مجھے یقین ہے سردی میں مارے جائو گے
سردی اترتی ہے‘ جانے آسمان کی کھڑکیوں سے کون یخ ہوائوں کو زمین زادوں کے گھر بھیج دیتا ہے۔ سردی اترتی ہے‘ تو کئی دل عشق کی گرمی سے دہکنے لگتے ہیں اور کچھ آنکھیںدہلیز پر گلیشئر ہو جاتی ہیں۔ سردی اترتی ہے تو شہر میں گرم ملبوسات کی مہنگی دکانوں پر رش بڑھ جاتا ہے۔ سردی اترتی ہے تو کئی بے لباس جسموں کو اترن کی آس آ گھیرتی ہے۔ اس بار سردی اترے گی تو ہو سکتا ہے اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے سامنے کوئی دھرنادیئے بیٹھا ہو۔ قالین سے آراستہ فرش‘ کھڑکیوں سے جھانکتے گلاب‘ سالویا اور گل دائودی کے پھول اور ہیٹر سے گرمائے کمرے میں تنہا بیٹھا آدمی سینکڑوں ڈالر میں خریدی بیسٹ سیلر انگریزی کتاب پڑھ رہا ہو۔
ایک گھر میں لحافوں کے تہہ کئے ڈھیر میں‘ کوئی غلام عباس کے افسانے پڑھ رہا ہو‘ یا کسی ڈائجسٹ کی جذبات سے بھر پور کہانی پڑھتے ہوئے بیساختہ آنکھوں سے نکل بھاگتے آنسوئوں کو آہستگی سے دوپٹے کے پلو سے صاف کر دے۔ جن کے پلو نہیں ہوتے ان کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوئوں کو خود ہی راستہ بنانا پڑتا ہے‘ بھلے آدمی کے دل پر آنسو گرتے ہیں۔ سردی آتی ہے تو ایئر کنڈیشنر بند ہو جاتے ہیں۔ پنکھے کی ہوا کاٹنے لگتی ہے پھر کھڑکیاں اور روشندان بند ہونے لگتے ہیں۔ کچھ لوگ تو بھاری پردے بھی ڈال لیتے ہیں۔ بیڈ روم ہو یا ڈرائنگ روم سارا منظر بدل جاتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے، مویشیوں کے چھپر کے گرد پرالی کے مٹھے رکھ دیے جاتے ہیں۔
لوگ کھیتوں کو جاتے ہوئے کھیس کی بکل مار لیتے ہیں۔ راستے کی دھول گرمیوں میں ہر راہ چلتے کے پیچھے دوڑتی نظر آتی ہے۔ پیدل چلنے والوں کے پیچھے‘ موٹر سائیکل سواروں کے تعاقب میں اورشرارتی بچوں کی طرح موٹر کاروں پر ہاتھ مارتی دھول سردی آتے ہی بے دم ہوجاتی ہے۔پڑی رہتی ہے‘ نہ کسی راہ رو کا تعاقب نہ کسی کا پیچھا۔ شیکسپئر کی نظم میںسردی ایک تیز روشنی کی مانند ظاہر ہوتی ہے۔ کنتھ پنچن نے کہا تھا: برف زمین کے اندر گھس رہی ہے‘ روشنی میری محبوبہ کے بالوں پر سے یوں پھسلتی ہے گویا برف مخمور ہو کرڈھلوان سے پھسلتی ہو۔ لینڈا گریگ نے لکھا: میں خاموشی کو اپنے گھر میں سجانا چاہتی ہوں مگر سردی بڑھنے پر۔
بائشے شیلی نے لکھا: نیچے سرد زمین سوتی ہے اور اوپر ٹھنڈا آسمان چمکتا ہے۔ میری اولیور کے بقول سردیوں کے موسم میں تمام نغمے‘ درختوں کی چوٹیوں پر رہ جاتے ہیں۔ ایک برفیلی شام رابرٹ فراسٹ نے کہا: یہ جنگل جس کے ہیں شاید میں اس کو جانتا ہوں۔ اس نے گائوں میں گھر بنایا ہے۔ امید فاضلی کا شعر ہے: یہ سرد رات یہ آوارگی یہ نیند کا بوجھ ہم اپنے شہر میں ہوتے تو گھر چلے جاتے سردی کا ایک رنگ معطر خیر آبادی نے باندھا ہے: وہ گلے سے لپٹ کے سوتے ہیں آج کل گرمیاں ہیں جاڑوں میں سالم سلیم کے بقول: اک برف سی جمی رہے دیوار و بام پر اک آگ میرے کمرے کے اندر لگی رہے محبوب خزاں کا انداز ملاحظہ فرمائیں: کتراتے ہیں‘ بل کھاتے ہیں‘ گھبراتے ہیں کیوں لوگ سردی ہے تو پانی میں اتر کیوں نہیں جاتے اشرف شریف: یہ جو حسین سے لوگوں سے ملتے رہتے ہو مجھے یقین ہے سردی میں مارے جائو گے جاڑے پر خوشبوئیں بدل جاتی ہیں‘ کچی مٹی کی سوندھ ٹھنڈی سانسوں میں بدل جاتی ہے۔
کیکر‘ املتاس اور موتیا کی جگہ برسیم کے پھولوں کی مہک بھر جاتی ہے۔ پرکن سونیا کی مدہوش کرنے والی گہری خوشبو‘ گیندے کے بڑے بڑے پھولوں اور جیفری کے چھوٹے چھوٹے پھولوں سے پھوٹتی خوشبو‘ ناشتے کی میز پر لسی کی جوان اور چکنی خوشبو کی جگہ چائے کافی کی چست، حواس کی کپکپاہٹ اڑاتی خوشبو۔شکر ہے ‘ لفظ کسی دھات سے نہیں بنتے‘ ورنہ پوہ ماگھ کے ٹھٹھرتے لمحوں میں ان کو چھونا مشکل ہو جاتا۔ ن لیگ ، پیپلزپارٹی اور مولانا کی وہ تقریریں تو سرد جہنم بن جائیں جو عمران خان کے دھرنے پر پارلیمنٹ کے اندر کی گئیں۔ اب وہ برفاب تقریریں تحریک انصاف مولانا اور ان کے اتحادیوں پر انڈیل دیتی۔
شکر ہے وعدے مادی ڈھانچہ نہیں رکھتے ورنہ کتنی ہی سردیاں یہ الماریوں‘ صندوقوں سیڑھیوں اور روشندانوں میں یخ بستہ رہتے۔ سردیوں میں انار‘ دھریک ‘ گل نشتر اور سمبل کے پتے نہیں ہوتے‘ سردیوں میں پائوں نہیں جلتے ۔ غریب اور امیر جب ایک جیسے ہوتے تھے، دونوں کے بدن پر جانوروں کی کھال یا درختوں کی چھال کا لباس تھا، دونوں خود شکار کما کر کھاتے۔ دونوں غاروں میں سوتے۔ پاکستان کا غریب آج بھی غاروں میں سوتا ہے اور امیر سرد ہوا کے تھپیڑوں سے محفوظ نرم بستر میں۔ ٹھنڈ ہمارے ماحول سے روٹھ کر مزاج کو سرد کرتی جا رہی ہے۔ لہجوں میں سرد مہری، آنکھوں میں سرد سفاکیت، چاند کی چاندنی بھی بدل گئی ہے۔
تاروں کی چھائوں بھی ٹھنڈی نہیں رہی،نہروں کا پانی ٹھنڈا نہیں رہا۔ عجب مشکل ہے کہ محبوب بھی مل جائے تو سینے میں ٹھنڈ نہیں پڑتی۔اب تو اس بولی پر یقین کرنے کود ل نہیں مانتا ؎ یار سج کے گلی دے وچ آیا تے اکھیاں چے ٹھنڈ پے گئی اور عقل والوں کے لئے نشانی ہے کہ نومبر میں اسلام آباد جیسی کٹیلی سردی والے شہر میں دھرنا نہیں ہوتا چاہے شکم میں کتنے ہی چولہے جل رہے ہوں۔
بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو
- ہجومی سوچ کے خلاف سماجی رد عمل کی ضرورت - 06/12/2021
- شربت کرتوت سیاہ - 27/11/2021
- پیپلز پارٹی کے امریکہ سے رابطے - 02/09/2021
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).