عمران خان کا سیاسی تکبر، ناراض میڈیا اور پریشان عدلیہ


آئی ایم ایف کی ٹیم نے دورہ پاکستان کے بعد فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اگرچہ بظاہر اس وفد نے حکومت کی معاشی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے لیکن اگلے ماہ آئی ایم ایف کا نیا وفد پاکستان آئے گا جو عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ طے کئے گئے چھے ارب ڈالر کے مالی پیکیج کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لے گا۔

پاکستان میں مالی امور کو دیکھنے والے ماہرین اور عہدیداروں کے لئے آئی ایم ایف کے نگرانوں کو پاکستان کی معاشی صحت کے بارے میں مطمئن کرنا پوری صورت حال کا صرف ایک پہلو ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ کسی بھی ملک کی مالی امداد کرتے ہوئے سخت مالی اقدامات تجویز کرتا ہے۔ جس کا بنیادی نکتہ اخراجات میں کمی اور آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ مطالبہ جتنا خوشگوار اور قابل عمل دکھائی دیتا ہے، پاکستان جیسی مسائل سے گھری معیشت کے لئے اس پر عمل کرنا اتنا ہی دشوار ہوتا ہے۔ خاص طور سے جب ان مالی اقدامات کے نتیجہ میں قومی پیداواری صلاحیت میں مسلسل کمی کی نوید دی جا رہی ہو تو معاشرے میں بیروزگاری اور احتیاج کی صورت حال سنگین ہونے لگتی ہے۔

اسی لئے ایسے ممالک جہاں پر آمرانہ نظام مسلط ہو، عوام کی خواہشات اور ضروریات کو نظر انداز کرتے ہوئے آئی ایم ایف کے تقاضوں کے مطابق معیشت کی ’صحت یابی‘ کے لئے اقدامات کر لئے جاتے ہیں اور عوام کی بے چینی کو جبر اور ریاستی طاقت کے ذریعے دبا دیا جاتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال مصر کی ہے جہاں صدر السیسی نے آئی ایم ایف کے پروگرام پر تو عمل کیا ہے لیکن عوام کا معیار زندگی اور ان کی چھوٹی بڑی سہولتوں کو اس ادارے کے مطالبات پورے کرنے کی بھینٹ چڑھایا گیا ہے۔ پاکستان میں اس قسم کا جبر مسلط کرنا ممکن نہیں ہو سکتا۔

پاکستان میں ایک جمہوری حکومت کام کر رہی ہے۔ اگرچہ اس حکومت نے متعدد ایسے اقدامات کئے ہیں جو بنیادی جمہوری ضرورتوں سے متصادم ہیں۔ مثال کے طور پر عمران خان کی حکومت پارلیمنٹ کو بااختیار بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتی، اداروں کو خود مختار بنانے کے نام پر اپنی سیاسی ضرورتوں اور خواہشات کا اسیر بنا رہی ہے اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کا ہر ہتھکنڈا آزمایا جا رہا ہے۔ اس میں تازہ ترین واقعہ میڈیا کورٹس یا ٹریبونلز کی تجویز ہے۔ اطلاعات کی مشیر فردوس عاشق اعوان کے اس نادر روزگار تصور کے مطابق میڈیا اداروں اور صحافیوں یا میڈیا ہاؤسز کے ساتھ پیدا ہونے والے تنازعات سے نمٹنے کے لئے روایتی اور عالمی طور سے مسلمہ میکینزم کو استعمال کرنے کی بجائے ایسی عدالتیں قائم کردی جائیں گی جو ان معاملات پر مختصر مدت میں فیصلہ دے سکیں۔

میڈیا نمائیندوں ، مالکان اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مشترکہ دباؤ کے بعد فی الوقت تو حکومت نے اس تجویز کو ’سرد خانہ‘ میں ڈالنے کا عندیہ دیا ہے لیکن حکومت کے ان ارادوں میں کسی تبدیلی کے آثار سامنے نہیں آ رہے کہ ملک کے میڈیا کو قومی مفاد کا نگہبان ہونا چاہئے۔ حکمران تحریک انصاف کی نگاہ میں قومی مفاد کا مطلب حکومت کا مقام و مرتبہ ہے۔ یعنی میڈیا بطور ادارہ یہ عہد کرے کہ وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں پر نکتہ چینی نہیں ہو گی اور حکومت کے ہر فیصلہ پر آنکھیں بند کرکے عمل کیا جائے گا۔ کسی بھی خود مختار یا نیم آزاد میڈیا کے لئے اس قسم کی غیر مشروط وفاداری کا عہد کرنا ممکن نہیں ہے۔

حکومت کا یہ مطالبہ یا خواہش بنیادی جمہوری اصول کے خلاف ہے۔ لیکن ملک کو درپیش سنگین مالی مشکلات (جن کی ذمہ داری سابقہ حکومتوں اور ان کی بدعنوانی پر ڈالی جاتی رہی ہے) اور ہمسایہ ملک کے ساتھ تصادم کی صورت حال میں حکومت یہ سمجھتی ہے کہ میڈیا کو حکومت کی رہنمائی میں ہی کام کرنا چاہئے۔ اگرچہ مالکان کے ساتھ ساز باز اور میڈیا میں اپنے ہمدردوں کی فوج ظفر موج کے تعاون سے عمران خان اور تحریک انصاف کسی حد تک میڈیا کو آزاد رائے کے اظہار سے محروم کرنے کا اہتمام کر چکے ہیں۔ لیکن اس منصوبہ کی سو فیصد تکمیل میں دو رکاوٹیں بہرحال سامنے آئی ہیں۔

ایک یہ کہ میڈیا میں عمران خان کے زبردست حامی بھی حکومت کی ایک سالہ کارکردگی پر مایوسی کا شکار ہیں اور اس کے اقدامات کے لئے دلائل لانے میں مشکل کا سامنا کرتے ہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانی الیکٹرانک میڈیا کی عمران خان اور تحریک انصاف کے لئے گرمجوشی کی ایک وجہ وہ درپردہ سرپرستی بھی تھی جس کے سبب عمران خان بھی وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہوئے اور اب تک ’نامزد‘ کی پھبتی کا سامنا کر رہے ہیں۔ میڈیا کے ’قومی مفاد پرست عناصر‘ تبدیل ہوتے حالات میں عمران خان کے چہرے کے بدلتے رنگ دیکھنے کی بجائے، ان اشاروں کا انتظار کرتے ہیں جو اس ملک میں حکومتیں بنانے اور گرانے کا سبب بنتے رہے ہیں۔

عمران خان مزاجاً جمہوری رویہ کے حامل نہیں ہیں۔ وہ اگرچہ دو دہائی تک سیاسی جدوجہد کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن نہ تو ان کے طریقہ حکومت میں سیاسی کارکن کا مزاج نمایاں ہے اور نہ ہی وہ ذاتی طور پر جمہوری روایت کے حامی ہیں۔ اس کا مظاہرہ ان کے طرز تکلم کے علاوہ طرز سیاست سے بھی کیا جا رہا ہے۔ جب تک وہ اپوزیشن کی سیاست کر رہے تھے تو للکارنا اور الزام لگانا اقتدار تک پہنچنے کی جد و جہد کا حصہ سمجھا جا رہا تھا تاہم اقتدار سنبھالنے کے بعد ان سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ اس نظام کی بہتری اور طریقہ کار کو فعال بنانے کے لئے کام کریں گے، جس کے ذریعے وہ بظاہر اقتدار تک پہنچے ہیں۔ تاہم اپوزیشن کے ساتھ معاملات سے لے کر، میڈیا پر کنٹرول کے طریقہ اور مخالفانہ رائے پر سخت ردعمل کے انداز سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عمران خان جمہوری روایت کی ابجد سے نہ تو شناسا تھے اور نہ ہی اسے سیکھنے کے خواہاں ہیں۔

