دیکھنا ہو باغ عالم میں اگر رنگ فنا، آئیے پھر باغ میاں خان دیکھیے


نواب سعداللہ خان کا باپ بادشاہ شاہجہاں کا وزیر تھا۔ اس کی عالی شان حویلی ”حویلی میاں خاں“ کے نام سے اپنی لٹی ہوئی عظمت رفتہ کے ساتھ اب بھی لاہور میں رنگ محل کے پاس موجود ہے۔ وسیع و عریض حویلی کے اندر سینکڑوں خاندان چھوٹے چھوٹے دڑبے نما مکانوں میں رہ رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک مکان میں نواب سعداللہ خان کی اولاد میں سے ایک کوثر شمسی کا دو ماہ پہلے انتقال ہوا۔ کوثر شمسی کے متعلق جاننے سے پہلے کچھ ذکر میاں خان کی حویلی اور باغ کا ہو جائے۔

انگریز حکومت نے تباہ ہوتی تاریخی حویلی کی ایک مختصر تاریخ لکھ کر دروازے کی بیرونی دیوار پر تختی کی صورت لگا دی۔ نواب میاں خاں پنجاب کا نائب گورنر تھا۔ 1923 ءمیں ایک محقق نے حویلی اور اس سے متصل باغ کے بارے میں لکھا کہ باغ میاں خان پر، جس کی عمارات اور جس کے عالیشان مقبرہ کی تعمیر خدا جانے کتنے عرصہ میں اور کتنی لاگت میں ہوئی ہو گی، سناٹا چھایا تھا۔ آموں کے درخت جو غالباً مابعد زمانہ کے تھے، موجود تھے۔

حویلی اور باغ پر مغل عہد میں شباب رہا۔ سکھ دور میں مکانات اور ڈیوڑھیاں برباد ہو گئیں۔ قیمتی پتھر اکھاڑ لئے گئے۔ 1890 ءمیں باغ سوچیت سنگھ کے قبضہ میں آیا۔ اس نے پرانی عمارتیں منہدم کرا دیں۔ رنجیت سنگھ کا زمانہ آیا تو اس نے میاں خان کا باغ شیخ امام الدین صوبہ کشمیر کو دیدیا۔ امام الدین صرف نام کا مسلمان تھا۔ اس نے میاں خان کے مقبرے میں نصب خوبصورت پتھروں کی سلیں اتروا کر سوتر منڈی میں اپنی حویلی میں لگوا دیں۔ سکھ حکومت کے خاتمہ کے بعد انگریزوں نے مسلمانوں کے مقبرے اور باغات نیلام کرنے شروع کیے۔ باغ میاں خان بھی منہدم ہو گیا۔ 1854 ءکے قریب نواب رضا علی خان قزلباش نے 2200 روپے میں یہ باغ خرید لیا۔ یہ وہی نواب رضا علی قزلباش ہیں جن کی نثار حویلی سے عاشورہ کا قدیم جلوس برآمد ہوتا ہے۔

کھچڑی بالوں اور درمیانی داڑھی والے کوثر شمسی پندرہ سال قبل روزنامہ دن میں ملازم ہوئے تھے۔ وہ فوٹو گرافر تھے۔ میرا کمرہ ہر نوع کی بحث اور خیالات سے آراستہ لوگوں کی آماجگاہ ہوتا تھا۔ اس کمرے کی شہرت ہم ذوق لوگوں کوخود ہی اس کا راستہ دکھا دیتی۔ کوثر شمسی صحافتی ذمہ داریوں کی بجائے اکثر علمی و دینی معاملات پر گفتگو کے آرزو مند ہوتے۔ سیدھی بات ہے میں انہیں نظر انداز کرتا رہا۔ ان کی آمدو رفت میں فرق نہ پڑا۔

ملتے ہی اسلام علیکم کے بعد درود شریف ان کی عادت کا درجہ اختیار کر چکا تھا۔ پھر ایک دن وہ پلاسٹک کے شاپر بیگ میں دو قدیم اخبارات لائے۔ یہ سن 1900 ءکے لگ بھگ لاہور سے شائع ہونے والا ”اخبار لاہور“ تھا۔ میگزین سے کچھ چھوٹے سائز کے اس اخبار کے مدیر و مالک میر نادر خان تھے۔ کوثر شمسی نے بتایا کہ نادر خان ان کے پڑنانا تھے۔ نادر خان رنگ محل لاہور میں واقع مشہور حویلی میاں خان کے ایک حصے کے جو قزلباش خاندان سے انہوں نے حاصل کیا تھا کے مالک تھے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ جب گل بیگم کو اپنے ساتھ لایا تو رنگ محل اور حویلی میاں خان کے درمیان حویلی گل بیگم کے نام سے الگ محل تعمیر کرایا۔ اس زمانے میں یہ امراءکا علاقہ تھا۔

کوثر شمسی کو شدت سے احساس تھا کہ وہ اور ان سے پہلی تین نسلیں اپنے بزرگوں کا نام آگے نہیں بڑھا سکیں۔ وہ چاہتے تھے کہ میں جب کبھی لاہور شہر کے کسی گوشے پر تحقیق کروں تو ان کے بزرگ میاں خان اور نادر خان کے بارے میں لوگوں کو ضرور بتاؤں۔ کوثر شمسی جانے امریکہ روانہ ہونے سے پہلے کیا کرتے تھے مگر زندگی کے کئی برس امریکہ میں گزار کر وہ وطن واپس آئے تو ان کی سادہ اور ملنسار طبیعت کاروباری رویے کی ملمع کاری نہ کر پائی۔

پتہ نہیں کیا کیا کام کیے۔ جیب خالی اور تعلقات پرواز کر گئے تو انہوں نے فوٹو گرافی کے شوق کو ذریعہ روزگار بنانے کا فیصلہ کیا۔ ایک موٹر سائیکل اور امریکہ سے لایا بہترین کیمرہ اس کام کے لئے کافی تھے۔ مجھے معلوم ہے کہ کوثر شمسی نے دوچار لوگوں کو ہی اپنے خاندانی پس منظر کے متعلق بتایا ہو گا۔ انہیں کئی بار یہ شکایت ہوئی کہ تہذیب اور تمیز دنیا سے اٹھتی جا رہی ہے۔ لوگ عزت سے بات نہیں کرتے۔ میں ہلکے پھلکے انداز میں حوصلہ دیتا کہ انہیں معلوم نہیں کہ وہ لاہور کے کس رئیس خاندان کے چشم و چراغ سے بات کر رہے ہیں۔

کوثر شمسی یوں تو ستر برس کے لگ بھگ کے ہو کر دو ماہ پہلے فوت ہوئے لیکن وہ ایک دم بوڑھے اس وقت ہوئے جب ان کو بے روزگار کیا گیا۔ مروت، خودداری اور محبت سے گندھے کوثر شمسی کبھی کبھار پریس کلب میں ملتے۔ فوراً گلے لگاتے، درود شریف کا ورد کرتے۔ چائے کا پوچھتے۔ میں چائے بہت کم پیتا ہوں، شمسی صاحب کو فوراً ہاں کہہ دیتا، مجھے معلوم ہوتا کہ ان کے پاس بل دینے کو پیسے نہیں اس لئے کسی تیسرے دوست سے ساز باز کر لیتا جو ہمارا بل پہلے ہی دے کر غائب ہو جاتا۔

مجھے نہیں یاد کہ کسی شخص نے کبھی کوثر شمسی کے بارے میں کبھی منفی بات کی ہو۔ ہاں بعض اوقات ان کے زیادہ بولنے کی عادت سے کوئی بیزار ہو سکتا تھا۔ مجھے ان کے اندر ہمیشہ ایک ایسی روح محسوس ہوئی جو پچھلے جنموں کا کفارہ ادا کرنے کو بے چین ہو۔ مجھے ان کا دکھ اپنے نانا کے دکھ جیسا معلوم ہوتا تھا۔ وہ بھی اپنے دادا کی شان و شوکت اور لاڈ پیار میں اعلیٰ تعلیم سے محروم کر دیے جانے پر دکھی رہتے تھے۔ ملک آزاد ہونے کے بعد ان کی زرعی آسودگی پے در پے امورت اور صدمات نے تباہ کر دی تھی۔

کوثر شمسی، میرے بزرگ دوست میں کثافت سے بھری دنیا میں آپ کو اچھے لفظوں میں یاد کر رہا ہوں درود شریف کی قرا¿ت میرے اردگرد گونج رہی ہے۔ کوثر شمسی کے بچے اپنے بزرگوں کی حویلی میں اگنے والے سینکڑوں مکانات میں سے ایک میں اب بھی مقیم ہیں۔ ایسی کتنی ہی حویلیاں، کتنے ہی محل اور کتنے ہی مکانات ہیں جہاں مرنے والوں کی اولاد روحوں کی صورت میں آباد ہے۔ نارسا، ناخوش کوثر شمسی پیسے، طمع اور دھوکہ بازی کی دنیا سے جا چکا ہے۔ اخبار لاہور کے دو نسخوں میں سے ایک میرے پاس جبکہ دوسرا معروف محقق ڈاکٹر گوہر نوشاہی کے پاس ہے۔ کسی شاعر نے اسی نوے سال پہلے کہا تھا:

دیکھنا ہو باغ عالم میں اگر رنگ فنا
آئیے پھر باغ میاں خان دیکھیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).