سیاست جو ثقافت روایت کو کھا گئی


پنجاب یونیورسٹی میں ایم ایس سی فلم اینڈ ٹی وی کے طلباء کو گزشتہ چند برسوں سے میں ’’قومی و بین الاقوامی امور‘‘ پڑھا رہا ہوں۔ صرف ایک لیکچر رہ گیا ہے۔ سمسٹر مکمل۔ ’’ڈپلومیسی، اس کا ڈھانچہ اور اس کے مقاصد‘‘ ان فنکار طالب علموں کے لئے شاید ایسا ہی خشک موضوع ہے جیسا ہمیں ریاضی معلوم ہوا کرتا تھا۔ لیکچر مکمل ہونے پر میں نے کچھ فنی گفتگو کا فیصلہ کیا۔ میں نے پوچھا آپ میں سے کتنے لوگ اندر سبھا ڈرامہ اور اس کے مصنف امانت لکھنوی سے واقف ہیں۔ جواب سکوت۔ پھر پوچھا کیا کوئی رستم و سہراب کے قصے سے واقف موجود ہے۔ ایک بار پھر خاموشی بولنے لگی۔

کلاس میں کچھ طالب علم تھیٹر آرٹ سے منسلک ہیں۔ تھوڑی دیر پہلے جو سرکھجا رہے تھے۔ موبائل کھول رہے تھے۔ ساتھ بیٹھے کو کہنیاں مار رہے تھے وہ یکسو ہو چکے تھے۔ میں نے ان سے مزیدباتیں کرنے کا فیصلہ کیا۔ کہا، کیا آپ جانتے ہیں گائیکی کو ہوا کی گرہیں باندھنے کا کام کہا جاتا ہے۔ کوئی کپڑا‘ رسی‘ دھاگہ ہو تو اس کی گرہ لگائی جا سکتی ہے۔ استاد گائیک کا گلا اور پھیپھڑے مختلف مشقیں اور ریاض کرانے کے بعد اس قدر تیار کر سکتے ہیں کہ گانے والا گائیکی کے دوران سانس کو سر میں ڈھال لیتا ہے۔ہوا کو مرضی کی آواز کے لیے استعمال کرتا ہے، مرضی کی آواز‘ لے اور سر کا راستہ بنا لیتا ہے۔

یہ دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے اور جو لوگ یہ گرہ باندھنا سیکھ لیتے ہیں وہ تخلیقی سطح پر اعلیٰ ترین درجہ پر ہوتے ہیں۔ آج فریدہ خانم‘ غلام علی‘ غلام عباس،حامد علی خان اور نیرہ نور حیات ہیں۔ کوئی ان سے پوچھ لے۔ استاد مکرم اطہر ندیم مرحوم انگریزی‘ عربی‘ فارسی‘ روسی اور فرانسیسی ادب کے سکالر تھے۔ ایک روز قوالی کے فن پر بات شروع کی۔ ڈیڑھ دو گھنٹے میں قدیم قوال خاندانوں‘ ان کے انداز گائیکی، قوالی کے لوازمات‘ موضوعات اور محافل سماع کے متعلق ذاتی مشاہدہ و تجربہ بیان کرتے رہے۔ افسوس یہ گفتگو ریکارڈنہ کر سکا۔

اطہر صاحب لوک فنکار طفیل نیازی کو میلوں ٹھیلوں میں سنتے رہے تھے بلکہ شاید طفیل نیازی اس وقت قومی سطح پر معروف بھی نہیں تھے۔ اطہر صاحب ’’پھنے خاں‘‘ کے کئی ڈائیلاگ سنایا کرتے۔ علائوالدین نے لاہور کے ایک رنگ باز کا کردار کیا عمدگی سے ادا کیا۔ علائو الدین اور آغا طالش فلمی ناقدین کی ستائش سے جانے کیوں محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ سادہ سے شلوار قمیض میں ایک بوڑھا سامنے بیٹھا تھا۔ فلموں میں طاقتور‘ فسادی اور بدمعاش دکھائے جاتے تھے، ادیب ایسے نہیں لگے۔کوئی پندرہ سال ہوئے دنیا کے سٹیج پر اداکاری کے جوہر دکھا کر رخصت ہوئے۔ آخر عمر فلم نگر اجڑ رہا تھا۔ ہنر مند اور فنکار بے روزگار ہو رہے تھے اوپر تلے بہت سی فلمیں فلاپ ہوئیں تو 1952ء کے لگ بھگ بمبئی یونیورسٹی سے ایم اے اردو کرنے والے اداکار ادیب بھی تنگدستی کا شکار ہو گئے۔

