عورت اور مرد میں مکمل برابری کے بغیر جمہوریت ڈھکوسلہ ہے


یورپ کی تاریک صدیوں میں ایک مہم چلی تھی جسے وچ ہنٹ (Witch Hunt) کہا جاتا ہے۔ ساڑھے تین سو برس پر محیط اس ظلم بے اماں کا بدصورت دھبہ آج تک یورپ کے دامن پر ہے ۔ عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی غیر مشروط مخالفت انسانیت کے نام پر قرض ہے۔ پیدایش کے حادثے کی بنیاد پر امتیازانسانیت کے اجتماعی چہرے پر طمانچہ ہے۔ جو معاشرہ عورتوں کے تحفظ کے بارے میں حساس نہیں، وہاں کس منہ سے تہذیب، تمدن اور ثقافت کے ترانے گائے جاتے ہیں۔ امتیازی سلوک محض حادثاتی واقعات کا نام نہیں، یہ معاشرتی رویے ایسے ناسور ہیں جن کی جڑیں ہماری اجتماعی پسماندگی میں ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہم میں اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ ہم ان رویوں پر سنجیدگی سے غور و فکر کر سکیں۔ ہم اپنی کتاب قانون سے امتیازی قوانین اور اپنی معاشرت سے صنفی استحصال کو ختم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔

مختلف مذہبی اور ثقافتی روایات سے تعلق رکھنے والے رجعت پسند گروہ صنفی مساوات کی یکساں شدو مد سے مخالفت کرتے ہیں۔ صنفی اور تولیدی حقوق کے بارے میں ایک جیسے رجحانات رکھتے ہیں اور گوناگوں باہمی اختلافات کے باوجود عورتوں کو مردوں سے کمتر سمجھتے ہیں۔انسانی تاریخ میں عورتیں امتیازی سلوک کی بدترین صورتوں کا شکار رہی ہیں۔ درحقیقت معاشرتی، سیاسی اور معاشی میدان میں عورتوں سے امتیازی سلوک مردوں کی بہت بڑی اکثریت کے حق میں جاتا ہے۔ عدم مساوات اور امتیازی سلوک کی اس شرم ناک صورت حال نے معاشرے کو ایک بڑی استحصالی سازش کی شکل دے رکھی ہے۔ عورتوں سے بدسلوکی صرف عورتوں ہی سے ناانصافی نہیں بلکہ پوری انسانیت کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ عورتوں کی تخلیقی، فکری، پیداواری اور اخلاقی صلاحیتوں کو کچلنے سے اجتماعی انسانی امکان مجروح ہوتا ہے۔

کچھ قدامت پسند تاویل پیش کرتے ہیں کہ عورتوں کے لیے ایک مخصوص دائرہ کار اور بود و باش کے زبردستی عائد کردہ ضابطے دراصل ان کی حفاظت اور احترام کی عکاسی کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مردوں کو نصف انسانی آبادی کا دائرہ کار، صلاحیت اور امکان متعین کرنے کا اختیار کسی نے نہیں دیا۔ عورتوں اور مردوں میں واحد خط امتیاز جسمانی فرق ہے۔ تاہم حیاتیاتی وظائف اور عضویاتی فرق کو انسانی عقل، صلاحیت اور امکان کی بنیاد قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دراصل قدامت پسند ذہن عورت اور مرد میں لکیر کھینچتے ہوئے انسانی جسم کے احترام سے انکار کرتا ہے۔ اگر انسان اپنے جسم کا احترام کھو بیٹھیں اور اپنی جسمانی خصوصیات پر تفاخر یا شرمندگی جیسے احساسات کا شکار ہو جائیں تو وہ سیاسی مکالمے، تمدنی بلوغت اور اجتماعی فیصلہ سازی میں موثر آواز اٹھانے کے اہل نہیں رہتے۔ ایسے محجوب اور منفعل انسانوں پر مشتمل معاشرہ آمرانہ اور استحصالی طبقوں کو لامحدود اختیارات کا شکنجہ کسنے میں مدد دیتا ہے۔

قدامت پسند فلسفے میں عورت کے تین ہی مناسب وظائف ہیں: بچے پیدا کرنا، گھر کی چاردیواری میں کھانے پکانے ، کپڑے دھونے اور جھاڑو دینے کے فرائض انجام دینا نیز عبادت کرنا، تاریخی طور پر عورتوں کو میدان جنگ میں ہتھیار بند ہونے اور لشکر کشی کا اہل نہیں سمجھا گیا اور قدامت پسندوں کے نزدیک پوری انسانی زندگی قتل و جدال کی لامتناہی داستان کے سوا کچھ نہیں۔ لہٰذا غیر جمہوری معاشروں میں عورتیں جنگی مہم جوئی میں عدم شرکت کے باعث خود بخود دوسرے درجے کی شہری قرار پاتی ہیں اسی لیے انھیں حکومت اور معاشرے میں قیادت کے مناصب سے باہر رکھا جاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں کچھ بنیاد پرست ریاستوں میں بھی عورتوں کو رائے دہی کا حق دیا گیا ہے لیکن بنیاد پرست حکومت میں رائے دہی کا حقیقی مفہوم تو بنیاد پرست گروہ کی تائید اور رسمی توثیق کے سوا کچھ نہیں ہوتا چنانچہ ایسی غیرحقیقی جمہوریت میں ووٹ کا حق بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔

قدامت پسند فکر میں مردوں کی عورتوں پر بالادستی کی ایک سیاسی نفسیات بھی ہے۔ غیرجمہوری معاشرے کی گھریلو چاردیواری میں مرد ایک مطلق العنان سربراہ ہے۔ بیوی اور بچوں سے مرد سربراہِ خاندان کی بے چون و چرا اطاعت کا مطالبہ کیا جاتا ہے ۔ خاندانی زندگی میں اطاعت اور تسلیم و رضا کی اس ذہنی اور عملی تربیت سے حکومت کے لیے معاشرے کو مطلق العنان اطاعت کے ڈھب پر لانا آسان ہو جاتا ہے۔ گھر میں تسلیم و اطاعت کا یہ درس تعلیمی اداروں تک بھی پہنچتا ہے۔ کچھ ریاستیں تو سرے سے عورتوں کی تعلیم ہی پر پابندی عاید کرتی ہیں۔ کچھ صورتوں میں کم عمر بچوں کی تعلیم کے لیے عورتوں کی بجائے مرد اساتذہ کو ترجیح دی جاتی ہے تاکہ نوخیز طالب علم نرمی اور شفقت کی بجائے درشتی اور تُند خوئی کے عادی ہو جائیں۔ نظم و ضبط کے نام پر تجسس اور جرات اظہار جیسی صلاحیتوں کو دبایا جائے۔ تحقیق کی بجائے تقلید اور دلیل کی بجائے منقولی طریقہ تدریس کو ترجیح دی جاتی ہے۔

نصاب تعلیم میں علمی حقائق کی بجائے نظریاتی تلقین پر زور دیا جاتا ہے۔ اس مشق کا اصل مقصد تابعِ فرمان شہریوں کی کھیپ تیار کرنا ہوتا ہے۔ رجعت پسند افراد عورتوں کے احترام کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن عورتوں کو مردوں سے حقیر گردانتے ہیں۔ تاریخی طور پر پیوستہ مفادات کے پروردہ گروہ ہوائے نفس کے اسیر رہے ہیں۔ انسانی تاریخ میں جہاں رجعت پسندوں نے سیاسی اختیار حاصل کیا، وہاں عصمت فروشی اور بردہ فروشی کو فروغ ملا۔ اس میں ایک نازک سی نفسیاتی علت کارفرما ہے۔ ذہنی رفاقت اور فکری یگانگت سے خالی نفسانی ہوس کا رجحان ہمیشہ نارسائی کے احساس پر ختم ہوتا ہے۔ چنانچہ رجعت پسند ذہن اس احساس نارسائی کی تلافی تشدد اور تحکمانہ اختیار میں تلاش کرتا ہے۔

جدید فکری روایت میں عورت اور مرد میں جنسی رشتہ بھی جمہوری قدروں کے تابع ہے۔ باہم رضا مندی سے ایسا جنسی فعل جو دو افراد کی ذات کے باہم انکشاف کا نام ہے۔ ایسا انکشاف رتبے ،حقوق اور اختیار کی مساوات کے بغیر ممکن نہیں۔ رجعت پسند ذہن کلی اختیار اور مطلق حاکمیت کے خبط کا اسیر ہے۔ جنسی رفاقت ایک فرد کے دوسرے پر اختیار کا نہیں، دو تکمیلی، پیداواری اور تخلیقی اکائیوں کی سانجھ کا نام ہے۔ رجعت پسند ذہن شریک حیات سے رفاقت کی بجائے اطاعت کا طالب ہوتا ہے۔ چنانچہ اُسے عام طور پر کم عمر، مجہول، منفعل اور مطیع ساتھی کی خواہش ہوتی ہے۔ ایسا تعلق تکمیل ہوس کا دروازہ تو کھول سکتا ہے، جذبہ رفاقت کی تسکین نہیں کر سکتا۔ چنانچہ روایت پرست ذہن میں ہوس اور نفرت کے متناقض رویے جنم لیتے ہیں۔ لامحدود خواہش اور نخوت آمیز بے گا نگی کا تضاد پیدا ہوتا ہے۔

قدامت پسند فرد کی یہ داخلی خلیج ریاست کے رگ و ریشے میں سرایت کر جاتی ہے۔ عورتوں کے خلاف امتیازی قوانین بنائے جاتے ہیں۔ ان کی نقل و حرکت پر پابندی عاید کی جاتی ہے۔ انھیں تعلیم سے محروم رکھا جاتا ہے۔ ان پر روزگار کے دروازے بند کئے جاتے ہیں۔ تحقیق، تخلیق، دریافت اور پیداوار کے شعبوں میں عورتوں کی صلاحیت سے انکار کیا جاتا ہے ۔ انھیں اجتماعی فیصلہ سازی میں موثر آواز سے محروم رکھا جاتا ہے۔ رجعت پسند ذہن عورت کو ایک مکمل انسان نہیں، محض اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کا آلہ سمجھتا ہے۔ پڑھنے والوں کو اس موضوع پر درویش کی رائے سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ تاہم ہمیں اس موضوع پر بات تو کرنی چاہیے کہ جنس کی بنیاد پر معاشرے میں امتیاز اور تفریق کی لکیر کو کس طرح ختم کیا جائے تا کہ ایک منصفانہ معاشرہ تشکیل دیا جا سکے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments