محاز پر ابھرنے والے مسائل کا سامنا کرنے کی حقیقت پسندانہ حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی رویہ عمران خان کے اقتدار اور سیاسی مستقبل اور پاکستان کی بہبود کے لئے بہتر اور قابل عمل راستہ ہوسکتا ہے۔ اس وقت ملک میں سیاسی تناؤ ہے، سیاسی رائے کی بنیاد پر لیڈروں اور کارکنوں کو انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، میڈیا کو سیاسی ایجنڈا کی تکمیل میں آلہ کار بنانے کے لئے پابندیوں میں جکڑا گیا ہے اور معاشی معاملات پر حکومت کی گرفت ڈھیلی پڑ چکی ہے۔ حکومت دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کی اہم ترین قیادت کو جیلوں میں پہنچانے کے باوجود خوف کا شکار ہے۔ عمران خان کو اس خوف سے نکلنے کی ضرورت ہے۔

سیاسی پریشانی سے بچنے کے لئے غصے اور دھمکی کی بجائے مصلحت اور حکمت سے کام لینا اہم ہے۔ چند ہفتے پہلے تک نواز شریف اور آصف زرداری کو ’این آر او‘ دینے سے انکار کرنے والی حکومت کے ترجمان اب یہ کہنے پر مجبور ہوچکے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ کوئی ڈیل نہیں ہوگی۔ عمران خان سے زیادہ کون اس بات کو جانتا ہوگا کہ ڈیل نہ کرنے کی باتیں اسی وقت کی جاتی ہیں جب کوئی ڈیل مسلط ہونے کا اندیشہ ہو یا سیاسی جنگ میں دفاعی پوزیشن کمزور پڑ رہی ہو۔ عمران خان اپنی سیاسی کوتاہ نظری کے سبب اگر یہ سمجھتے ہیں کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے عہدے کی مدت میں توسیع کے ذریعے انہوں نے اپنی سیاسی لائف لائن میں اضافہ کیا ہے تو یہ ایک ایسا سراب ہے جس سے وہ جتنی جلد باہر نکل آئیں اتنا ہی اچھا ہوگا۔

حکومت کے سیاسی استحکام کے لئے ملک میں اطمینان بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ سماجی بے یقینی اور سیاسی بے چینی کو کم کرکے معاشی بحالی کا منصوبہ شروع کرنا ضروری ہے۔ پنجاب میں نواز شریف کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی سیاسی طاقت کو توڑنے کی ہر کوشش ناکام ہو چکی ہے۔ اگر اب کسی آئینی ہتھکنڈے کے ذریعے کراچی کا انتظام سنبھالنے کی کوئی احمقانہ کوشش کی جاتی ہے تو یہ اقدام بھی مودی حکومت کے مقبوضہ کشمیر میں کی گئی قانونی و آئینی چال بازی سے مختلف نہیں ہو گا۔ اس سے تصادم اور بے چینی میں اضافہ ہوگا۔ ملک کے چیف جسٹس بھی احتساب کی صحت، آزادی اظہار کی صورت حال اور سیاسی اختلاف پر عدم برداشت کے مزاج کو ناقابل قبول قرار دے چکے ہیں۔

وزیر اعظم کو ان اشاروں کو سمجھنے اور ان کے مطابق اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ مان لینا مشکل ضرور ہے لیکن اسے جان لینے میں ہی بھلائی ہے کہ تحریک انصاف کی مقبولیت اور عمران خان کی شخصیت کا جادو ماند پڑ رہا ہے۔ اس صورت حال میں فوج کی سرپرستی کا سایہ سر سے ہٹ بھی سکتا ہے۔ سیاسی بقا اور ملکی مفاد کے لئے عمران خان کو سیاسی قوتوں کے ساتھ جنگ بندی کرنے اور ملکی میں بے چینی وبے یقینی کے ابھرتے ہوئے طوفان کو تھامنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali