بپھرے عوام کے خوفزدہ مجبور لیڈر


پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعہ بدستور جاری ہے اور فوجیں سرحدوں پر تیار کھڑی ہیں۔ اس کے باوجود مبصرین کو امید ہے کہ \"edit\"جوہری صلاحیت کے حامل دونوں ملکوں کے درمیان جنگ نہیں ہو گی۔ دونوں کو جنگ کے خطرات اور اس کے نتیجے میں سامنے آنے والے نقصانات کا اندازہ ہے۔ اگر دونوں ملکوں کے درمیان تصادم محدود اور مختصر مدت کےلئے بھی ہوا تو بھی اس کا برصغیر کی معیشت پر تباہ کن اثر مرتب ہو گا۔ خاص طور سے بھارت کو سرمایہ کاری اور بیرونی تجارت کے شعبہ میں ناقابل تلافی نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ کیونکہ دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی معیشت کے طور پر عالمی سرمایہ دار اور تمام بڑے ملک بھارت کے ساتھ تجارت اور تعلقات کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت اسی حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو سفارتی لحاظ سے تنہا اور معاشی لحاظ سے کمزور کرنا چاہتا ہے۔ جنگ کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاری کے بعد تعمیر نو کیلئے دونوں ملکوں کو کثیر وسائل صرف کرنے پڑیں گے۔ اس شعبہ میں بھارت کو بڑی آبادی اور بڑا ملک ہونے کی وجہ سے زیادہ بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔ اس کے باوجود دھمکیاں دینے اور تنازعہ کو فروغ دینے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا جاتا۔ حتیٰ کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے آج لائن آف کنٹرول پر پاک فوج کے مورچوں کا دورہ کیا اور کہا کہ پاک فوج کسی بھی جارحیت کا مقابلہ کرنے کےلئے پوری طرح تیار ہے۔

ان حالات میں امریکہ سمیت تمام ملکوں کی طرف سے پاکستان اور بھارت پر مذاکرات شروع کرنے اور بات چیت کے ذریعے تنازعات کو ختم کرنے کےلئے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ لیکن یہ دونوں ملک فی الوقت ایک دوسرے کے خلاف سفارتی اور بیان بازی کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں بھی مظاہروں ، بھارت کے خلاف نعرے بازی اور پرچم جلانے جیسے ناخوشگوار واقعات دیکھنے میں آ رہے ہیں لیکن بھارت میں صورتحال زیادہ سنگین ہے۔ حکمران بی جے پی کی حمایت یافتہ ہندو تنظیمیں مسلسل پاکستان کے خلاف شدت پسندانہ رویہ اختیار کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ فلموں سے لے کر کھیل کے میدان تک اس دشمنی کو پھیلایا جا رہا ہے اور باہمی مواصلت محدود ہو رہی ہے۔ اگرچہ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے چند روز پہلے بتایا تھا کہ دونوں افواج کے ڈی جی ایم او DGMO مسلسل ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں۔ اسی صورتحال میں پاکستان کے مشیر خارجہ امور سرتاج عزیز نے یہ مایوس کن بیان دیا ہے کہ نریندر مودی کی حکومت میں دونوں ملکوں کے مذاکرات شروع ہونے کا امکان نہیں ہے۔ البتہ امریکہ جانے والے وزیراعظم کے خصوصی ایلچی سینیٹر مشاہد حسین نے آج واشنگٹن میں یہ امید ظاہر کی کہ یہ عین ممکن ہے کہ نریندر مودی سارک کانفرنس میں شرکت کےلئے پاکستان آئیں اور دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم بغلگیر ہو جائیں۔ خیر سگالی کے اس مظاہرے کا امکان بہت ہی کم دکھائی دیتا ہے۔ دونوں ملکوں کے سربراہان حکومت اپنی سیاسی مجبوریوں کے اسیر ہیں اور کوئی ڈرامائی اقدام کرنے کا حوصلہ نہیں کر سکتے۔

نریندر مودی عام آدمی کا وکاس کرنے کا نعرہ لگاتے ہوئے برسر اقتدار آئے تھے۔ ڈیڑھ ارب آبادی کا ملک خواہ کسی بھی رفتار سے ترقی کر رہا ہو، ملک کے 50 کروڑ سے زائد انتہائی غریبوں کی زندگیوں میں کوئی وزیر اعظم عہدے کی ایک مدت میں تبدیلی لانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس لئے نریندر مودی نے سیاسی مقبولیت برقرار رکھنے کےلئے جذباتی طور سے لوگوں کا پیٹ بھرنے کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ بی جے پی کے موجودہ دورحکومت کے پہلے دو برس میں ہی متعدد ہندو تنظیموں کو اقلیتوں کے خلاف جتھے بنانے اور ناخوشگوار فضا پیدا کرنے کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔ مسلمان ہی نہیں بھارت کے سارے اقلیتی گروہ نریندر مودی کے دور حکومت میں شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ مودی حکومت نے پاکستان کے خلاف فضا ہموار کر کے ان انتہا پسند گروہوں کو قوم پرستی کی آڑ میں نفرت پھیلانے اور پاکستان کے خلاف ماحول تیار کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ اس حکمت عملی سے نریندر مودی غریبوں کے لئے اپنی حکومت کی ناکامیوں کو پس منظر میں لے جانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ وہ موجودہ صورت حال سے جلد ہی بہار اور اتر پردیش میں ہونے والے ریاستی انتخابات میں فائدہ بھی اٹھا سکیں گے۔ اور آئندہ انتخابات جیتنے کے لئے بھی میدان ہموار کرسکیں گے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی نریندر مودی کی انتخابی کامیابی میں ملک کے کارپوریٹ سیکٹر نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ اس شعبہ کو بھی ناراض نہیں کر سکتے۔ پاکستان کے ساتھ جنگ کی صورت میں تجارت اور سرمایہ کاری بری طرح متاثر ہوگی اس لئے کارپوریٹ سیکٹر مودی حکومت پر اس قسم کی طبع آزمائی سے باز رہنے کےلئے دباؤ ڈالتا رہے گا۔

نئی دہلی سرکار کی مشکلات میں اصل اضافہ 8 جولائی کو برہان وانی کی شہادت کے بعد ہوا ہے۔ بھارت کی سیاسی قیادت کشمیریوں کی بے چینی اور آزادی کےلئے ان کی شدید خواہش کا کبھی درست اندازہ نہیں کر سکی۔ اسی لئے کشمیر میں متعین سکیورٹی فورسز نے برہان وانی کو عسکریت پسند سمجھ کر مقابلے میں مار دیا۔ وہ کشمیری نوجوان نسل کے ساتھ اس کی مواصلت اور مقبولیت کا اندازہ کرنے میں ناکام رہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ تین ماہ سے مقبوضہ کشمیر کا چپہ چپہ سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔ کم عمر بچوں سے لے کر بڑی عمر تک کے لوگ کرفیو اور ہر قسم کی پابندیوں کے باوجود احتجاج کرنے کےلئے نکلتے ہیں اور بھارتی سکیورٹی فورسز بدحواسی میں انہیں منتشر کرنے کےلئے طاقت کا بے دریغ استعمال کرتی ہیں۔ گزشتہ تین ماہ کے دوران مقبوضہ کشمیر میں شہید ہونے والوں کی تعداد 115 ہو چکی ہے۔ پندرہ ہزار کے لگ بھگ لوگ زخمی ہیں۔ ان میں سے متعدد پیلٹ گنز کے فائر کی وجہ سے زخمی ہوئے ہیں۔ سفاکی اور بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نوجوانوں کے چہروں کو چھروں والے کارتوسوں سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک کارتوس کا نشانہ 12 برس کا جنید احمد بھی بنا ہے۔ وہ اپنے گھر کے لان میں کھیل رہا تھا کہ سکیورٹی فورسز کا فائر اس کو آ کر لگا۔ شدید زخمی حالت میں اسے اسپتال پہنچایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکا۔ اس بچے کی شہادت پر مظاہروں کی شدت میں اضافہ ہو گیا اور غم و غصہ سے بھرے ہوئے لوگ سڑکوں گلیوں میں فوج کے مقابلے میں نکل آئے۔ ہفتہ کو ہونے والے تصادم میں ایک سو کے لگ بھگ کشمیری زخمی ہوئے ہیں۔ بھارتی حکومت مسلسل طاقت کے زور پر کشمیریوں کی آواز کو دبانا چاہتی ہے۔ وہ حریت رہنماؤں کے ساتھ سیاسی بات چیت شروع کرنے کےلئے کوئی اقدام کرنے میں ناکام رہی ہے۔ کشمیر میں اٹھائی جانے والی ہزیمت کا بدلہ لینے اور اقوام عالم کی توجہ مبذول کروانے کےلئے پاکستان پر الزام تراشی کی جاتی ہے۔ انتہا پسند ہندو تنظیمیں اور سنسنی خیزی کا محتاج میڈیا اس صورتحال کو اشتعال اور جنگ کی کیفیت پیدا کرنے کےلئے استعمال کر رہا ہے۔

سینیٹر مشاہد حسین نے واشنگٹن کے 5 روزہ دورہ کے اختتام پر صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے اس پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اوڑی حملہ کو کشمیر کے حالات پر پردہ ڈالنے اور اس کی آڑ میں پاکستان پر دباؤ بڑھانے کےلئے استعمال کیا گیا تھا۔ اس کے بعد بھارتی لیڈر مسلسل عالمی رائے اور بھارتی عوام کو دھوکے میں رکھنے کےلئے مختلف ڈھونگ اختیار کر رہے ہیں۔ کبھی سندھ طاس معاہدہ منسوخ کرنے کی بات کرکے توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کبھی سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ کر کے کشمیر کو پس منظر میں دھکیلنے کی امید باندھی جاتی ہے۔ حالانکہ سندھ طاس معاہدہ سہ فریقی معاہدہ ہے جس میں ورلڈ بینک ضامن اور فریق ہے۔ کوئی بھی ملک اس معاہدے کو یک طرفہ طور پر ختم نہیں کر سکتا۔ اسی طرح سرجیکل اسٹرائیک کے دعویٰ کی قلعی امریکی اور مغربی میڈیا نے کھول دی ہے۔ البتہ اس قسم کے بیان دے کر بھارت کشمیر کو ایجنڈے سے ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔

بھارت کسی حد تک اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوا ہے۔ گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم نواز شریف نے بھرپور طریقے سے کشمیر کا مقدمہ پیش کیا تھا۔ اس کے علاوہ عالمی لیڈروں سے ملاقاتوں میں بھی اس معاملہ کو اٹھایا گیا تھا۔ تاہم اوڑی حملہ کی وجہ سے کشمیریوں کی حالت زار کی بجائے امریکہ اور دیگر ملک دہشت گردی اور پاک بھارت تنازعہ کی بات کرتے رہے۔ امریکی دفتر خارجہ روزانہ بریفنگ میں کشمیر کا ذکر کرتا ہے لیکن اوڑی میں حملہ کو سرحد پار دہشت گردی قرار دے کر بھارتی پوزیشن کو مضبوط بھی کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے دو رکنی پارلیمانی وفد نے واشنگٹن میں قیام کے دوران پاکستان سے ہونے والی دہشت گردی کے بارے میں امریکی حکام ، میڈیا اور تھنک ٹینکس کی پریشانی کو محسوس کیا ہے۔ یہ وفد سینیٹر مشاہد حسین اور رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر شذرہ منصب پر مشتمل تھا۔ ان دونوں پارلیمنٹرینز نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے شواہد امریکی حکام کو پیش کئے۔ لیکن ان کی طرف سے پاکستان میں انتہا پسند گروہوں کے بارے میں ہی استفسار کیا جاتا رہا۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی تنازعہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب تک بھارت جامع مذاکرات کے ذریعے تمام امور پر کھلے دل سے بات کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا، صورتحال تبدیل نہیں ہو سکتی۔ تاہم انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان انتہا پسندی کے خاتمہ کےلئے کوششیں کر رہا ہے اور کسی جہادی گروہ کی سرپرستی سرکاری پالیسی کا حصہ نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی 2 لاکھ فوج افغانستان کی سرحد کے ساتھ دہشت گردوں کا صفایا کرنے پر متعین ہے تاہم اگر بھارت کی اشتعال انگیزی جاری رہی تو پاکستان کو مجبوراً ان افواج کو مشرقی سرحد پر منتقل کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاک بھارت تنازعہ میں اضافہ ہونے سے دہشت گردوں کو ہی فائدہ ہوگا۔