ملکی معاشی معاملات اگر کنٹرول کر لئے جاتے اور داخلی اور خارجی میدان میں نت نئے بحرانوں کا سامنا نہ ہوتا تو شاید عمران خان کی اس کمزوری پر پردہ پڑا رہتا۔ لیکن بدنصیبی سے ایک طرف ملک میں اقتصادی معاملات دگرگوں ہیں تو دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے جارحانہ اقدامات کی وجہ سے صورت حال قابو سے باہر ہے۔ پاکستان کے پاس ان چیلنجز سے نمٹنے کا کوئی آسان راستہ موجود نہیں۔ عمران خان مقبولیت کے گھوڑے پر سوار ہو کر اقتدار تک پہنچے ہیں۔ پاپولر ووٹ کے علاوہ انہیں اس مقام تک پہنچانے کے لئے جن دوسرے عوامل نے کردار ادا کیا تو اس کی وجہ بھی عمران خان کی مقبولیت کے علاوہ یہ تھی کہ دیگر سیاست دان آزمودہ تھے۔ خاص طور سے ملکی اسٹبلشمنٹ گزشتہ دور میں نواز شریف کے طرز سیاست اور بعض پالیسیوں سے اختلاف کی وجہ سے، ان سے نجات حاصل کرنا چاہتی تھی۔ اسی خلا میں مناسب امیدوار کے طور پر عمران خان کی سرپرستی کی گئی۔

اب یہ اشارے سامنے آ رہے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کی سیاسی و اقتصادی ناکامیوں کی وجہ سے ایک پیج والی دلکشی ماند پڑنے لگی ہے۔ اگرچہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے عمران خان کو فوج کی مکمل حمایت حاصل ہے کیونکہ عمران خان اس معاملہ میں فوجی ایجنڈے کے ہی وکیل بنے ہوئے ہیں۔ بھارت کے ساتھ تصادم کے ماحول میں فی الوقت خارجہ معاملات ہی قومی ایجنڈے پر سر فہرست بھی ہیں لیکن اس صورت حال کو تادیر سیاسی ناکامیوں کے عذر کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔

عمران خان بدعنوان سیاست دانوں کو کیفر کردار تک پہنچانے اور کرپشن سے پاک حکومت کے ذریعے عوام کو سہولتیں ڈلیور کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے اقتدار میں آئے تھے۔ یہ دونوں کام مکمل تو کیا شروع بھی نہیں ہوسکے۔ نواز شریف اور آصف زرداری سمیت دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کے متعدد اہم لیڈر اگرچہ کرپشن کے الزام میں زیر حراست ہیں لیکن ان میں سے کسی کے بھی خلاف کرپشن کا کوئی الزام ثابت نہیں کیا جا سکا۔ نواز شریف کو ضرور العزیزیہ ریفرنس میں سزا دی گئی ہے لیکن جج ارشد ملک کے ویڈیو اسکینڈل نے اس فیصلہ کی دھول اڑا دی ہے۔ اب ایک طرف داغدار شہرت کے حامل چئیرمین نیب کی سربراہی میں اپوزیشن لیڈروں کو یکے بعد دیگرے گرفتار کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی احتساب کی شفافیت پر سوال اٹھا چکے ہیں۔ اس صورت حال میں تحریک انصاف کی حکومت کو صرف سیاسی اپوزیشن کی طرف سے ہی اندیشہ لاحق نہیں ہے۔

عمران خان کو آئی ایم ایف کے مطالبے پورے کرنے اور متوقع اقدامات نافذ کرنے کے لئے انتظامی اتھارٹی اور اخلاقی و سیاسی اعانت کی ضرورت ہے۔ ان کی حکومت ان دونوں شعبوں میں کمزوری کا شکار ہو رہی ہے۔ ایسے میں سنگین مالی مشکلات کے خلاف کسی عوامی غم و غصہ اور احتجاج سے نمٹنے کے لئے عجلت میں کئے گئے فیصلے تحریک انصاف کے علاوہ ملک میں جمہوری نظام کے لئے بھی فیصلہ کن ہو سکتے ہیں۔ اسی لئے بیشتر سیاسی مبصرین کی طرف سے میانہ روی اور معتدل سیاسی طرز عمل اختیار کرنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔

عمران خان اگر مشوروں کو اختلاف سمجھنے اور اختلاف کو دبانے کے راستے پر گامزن رہیں گے تو آئی ایم ایف کی ٹیم کو مطمئن کرنے کے باوجود ملک کے عوام کو خاموش رکھنے کا اہتمام نہیں کر پائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2773 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali