وہ بڈھا – راجندر سنگھ بیدی کا شاہکار افسانہ


”دھت! “ میں نے کہا اور اسی کروٹ لیٹے لیٹے من میں گایتری کا پاٹ کرنے لگی لیکن وہی کرنیں چھوٹے چھوٹے، گول گول، گدرائے گدرائے بچوں کی شکل میں بدلنے لگیں۔ ان کے پیچھے ایک گبرو جوان کا چہرہ نظر آ رہا تھا، لیکن دھندلا دھندلا سا۔ وہ شاید ان بچوں کا باپ تھا۔ اس کی شکل اس بڈھے کی شکل سے ملتی تھی۔ نہیں توپھر اس نوجوان کی شکل صاف ہونے لگی۔ وہ ہنس رہا تھا۔ اس کی بتیسی کتنی سفید اور پکی تھی۔ اس نے فوج کی لیفٹیننٹ کی وردی پہن رکھی تھی۔

نہیں پولیس انسپکٹر کی، نہیں۔ سوٹ، ایوننگ سوٹ، جس میں وہ بے حد خوبصورت معلوم ہو رہا تھا۔ اپنی نیند واپس لانے کے لئے میں نے ٹیچر کا بتایا ہوا نسخہ استعمال کرنا شروع کیا۔ میں فرضی بھیڑیں گننے لگی۔ مگر بے کار تھا، سب کچھ بے کار تھا۔ پر ماتما جانے اس بڈھے نے کیا جادو جگایا تھا، یا میری اپنی ہی قسمت پھوٹ گئی تھی۔ اچھی بھلی جا رہی تھی، بیگل کے لئے اون کے گولے خریدنے۔ بیگل! دھت۔ وہ میرا بھائی تھا۔ پھر گولے کے اون کے موٹے موٹے بنے ہوئے دھاگے پتلے ہوتے گئے اور مکڑی کے جال کی طرح میرے دماغ میں الجھ گئے۔

پھر جیسے سب صاف ہو گیا۔ اب سامنے ایک چٹیل میدان تھا، جس میں کوئی ولی اوتار بھیڑیں چرا رہا تھا۔ وہ بش شرٹ پہنے ہوئے تھا، تندرست، مضبوط اور خوبصورت۔ لا ابالی پن میں اس نے شرٹ کے بٹن کھول رکھے تھے اور چھاتی کے بال صاف اور سامنے نظر آ رہے تھے، جن میں سر رکھ کر اپنے دکھڑے رونے میں مزہ آتا ہے۔ وہ بھیڑیں کیوں چرا رہا تھا؟ اب مجھے یاد ہے وہ بھیڑیں گنتی میں تہتر تھیں۔ میں سو گئی۔

مجھے کچھ ہو گیا۔ نہ صرف یہ کہ میں بار بار خود کو آئینے میں دیکھنے لگی بلکہ ڈرنے بھی لگی۔ بچے بری طرح میر ے پیچھے پڑے ہوئے تھے اور میں پکڑے جانے کے خوف میں کانپ رہی تھی۔ گھر میں میرے رشتے کی باتیں چل رہی تھیں۔ روز کوئی نہ کوئی دیکھنے کو چلا آتا تھا، لیکن مجھے ان میں سے کوئی بھی پسند نہ تھا۔ کوئی مرا مرگھلا تھا اور کوئی تندرست تھا بھی تو اس نے کنویکس شیشوں والی عینک لگا رکھی تھی۔ اس صاحب نے کیمسٹری میں ڈاکٹریٹ کی ہے۔

کی ہو گی۔ نہیں چاہیے کیمسٹری۔ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جو میری نظر میں جچ سکے وہ نظر جو اب میری نہ تھی، بلکہ اس بڈھے کی نظر ہو چکی تھی۔ میں نے دیکھا کہ اب سینما تماشے کو بھی جانے کو میرا دل نہیں چاہتا تھا، حالاں کہ شہر میں کئی نئی اور اچھی پکچریں لگی تھیں اور وہی ہیرو لوگ ان میں کام کرتے تھے جو کل تک میرے چہیتے تھے لیکن اب وہ یکایک مجھے سسی دکھائی دینے لگے۔ وہ ویسے ہی پیڑ کے پیچھے سے گھوم کر لڑکی کے پاس آتے تھے اور عجیب طرح کی زنانہ حرکتیں کرتے ہوئے اسے لبھانے کی کوشش کرتے تھے۔ بھلا مرد ایسے کہاں ہوتے ہیں؟ عورت کے پیچھے بھاگتے ہوئے ہشت! وہ تو اسے موقع ہی نہیں دیتے کہ وہ ان کے لئے روئے، تڑپے۔ حد ہے نا، مرد ہی نہیں جانتے کہ مرد کیا ہے؟ ان میں سے ایک بھی تو میری کسوٹی پر پورا نہیں اتر تا تھاجو میری کسوٹی بھی نہ تھی۔

