ڈونلڈ ٹرمپ: امریکہ کا عمران خان


امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے خلاف نشانہ باندھنے کے ایک ہی روز بعد بڑی ڈھٹائی اور صفائی سے اعلان کیا ہے کہ ہمیں سعودی عرب کی جنگ لڑنے کا کوئی شوق نہیں ہے اور نہ ہی جنگ میں الجھنا میرا مطمح نظر ہے۔ لیجئے قصہ تمام ہؤا۔ سعودی عرب کی آرامکو تیل تنصیبات پر حوثی ڈرون حملوں کے بعد اس کا الزام ایران پر عائد کرنے کے بعد ٹرمپ کے تند وتیز ٹوئٹ پیغامات سے دنیا پر ایک نئی المناک جنگ کی جو دہشت طاری ہوئی تھی، اسے ایک نئے بیان نے پلک جھپکتے ختم کردیا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم عمران خان کے بقول یہی کسی بڑے لیڈر کی اصل خوبی ہے کہ وہ ہٹ دھرم اور ضدی ہونے کی بجائے اپنا مؤقف تبدیل کرنے میں دیر نہ لگائے۔ امریکہ کے صدر ٹرمپ اس معیار پر پورے اترتے ہیں۔ یو ٹرن لینے کے معاملہ میں انہیں امریکہ کا عمران خان بھی کہا جا سکتا ہے۔

یہ بات بھی زیادہ پرانی نہیں ہوئی کہ وہائٹ ہاؤس میں عمران خان کو ساتھ بٹھا کر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستانی وزیر اعظم کی توصیف میں زمین آسمان ایک کرنے کے بعد یہ قیامت خیز انکشاف کیا تھا کہ بھارت کے نریندر مودی نے ان سے کشمیر کے مسئلہ میں ثالثی کرنے کی درخواست کی ہے۔ اور وہ اس کے لئے تیار ہیں۔ اس وقت تو یوں محسوس ہورہا تھا کہ صدر ٹرمپ بس پاکستانی وزیر اعظم کی آمد کا انتظار کررہے تھے کہ وہ واشنگٹن آئیں اور وہ عمران خان کی اجازت لے کر ثالثی کے کام کو آگے بڑھائیں ۔ کیوں کہ بیچ بچاؤ کروانےکے لئے دونوں فریقوں کا متفق ہونا ضروری ہوتا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم تو درخواست کرہی چکے تھے، ٹرمپ پاکستانی قیادت اور، میڈیا کو یہ تاثر دینے میں کامیاب ہورہے تھے کہ اب عمران خان کا اشارہ ملتے ہی وہ ثالثی کا نیک کام شروع کردیں گے۔ کیوں کہ “کشمیر میں بہت مسئلہ ہے اور وہاں لوگوں کو بہت پریشانی ہے”۔

یہ بھی اب تاریخ کا حصہ ہے کہ ثالثی کے دعوے اور خواہش کو چند بار دہرانے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے پیرس میں جی ۔7 سربراہی اجلاس کے موقع پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی اور کہا کہ “کشمیر میں حالات بھارتی حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔ اور پاکستان اور بھارت آپس میں بات چیت کے ذریعے معاملات درست کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ البتہ اگر میری ضرورت ہو تو میں ہمہ وقت حاضر ہوں ، آخر مودی اور عمران خان دونوں ہی عظیم لوگ ہیں اور میرے بہت ہی عزیز دوست بھی”۔

جس وقت ڈونلڈ ٹرمپ مودی کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر دوستی اور بے تکلفی کا اظہار کرتے ہوئے میڈیا کو کشمیر میں سب کچھ کنٹرول میں ہے کا پیغام دے رہے تھے ، اس وقت کشمیریوں کو گھروں میں بند ہوئے تین ہفتے بیت چکے تھے۔ اب مقبوضہ وادی کے باشندوں پر پابندیوں کا ساتواں ہفتہ شروع ہوچکا ہے لیکن امریکہ یا ٹرمپ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ ان کے عزیز دوست عمران خان روزانہ کی بنیاد پر کشمیریوں کی مظلومیت اور نریندر مودی کے فاشسٹ اور ہندو انتہاپسندانہ ایجنڈے کا پردہ چاک کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ٹرمپ تک پاکستانی وزیر اعظم کی چیخ و پکار نہیں پہنچ پاتی۔ اب وہ سعودی عرب کو دوستی کا ہاتھ دکھا کر نگاہیں پھیرنے کا تجربہ کررہے ہیں۔

ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ سے نکلنے کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ کسی نہ کسی طرح ایران کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے دھمکی، بیک ڈور ڈپلومیسی، طاقت کے اظہار اور اقتصادی و سفارتی مفادات کا لالچ دینے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ لیکن ایران کی قیادت اس وقت تک امریکہ سے کسی قسم کے مذاکرات پر آمادہ نہیں ہے جب تک جوہری معاہدہ سے نکلنے کے بعد ایران پر عائد پابندیوں میں نرمی نہ کی جائے۔ ایران امریکہ کی تازہ اور سخت پابندیوں کی وجہ سے سنگین مالی بحران کا شکار ہے۔ وہ اپنا تیل کسی بھی ملک کو فروخت کرنے میں کامیاب نہیں ہے اور بار بار متنبہ کرنے کے باوجود جوہری معاہدہ کے شریک دیگر مغربی ممالک اس کی مدد کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔

دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ووٹروں کو یہ دکھانا چاہتا ہے کہ جوہری معاہدہ ختم کرنے کے بعد، اس نے ایران کو بہتر معاہدہ کرنے اور امریکی مطالبے ماننے پر مجبور کردیا ہے۔ اب ٹرمپ کی خواہش ہے کہ ایران کے صدر حسن روحانی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے موقع پر کسی نہ کسی طرح ان سے ملاقات پر آمادہ ہو جائیں تاکہ وہ اپنی ڈرامائی سفارتی کوششوں کی کامیابی کا ڈھول پیٹ سکیں۔

طالبان کے ساتھ معاملات ہوں یا مشرق وسطیٰ کی سیاست، صدر ٹرمپ نے ایک خاص طریقہ سے اس میں پیش رفت کرنے کی روایت قائم کی ہے۔ پہلے سعودی عرب کے ساتھ مل کر ایران دشمن فرنٹ قائم کیا گیا اور اب ایران کو رجھانے کے لئے یہ اعلان سامنے آیا ہے کہ امریکہ کیوں سعودی عرب کے لئے جنگ میں کود پڑے گا۔ جس کو لڑنا ہے اپنی لڑائی خود لڑتا پھرے۔

طالبان کے ساتھ بھی کچھ اسی قسم کا معاملہ کیا گیا ہے۔ پاکستان کے ذریعے طالبان کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں کہ وہ کسی طرح افغان حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات شروع کردے تاکہ امریکہ کے ساتھ معاہدہ میں افغان حکومت بھی فریق بن جائے اور امریکہ کو اس بہانے سے افغانستان کی طویل جنگ سمیٹنے کا موقع مل جائے۔ اسی مقصد کے لئے نائن الیون سانحہ کی برسی سے عین پہلے طالبان کے وفد کو کیمپ ڈیوڈ آنے کی دعوت بھی دی گئی تھی۔ تاہم جب طالبان نے اس موقع پر صدر ٹرمپ کے ہمراہ صدر اشرف غنی سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا تو اس معاہدہ کو بھی مردہ قرار دیا گیا جس کا اعلان سال بھر کے طویل مذاکرات کے بعد زلمے خلیل زاد نے چند روز پہلے ہی کیا تھا۔

عمران خان کو کشمیر کا مسئلہ حل کروانے کا آسرا دے کر اب صدر ٹرمپ نریندر مودی کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں اور اس ماہ کے آخر میں ہوسٹن میں مودی کے ساتھ مل کر انڈین امریکنز کے ایک اجتماع میں شامل ہونے کا اعلان کرچکے ہیں۔ دوسری طرف عمران خان ٹرمپ کی توجہ حاصل کرنے کے لئے ہر انٹرویو میں برصغیر میں ایٹمی جنگ کے خطرے کا انتباہ دے رہے ہیں لیکن صدر ٹرمپ اور امریکہ کے خیال میں راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔

عمران خان نے بھی اقتدار سنبھالنے کے بعد کابینہ تبدیلیوں سے لے کر ہمراہیوں کے انتخاب اور پالیسی معاملات میں نت نیا مؤقف اختیار کرنے کے ریکارڈ قائم کئے ہیں۔ لیکن وہ کسی بات پر زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکے کیوں کہ بدلتے ہوئے معروضی حالات انہیں ایک ’بڑے لیڈر‘ کی طرح اپنا طریقہ کار بدلنے اور نیا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ یوں بھی اقتدار میں سال بھر رہنے کے بعد بھی انہیں یہ اندازہ کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے کہ ایک ناکام ہوتی معیشت، زیربار جمہوریت اور ناکام سیاسی حکمت عملی کو درست کرنے کا کیا مناسب طریقہ ہوسکتا ہے۔ اس کوشش میں وہ ایک کے بعد دوسرا ’ولن ‘ تلاش کرکے نشانے بازی کا آغاز کردیتے ہیں۔ پہلے ان کے نشانے پر کرپشن کے بہانے نواز شریف اور آصف زرداری تھے اور اب کشمیر کے نام پر نریندر مودی اور بھارتی حکومت کو یہ درجہ حاصل ہو چکا ہے۔

عمران خان نے زندگی میں وزیر اعظم بننے کا مقصد حاصل کر لیا ہے جو گزشتہ سال کے شروع تک ناممکن مشن دکھائی دیتا تھا۔ تاہم اس منزل تک پہنچنے کے لئے انہیں اپنے اصولوں کی صورت میں جو قیمت ادا کرنا پڑی ہے، اسے دیکھتے ہوئے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہونا چاہئے کہ عمران خان کا منشور سیاسی و سماجی اصلاح کے کسی اصول یا ایجنڈے پر استوار نہیں تھا بلکہ اس کا ایک ہی نکتہ تھا کہ کسی بھی قیمت پر اقتدار حاصل کیا جائے۔ اب اس قتدار کو بچانے کے لئے وہ ہر مقبول ہتھکنڈا اختیار کررہے ہیں جبکہ دوسری طرف ملک کے نظام اور مفادات کے لئے پریشان حلقے کسی ڈیل یا درمیانی راستے کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔

عمران خان کے امریکی متبادل ڈونلڈ ٹرمپ کا بھی کچھ یہی عالم ہے۔ وہ امریکہ فرسٹ کا نعرہ لگاتے ہوئے ٹوئٹ کے ذریعے حکمرانی اور دنیا کو حیران کرنے کے مشن پر گامزن ہیں جبکہ امریکہ کے وسیع تر مفادات کے بارے پریشان حلقے اس ٹوئٹ حکمت عملی سے امریکی مفادات کو پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ کرنے کی فکر میں حیران رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali