اپنے اپنے دکھ


 ہماری زندگی کے ہر ادوار میں کوئی نا کوئی ایسا دکھ ہوتا ہے جس پہ لگتا ہے بس ابھی نکلی جان، پر مرتے کم ہی ہیں۔  لیکن وہ جو مرتے نہیں وہ مرنے والوں  کےغم  سے کہیں زیادہ اذیت ناک ہوتے۔ جیسا کے کہا ہے ہر ادوار کے مختلف دکھ تو بالکل اسی طرح ہر فرد کا غم بھی مختلف ہوتا ہے۔ پرمختلف غم اور مختلف فرد کے غم کا خلاصہ اور نوحہ اکثر و بیشتر ایک جیسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ

عورت کے دکھ
فواد خان ، شارخ خان سے لیکر محلے کی پرچون کی دوکان والے تک اور پھر ہو چکے یا ہونے والے سرتاج تک کی بےعتنائی، بے وفائی، بے رُخی، اور کنجوسی کا غم[مزید ۔۔۔۔بے۔۔۔۔۔ والے غموں کی تلاش جاری ہےجو نا ختم ہو گی نا  ہی مکمل

محلے کی شادی کے جوڑے سے لیکر اپنی شادی کے جوڑے [یہاں نا تو ہڈیوں کے جوڑوں کی بات ہو رہی ہے نا ہی مرد عورت کے جوڑ کی بلکہ کپڑوں والے جوڑوں کی بات ہو رہی ہے]  کے کم قیمت ہونے کا دکھ اور ساتھ ہی ساتھ باقی سب کے بے ذوق ہونے کا تجزیہ۔ بعض اوقات سمجھ نہی آتا تجزیہ کر رہی ہیں، رو رہی ہیں یا پریشان ہیں البتہ کم و بیش ہر عورت اس غم میں گھلتی ہے[ گھلتی سے مراد چربی گھلنا نہی بلکہ پیسہ گُھلانا ہے]۔
اگلا دور آتا ہے اپنی دادی سے لیکر اپنے نواسہ/ نواسی، پوتا/پوتی کی دادی تک  اور اپنی ساس سے لیکر بیٹا/بیٹی کی ساس، ساتھ ہی ساتھ اپنی نند/ جیٹھانی/دیورانی سے لیکر بیٹی کی نند/جیٹھانی/دیورانی،  کے ظلم ، چالبازیوں کی وہ داستان جسے سن کر ہٹلر بھی سوچ میں پڑجائے کے میں نے تو پھر کوئی ظلم  ہی نہی کیا۔ ایسا غم جسے سنتے ہی آنکھ اشکبار ہوجائے۔ پر ہر عورت بذاتِ خود کسی [اکبری/اصغری] والی اصغری سے کم کی تعریف پہ آمادہ نہی۔

مردوں کے غم

انجلینا، ایشویریا کے حسن سے لیکرمہوش حیات کے حسن تک کو دیکھ کر آہیں بھرنا۔ تیری والی پیاری، میری والی پیاری کا موازنہ کرکے غم میں ڈوبنا کے اس ٹھرکی غریب کو ایسی والی کیسے مل گئی۔
امی سے کیسے چھپاوں سے لیکر بیوی سے کیسے چھپاوں تک کا غم۔  ایسے لوگ ہر محبت سچی محبت کے قائل ہوتے ہیں اسی لیے ہر محبت کو آخری محبت سمجھ کر کرتے ہیں۔ اسی لیے ہر بریک اپ سے نئی محبت کے درمیانی وقفہ میں جگجیت سنگھ کو سن سن کر حفط کرنا ، تیرے بھائی نے اتنا سب کیا اور چلی گئی والے قصے اپنے دوستوں کو حفظ کروانا جیسے کام بخوبی انجام دیتے ہیں۔

اُس کی حرام کی کمائی ، میری حلال کی تبلیغ میں جتُے لوگ بھی اُسی حرام والی کمائی کو پانے کے خواب میں آہیں بھرتے نہی تھکتے ۔

امی نہی مانیں گی جیسے ڈائیلاگ میں روتی شکل بنا کر محبوبا سے بریک اپ کرنے والے سچ مُچ میں بیوی نہی مان رہی پلان پھر کبھی کہ کر رو پڑتے ہیں۔

ایک بات جو مر و عورت دونوں میں مشترک ہے وہ ہےسوشل میڈیا پہ فیلینگ سیڈ کے ساتھ روتے ہوئے سٹیٹس جس کو دیکھ کر انسان کا خوامخواہ ہی دکھی ہونے اور رونے کو جی چاہنے لگتا ہے۔ عجیب ڈیپریس، غمگین سے لوگ ہیں ہر بات میں منفی سوچ، ہر بات میں تلخی، ہر لمحہ کی کوفت۔ ہنسیں تو لگتا ہے اذیت سے کراہ رہے ہیں۔ نا خود مسکراتے ہیں نا مسکراتا دیکھ پاتے ہیں۔ زندگی کسی کی بھی مکمل نہی ہوتی ہر انسان کسی نا کسی خواہش کے حصول میں دوڑ رہا ہے، پر کیا ضروری ہے کہ شکل ، سوشل میڈیا سٹیٹس، اور سوچ  میں ہر وقت بارہ ہی بجے رہیں۔ مسکرا لینے اور مسکرانے کو سرہانے سے تکلیف کم ہو نا ہو پر چہرے پہ جھریاں کم آتی ہیں اور معاشرے میں منفی فضا کم ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).