پاکستان میں نواز شریف کی حکومت نے شروع سے بھارت کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ اسی لئے وزیراعظم نواز شریف نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شریک ہوئے تھے۔ اس کے بعد نریندر مودی بھی ایک بار نواز شریف سے ملنے اچانک لاہور پہنچے تھے۔ لیکن ان ملاقاتوں میں کیا گیا سیکرٹری خارجہ امور کی سطح پر مذاکرات شروع کرنے کا وعدہ ایفا نہیں ہو سکا۔ بھارت نے پہلے کشمیری حریت لیڈروں کے ساتھ پاکستانی ہائی کمشنر کی ملاقات اور بعد میں پٹھان کوٹ حملہ کو بہانہ بنا کر ان مذاکرات سے انکار کر دیا۔ نواز شریف کو ایک طرف پاناما لیکس کے حوالے سے بدعنوانی کے الزامات کا سامنا ہے تو دوسری طرف وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی صورتحال میں کشمیریوں کے حق خود اختیاری کےلئے دو ٹوک موقف اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ اوڑی حملہ کے بعد بھارتی اشتعال انگیزی کے سبب نواز شریف کی طرف سے خیر سگالی کے اظہار کے امکانات مزید محدود ہو چکے ہیں۔ وہ بھارت کے ساتھ مواصلت ، تجارت اور اعتماد سازی کو ضروری سمجھتے ہیں۔ لیکن بھارتی لیڈر جب جنگ کےلئے للکار رہے ہوں تو کوئی پاکستانی سیاسی لیڈر کمزوری کا مظاہرہ نہیں کرسکتا۔ اسی لئے نواز شریف نے بھی سخت موقف اختیار کیا ہے۔ اس کے باوجود انہیں اپوزیشن کی طرف سے بھارت کو مناسب جواب نہ دینے پر نکتہ چینی کا سامنا ہے۔

وزیراعظم نواز شریف کو بعض بنیادی اہمیت کے چینلجز کا سامنا ہے۔ وہ ان میں سے کسی بھی پہلو کو نظر انداز کرنے کا حوصلہ نہیں کرسکتے۔ انہیں قومی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے کشمیری عوام کی تحریک آزادی کی بھرپور حمایت کرنا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی انہیں یہ چیلنج بھی درپیش ہے کہ دنیا میں پاکستان کو ذمہ دار ریاست کے طور پر پیش کیا جائے اور اس پر انتہا پسندوں کی سرپرستی کا الزام عائد نہ ہو۔ اسی طرح وہ فوج کو ہر قسم کے نان اسٹیٹ ایکٹرز کے خلاف کارروائی پر آمادہ کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ فوجی قیادت پر اتنا دباؤ ڈالنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے کہ ملک میں نوخیز جمہوریت کو اندیشہ لاحق ہو جائے۔ اس لئے انہیں پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے۔

ان حالات میں پاکستان کے سیاسی لیڈر یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ کشمیر میں اٹھنے والی تحریک جاری رہے گی اور اس میں مزید شدت دیکھنے میں آئے گی تاکہ عالمی سطح پر مقبوضہ کشمیر کی انسانی صورتحال کو سامنے لا کر بھارت کو اس مسئلہ کا حل تلاش کرنے پر آمادہ کیا جا سکے۔ دوسری طرف بھارت اشتعال انگیزی، الزام تراشی اور سرحدوں پر خطرناک صورتحال پیدا کر کے کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی کارکردگی کو محدود یا مجروح کرنا چاہتا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ کسی طرح مقبوضہ کشمیر میں عوام کا احتجاج ختم ہو جائے تاکہ عالمی فورمز پر ناخوشگوار سوالات کا سلسلہ بند ہو سکے۔ دونوں ملک اپنی مجبوریوں میں بندھے حالات کے از خود بہتر ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ لیکن اس دوران اچانک ابھرنے والی کوئی چنگاری یک بیک دھماکہ خیزی کا سبب بھی بن سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2771 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments