ونی کی پکار
اور کسی کے جرم کے بدلے
پنچایت نے
مجھ کو میرے باپ سے
دگنی عمر بڑے باریش نمازی سے باندھا ہے
اور کسی کے جرم کے بدلے
بستر جبر پہ میری بلوغت کی گھڑیوں میں
خون اور آنسو ساتھ میں بہتے جاتے تھے
میری گونگی چیخیں میخیں بن کر مجھ میں گڑتی جاتیں
میں فریاد بھی کس سے کرتی
میرا حقیقی رب
میرے باریش مجازی رب کا پشتی بان تھا شاید
پہلے خون کے وقت کوئی بیٹی بھی ماں سے دور نہ ہو
تنہا درد سے چور نہ ہو
کون خدا ہے!
کب سنتا ہے!
پھر بھی سب آمین کہو
اب مجھ کو دستور ملا ہے
بستر جبر سے خون نجس کے دھبے دھو دوں
چادر بخت سے کیسے داغ اتاروں ماں
کپڑے دھونا تو مجھ کو سکھلا دیتیں!
Latest posts by عطا تراب (see all)
- اوریا مقبول جان کے نام ۔۔۔ علامہ اقبال کا مکتوبِ - 09/11/2017
- مذہبی انتہا پسندی کی ممکنہ بنیادیں - 20/03/2017
- گھٹن کے ماحول میں۔۔۔ عطا تراب کی ایک نظم - 28/01/2017
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).