ان ہی دنوں میں نے اپنے آپ کو پریج کے میدان میں پایا جہاں ہند اور پاکستان کے بیچ ہاکی میچ ہو رہا تھا۔ پاکستان کے گیارہ کھلاڑیوں میں سے کم از کم چار پانچ ایسے تھے جو نظروں کو لوٹ لیتے تھے۔ ادھر ہند کی ٹیم میں بھی اتنی ہی تعداد میں خوابوں کے شہزادے موجود تھے چار پانچ، جن میں سے دو سکھ تھے۔ چار پانچ ہی کیوں؟ مجھے ہنسی آئی۔ پاکستان کا سنٹر فارورڈ عبد الباقی کیا کھلاڑی تھا۔ اس کی ہاکی کیا تھی؟ چمبک پتھر تھی، جس کے ساتھ گیند چمٹی ہی رہتی تھی۔

یوں پاس دیتا تھا جیسے کوئی بات ہی نہیں۔ چلتا تو یوں جیسے مینز لینڈ میں جا رہا ہے۔ ہندوستانی سائیڈ کے گول پر پہنچ کر ایسا نشانہ بٹھاتا کہ گولی کی سب محنتیں بے کار اور گیند پوسٹ کے پار! گول! تماشائی شور مچاتے، بمبئی کے مسلمان نعرے لگاتے، بغلیں بجاتے۔ یہی نہیں اتری بھارت کے ہندوستانی بھی ان کے ساتھ شامل ہو جاتے۔ ہندوستانی ٹیم کا شنگار آنند تھا۔ کیا کارنر لیتا تھا۔ جب اس نے گول کیا تو اس سے بھی زیادہ شور ہوا۔ اب دونوں طرف کے کھلاڑی فاؤل کھیلنے لگے۔ وہ آزادانہ ایک دوسرے کے ٹخنے گھٹنے توڑنے لگے لیکن میچ چلتا رہا۔

پاکستانی ٹیم ہندوستانی پر بھاری تھی۔ ان میں سے کسی کے ساتھ لو لگانا میرے لئے ٹھیک بھی نہ تھا۔ لیکن ہر وہ چیز انسان کو بھڑکاتی ہے جسے کرنے سے منع کیا گیا ہو۔ ہندو لڑکی کسی مسلمان سے شادی کر لیتی ہے یا مسلمان لڑکی سکھ کے ساتھ بھاگ جاتی ہے تو کیسا شور مچتا ہے۔ کوئی نہیں پوچھتا اس لڑکی سے کہ اسے کیا تکلیف تھی۔ چاہے وہ لڑکی خود ہی بعد میں کہے کیا ہندو، کیا مسلمان اور کیا سکھ سب ایک ہی سے کمینے ہیں۔

ہندوستانی ٹیم میں ایک کھلاڑی اسٹینڈ بائی تھا جو سب سے زیادہ خوبصورت اور گبرو جوان تھا۔ اسے کھلا کیوں نہیں رہے تھے؟ کھیل کے بعد جب میں آٹو گراف لینے کے لئے کھلاڑیوں کے پا س گئی تو میں نے اپنی کاپی اس اسٹینڈ بائی کے سامنے بھی کر دی۔ وہ بہت حیران ہوا۔ وہ تو کھیلا ہی نہ تھا۔ میں نے اس سے کہا ”تم کھیلو گے۔ ایک دن کھیلو گے۔ کوئی بیمار پڑ جائے گا، مر۔ تم کھیلو گے۔ سب کو مات دو گے، ٹیم کے کیپٹن بنو گے! “

اسٹینڈ بائی کا تو جیسے دل ہی پگھل کر باہر آگیا۔ نم آنکھوں سے اس نے میری طرف دیکھا جیسے میں جو کچھ کہہ رہی ہوں وہ الہام ہے۔ اور شاید وہ الہام تھا بھی، کیوں کہ وہ سب کچھ میں تھوڑا ہی کہہ رہی تھی۔ میرے اندر کی کوئی چیز تھی جو مجھے وہ سب کچھ کہنے کو مجبور کر رہی تھی۔ پھر میں نے اسے چائے کی دعوت دی، جو اس نے قبول کر لی اور میں اسے ساتھ لے کر لارڈ پہنچ گئی۔ جب میں اس کے ساتھ چل رہی تھی تو ایک سنسناہٹ تھی جو میرے پورے بدن میں دوڑ دوڑ جاتی تھی۔

کیسے ڈر خوشی بن جاتا ہے اور خوشی ڈر۔ میں نے چندیری کی جو ساڑھی پہن رکھی تھی، بہت پتلی تھی۔ مجھے شرم آ رہی تھی اور شرم ہی شرم میں ایک مزہ بھی۔ کبھی کبھی مجھے یاد آتا تھا اور پھر بھول بھی جاتی تھی کہ لوگ مجھے دیکھ رہے ہیں۔ اس وقت دنیا میں کوئی نہیں تھا، میرے اور اس اسٹینڈ بائی کے سوا جس کا نام جے کشن تھا لیکن اسے سب پر نٹو کے نام سے پکارتے تھے۔ ہم دونوں لارڈ پہنچ گئے اور ایک سیٹ پر بیٹھ گئے۔ ایک دوسرے کی قربت سے ہم دونوں شرابی ہو گئے تھے۔

ہم ساتھ لگ کے بیٹھے تھے کہ الگ ہٹ گئے اور پھر ساتھ لگ کر بیٹھ گئے۔ بدنوں میں سے ایک بو لپک رہی تھی۔ سوندھی سوندھی، جیسے تنور میں پڑی ہوئی روٹی سے اٹھتی ہے۔ میں چاہتی تھی کہ ہم دونوں کے درمیان کچھ ہو جائے۔ پیار، جیسے پیار کوئی آ لا کارت ڈش ہوتی ہے۔ چائے آئی جسے پیتے ہوئے میں نے دیکھا کہ وہ چور نظروں سے مجھے دیکھ رہا ہے میرے بدن کے اسی حصے کو جہاں اس بڈھے کی نظریں ٹکی تھیں۔ وہ بڈھا تھا؟ ماں نے کہا تھامرد سب ایک سے ہی ہوتے ہیں، کیا جوان کیا بڈھے؟

ہو سکتا تھا ہماری بات آگے بڑھ جاتی، لیکن پرنٹو نے سارا قلعہ ڈھیر کر دیا۔ پہلے اس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور اسے دبا دیا۔ اس حرکت کو میں نے پیار کی اٹھکیلی سمجھا لیکن اس کے بعد وہ سب کی نظریں بچا کر بچا کر اپنا ہاتھ میرے شریر کے اس حصے پر دوڑانے لگا، جہاں عورت مرد سے جدا ہو نے لگتی ہے۔ میرے تن بدن میں آگ سی لپک آئی۔ میری آنکھوں سے چنگاریاں پھوٹنے لگیں نفرت کی، محبت کی۔ میرا چہرہ لال ہونے لگا۔

میں باتیں بھولنے لگی۔ میں نے اس کا ہاتھ جھٹکا تو اس نے مایوس ہو کر رات کو بیک بے میں چلنے کی دعوت دی، جسے فوراً مانتے ہوئے میں نے ایک طرح انکار کر دیا۔ وہ مجھے، عورت کو بالکل غلط سمجھ گیا تھا، جو ڈھرے پہ تو آتی ہے مگر سیدھے نہیں۔ اس کی تو گالی بھی بے حیا مرد کی طرح سیدھی نہیں ہوتی۔ اس کا سب کچھ گول مول، ٹیڑھا میڑھا ہوتا ہے۔ روشنی سے وہ گھبراتی ہے، اندھیرے سے اسے ڈر لگتا ہے۔ آخر اندھیرا رہتا ہے نہ ڈر، کیوں کہ وہ ان آنکھوں سے پرے، ان روشنیوں سے پرے ایک ایسی دنیا میں ہوتی ہے جو سانسوں کی دنیا، یوگ کی دنیا ہوتی ہے، جسے آنکھوں کے بیچ کی تیسری آنکھ ہی گھور سکتی ہے۔ گے لارڈ سے باہر نکلے تو میرے اور پرنٹو کے درمیان سوا تندرستی کے اور کوئی بات مشترک نہ رہی تھی۔ میرے کھسیائے ہونے سے وہ بھی کھسیا چکا تھا۔ میں نے سڑک پر جاتی ہوئی ایک ٹیکسی کو روکا۔ پرنٹونے بڑھ کر میرے لئے دروازہ کھولا اور میں لپک کر اندر بیٹھ گئی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

اس سیریز کے دیگر حصےخزاں سردی میں آتی ہے؟نام دیو مالی: مولوی عبد الحق

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5