وہ ہمارے دفتر میں ملازمت کی تلاش میں آئے تھے۔ استقبالیہ کلرک نے انتظامی سربراہ کو اطلاع دی کہ پاکستان فلم انڈسٹری کے مشہور ولن ادیب ان سے ملنا چاہتے ہیں۔ فوراً بلا لیا گیا۔ ادیب صاحب بہت سادہ، منکسر المزاج اور صاف گو معلوم ہوئے۔ میں نے پوچھا کتنی فلموں میں کام کر چکے ہیں۔ بتایا 900 سے زائد۔ زیادہ تر پنجابی فلموں میں چھاتی پھلا کر اور رنگ رنگ کے ریشمی ملبوسات پہن کر اردو کے لہجے میں پنجابی بولتے۔ میں نے پوچھا اتنی فلموں میں کام کرنے کے باوجود اس قدر محتاجی کیوں۔: بھائی بات یہ ہے کہ فلم والوں کو جو بد عادات ہوتی ہیں وہ مجھ میں بھی رہی ہیں۔ بہت پیسہ کمایا کچھ فلم سٹوڈیوز میں قائم جوا خانوں میں اڑا دیا اور کچھ عورتوں پر۔

زیادہ خسارہ کہاں پر ہوا؟ تانی بیگم سے شادی سب سے بڑے گھاٹے کا سودا ثابت ہوئی۔ وہ میری ساری جمع پونجی لے گئی۔ میں نے روائتی ضروریات کو مدنظررکھ کر سوالات پوچھے اور انٹرویو شائع ہو گیا مگر ایک بزرگ فنکار کا یہ جملہ مجھے اندر سے کھا گیا’’میں تو چار ہزار کی نوکری کے لئے آیا تھا آپ نے میرا انٹرویو شروع کر دیا‘‘ اس وقت ہم لوگوں کی اپنی تنخواہیں بہت کم تھیں۔ میں مضطرب ہو گیا۔ اطہر صاحب سے کہا کہ سیاسی کالم کی جگہ اس بار میں ادیب صاحب پر لکھنا چاہتا ہوں۔ وہ ہمیشہ حوصلہ افزائی کرنے والے تھے‘ اجازت دیدی، کالم شائع ہوا۔

میں نے ادیب صاحب کی اجازت سے لکھ دیاکہ اتنا سینئر فنکار گھر میں آٹا نہ ہونے پر پریشان ہے۔ ان دنوں لاہور میں ایک نیا سیاستدان ابھرا تھا۔ ہمارے علاقے ٹائون شپ و گرین ٹائون میںآٹے کے ہزاروں تھیلے بانٹ رہا تھا۔ میں نے کالم میں اسے مخاطب کر کے ادیب صاحب کی مدد کا کہا۔ کسی واقف کار سے اسے پیغام بھجوایا جواب آیا :وہ ہمارے حلقے کے ووٹر نہیں۔ اب میں دوہرے عذاب میں پھنس گیا۔ ادیب کی بیگم فون کرتیں اور مدد کی یاد دہانی کراتیں۔ میں لکھ سکتا تھا۔ میرے پاس لفظوں کے سکے تھے اور یہ سکے بھوک کے بازار میں کھوٹے تھے۔ کچھ نہ کر سکا۔ پھر ادیب صاحب فوت ہو گئے۔ ان کی بیگم بھی بزرگ تھیں۔ جانے ان کا کیا ہوا۔

اولاد بھی شاید نہیں تھی۔ اللہ بھلا کرے سید نور کا۔ انہوں نے میرا کالم پڑھا اور وعدہ کیا کہ وہ اپنے ہر پراجیکٹ میں ادیب کے لئے کام نکالیں گے۔ سید نور نے یہ وعدہ پورا بھی کیا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ہم کسی فن اور ہنر سے لگائو رکھتے ہیں مگر روایت کی پوری لڑی اور سلسلے سے آگاہ نہیں ہوتے۔ نئی بات کہنے کے شوق نے ہمیں تاریخی شعور سے محروم کر دیا ہے۔

ڈاکٹر تاثیر نے کئی عشرے قبل کہا تھا:فنی سرگرمیاں پاکستان میں قریب قریب رک کر رہ گئی ہیں ۔سماج کے تضاد اور ان کی پیچیدگیوں نے نئے اور پرانے ادیبوں‘ شاعروں فنکاروں اور مصوروں کو الجھن میں مبتلا کر رکھا ہے۔ پرانے سوالوں کے نئے حل تلاش کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔بھٹو اس لئے بھٹو ہے کہ اس کے شعور میں سیاسی مفکرین کے ساتھ لوک فنکار تک موجود تھے جبکہ عمران خان نے ادبی اداروں‘ فنکاروں اور ثقافتی شخصیات سے خود کو دور رکھ کر معاشرے کو زندہ رکھنے والے ’’ادیب‘‘ کوابھی تک اپنے حلقے کا ووٹر تسلیم نہیں کیا۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).