مولانا کا دھرنا اور سیاسی جماعتیں


عمران خان۔ ان کے طرز حکومت اور ان کی ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کے باوجود مولانا فضل الرحمان کی اس نام نہاد ”آزادی مارچ اور دھرنے“ کو سپورٹ نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت کے خلاف احتجاج کے اور بھی طریقے ہوسکتے ہیں۔ تبدیلی پارلیمانی طریقہ کار اور جمہوری طرز عمل کے ذریعے ہو تو اچھا ہے نہ کہ زور۔ زبردستی اور غیر آئینی طریقے سے فریق مخالف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جائے یہ قطعی مناسب نہیں کہ جب جس کا جی چاہے چند ہزار افراد کو جمع کرکے دارالحکومت پر دھاوا بول دے اور پرامن شہریوں کو یرغمال بنالے جس کے نتیجے میں تعلیمی ادارے بند اور شہری زندگی ملوج ہو کر رہ جائے۔

حالیہ دھرنے۔ اجتجاج اور آزای مارچ کے مقاصد سو فیصد سیاسی تھے لیکن مولانا نے اس تحریک پر مذہبی تڑکا لگا کر ”ناموس رسالت“ کا نام دے دیا اور مدرسوں کے سادہ لوح طلبا اور مذہبی حلقوں کے مذہبی جذبات کو ہوا دے کر اس میں شامل کرلیا گیا۔ دھرنے کے شرکاء تاحال اسلام آباد کی سردی اور بھیگے موسم میں بیٹھے ہیں افسوس کہ اس دوران کئی اموات بھی واقع ہوچکی ہیں۔

اگر اجتماع اور دھرنے میں خدانخواستہ کوئی حادثہ ہوجائے۔ کوئی دیشتگردی ہوجائے تو بپھرے ہوئے مجمع کس طرح ری ایکٹ کرے گا یہ سوچ کر ہی کپکپی طاری ہوجاتی ہے۔ ایسی غیر معمولی صورتحال میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کردار کیا ہوگآ۔ کراؤڈ مینیجمنٹ ایک سائنس ہے اس سے کتنے لوگ واقف ہیں بد امنی اور بھگدڈ میں کون ہے جو اس چارجڈ کراؤڈ کو قابو کرسکے گا۔ اس صورتحال سے موقع پرست اور ملک دشمن فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ یہ عناصر افواہیں اور سنسنی پھیلا کر مظاہرین کو تشدد اور لا قانونیت کی طرف بھی لے جاسکتے ہیں جو ضروری نہیں کہ اسلام آباد تک ہی محدود رہے۔ یہ آگ ملک کے دوسرے شہروں اور قصبات تک پھیل سکتی ہے جس سے ملک میں انارکی کی صورتحال پیدا کی جاسکتی ہے۔

اس دھرنے سے پہلے مولانا خادم رضوی بھی دھرنے کے نام پر اسلام آباد کا محاصرہ کرچکے ہیں ان کے مقاصد بھی کم و بیش وہی تھے جو آج مولانا فضل الرحمان صاحب کے ہیں یہ اور بات ہے کہ مسلکی طور پر دونوں مولانا اور ان کے مکتبہ فکر میں ایک وسیع خلیج موجود ہے اور دونوں گروہ ایک دوسرے کو کافر تک قرار دیتے اور ایک ساتھ نماز بھی نہیں پڑھتے۔ سوچنے کی بات ہے کہ کس طرح اور کن اداروں کی پشت پناہی پر ایک گمنام مولوی خادم رضوی کو اچانک سامنے لایا گیا جس نے دھرنے کے دوران اداروں اور ان کے سربرایان کے خلاف ہرزہ سنائی اور بد زنانی کی لیکن بوجوہ انتظامیہ اور مقتدر حلقوں نے اپنی آنکھیں اور کان بند کرلئے مزید یہ کہ اگلے الیکشن میں ان کی جماعت کو بائیس لاکھ ووٹ بھی دلوادیے اور ایک صوبائی اسمبلی کی نشست بھی ان کے حصے میں آئی۔

دیکھنے والوں نے پھر یہ بھی دیکھا کہ رضوی صاحب کا دھرنہ کن کے اشاروں پر اور کس طرح ختم ہوا۔

یہ چشن۔ جشن مسرت نہیں تماشا ہے۔

نئے لباس میں نکلا ہے رہزنی کا جلوس۔

مولانا فضل الرحمان دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں ان کے دھرنے میں شرکاء کی اکثریت اسی نظرئیے کے پیروکار مدرسوں کے طالبعلم ہیں۔ خدانخواستہ اگر یہ مسلکی آگ ملک کے طویل و عریض میں پھیل گئی تو اس کے نتائج بہت بھیانک ہوں گے ملک مکمل طور پر تباہی۔ جاہلیت اور بربرہت کے دور میں داخل ہوسکتا ہے ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ ملک میں مسلکی فرقے باہم دست و گریباں ہوجائیں۔

مسلکی طور پر طالبان بھی دیوبندی ہیں جو اپنے مخالفین کو سوات میں سر عام کوڑے اور چوک و چوراہوں پر سوات میں پھانسیاں دیتے رہے ہیں۔ ان کے مسلک اور اقدامات کو سپورٹ کرنے والے بھی کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ مثلاً جماعت اسلامی جس کے سابقہ امیر جناب منور حسن صاحب ٹی وی پر برملا طالبان کے قہر کو ”با برکت دور“ قرار دیتے ہیں اسی انٹرویو میں وہ طالبان کو تو شہید مانتے ہیں لیکن پاکستانی فوج کے جوان کی شہادت پر سوالہ نشان اٹھاتے ہیں۔ ۔

جو فصل مرحوم ضیا الحق کے دور میں مدرسہ فیکٹری کی شکل میں لگائی گئی تھی اب وہ خوب پک کر تیار ہوچکی ہے۔ آج مدرسے کا روایتی مولوی عسرت کا مارا اور نان شبینہ کا محتاج نہیں رہا بلکہ وہ ”جہاد افغانستان“ کی برکت اور اس کے عوض ملنے والے امریکی ڈالرز سے مالا مال ہے ان کے پاس جدید ہتھیار بھی ہیں۔ ان کو کشمیر اور افغانستان کی جنگ میں گوریلا جنگ کی تربیت اور ہر قسم کے ہتھیار چلانے کی مہارت بھی حاصل ہوچکی ہے۔

انہیں ذہنی طور پر ایسا تیار کیا گیا ہے کہ وہ اپنے ”دشمن“ کے سروں سے فٹبال بھی کھیل سکتے ہیں اور حور و جنت کی آرزو میں خود کو پھاڑ بھی سکتے ہیں۔ اس سوچ کی جڑیں معاشرے کے ہر طبقے میں پھیل چکی ہیں اور اس نظرئیے کے حامل افراد ہر ادارے۔ دفتر اور گھر وں میں موجود ہیں۔ ہماری افواج میں بھی ان کی جڑیں گہری ہیں۔ ماضی میں جی ایچ کیو پر حملہ میں برگیڈیر علی کی حزب التحریر ملوث نکلی۔ جرنل مشرف پر قاتلانہ حملے اور کئی دوسری دہشتگردی میں بھی مذہبی انتہا پسند ملوث پائے گئے۔

شاید آج یہ عناصر وقتی طور پر ہائبرنیشن میں چلے گئے ہوں لیکن وقت آنے پر یہ سارے گروہ اور لشکر ایک ساتھ کھڑے ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ ان کے مفادات اور سوچ ایک ہی ہیں۔ یہ عناصر بخوبی جانتے ہیں کہ ووٹ اور جمہوری طریقوں سے کبھی اقتدار میں نہیں آسکتے لہذا انہیں انارکی ہی سوٹ کرتی ہے اور یہ ایسی صورتحال جب چاہیں پیدا کرسکتے ہیں۔ ان کے پاس مذہبی کارڈ۔ اسٹریٹ پاور اور ایک نیو سینس ویلیو موجود ہے جو کسی بھی وقت ایکٹیویٹ کی جاسکتی ہے۔

کیا فوج کے علاوہ کوئی دوسرا ادارہ اتنا منظم ہے جو ان کا مقابلہ کرسکے گا۔ یہ گروہ عوام کو مسلکی اور فقہی بنیادوں پر کسی حد تک پہلے ہی تقسیم کرچکے ہیں۔ اگر خدانخواستہ کبھی کوئی ایسی صورتحال پیدا کردی گئی اور دونوں آمنے سامنے آجائیں تو اس صورت میں فوج کا کیا کردار ہوگا۔ ہماری فوج میں ہر طبقے۔ مسلک اور مکتبہ فکر کے افراد ہیں لیکن وہ ایک نظم کے پابند ہیں سپاہی اپنی ذاتی سوچ اور خیالات سے بالاتر ہوکر حکم کا پابند ہوتا ہے لیکن بہرحال فوجی بھی اسی معاشرے کا ایک فرد ہے اور یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنے گرد وپیش کے حالات سے بے بہرہ رہے۔ ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ سپاہیوں نے اپنے کمانڈر کے احکامات پر عمل کرنے سے انکار کردیا۔ دشمن سے سرحد پر جنگ کرنا اور اپنے ہی لوگوں پر فائر کھول دینا دو الگ باتیں ہیں۔ خدا نہ کرے ملک عزیز میں کبھی کوئی ایسی سچویشن بنے۔

لمجہ فکریہ ہے کہ ملک کی لبرل اور روشن خیال جماعتیں بھی مولانا کے ساتھ اسٹیج پر نظر آرہی ہیں یورپ میں پلے بڑھے روشن خیال بلاول بھٹو اور ماضی کی انتہائی بائیں بازو کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی نیب ( حالیہ اے این پی ) کے سربراہ اسفند دیار ولی جو نامور ترقی پسند۔ لیفٹسٹ اور سرخ پوش عظیم نظریاتی رہنما باچا خان کے وارث بھی ہیں لیکن آج مفادات کی خاطر وہ بھی رجعت پسند مولویوں کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ بلاول اور اسفندیار ولی بات تو کرتے ہیں لبرل ازم اور روشن خیالی کی لیکن ان کے حالیہ عمل کو کیا نام دیا جائے۔ کیا نظریہ اور منشور کچھ نہیں۔ سیاست مفادات کا کھیل ضرور ہوتا ہے لیکن اس کے بھی کچھ تو اصول ہوتے ہوں گے۔

پاکستان پیپلز پارٹی جو کبھی بائیں بازو کی روشن خیال جماعت سمجھی جاتی تھی وہ بھٹو صاحب کے دور میں ہی اپنے افکار اور نظرئیے سے کسی حد تک منحرف ہوگئی تھی۔ اس میں شامل نظریاتی سوچ کے حامل افراد کو سائڈ لائن کرکے پارٹی پر چودھری اور وڈیروں نے قبضہ کرلیا۔ لیکن اس کے باوجود پی پی پی میں کہیں کہیں دبی دبک سی چنگاریاں موجود تھیں۔ بلاول سے کچھ امید کی جاسکتی تھی لیکن لگتا ہے وہ بھی مذہبی کارڈ کے دباؤ میں آگئے اور اب نظرئیے کو پس پشت ڈال کر مفادات کا کھیل کھیل رہے ہیں ان کے روشن خیال اور لبرل ہونے کا پول کھل کر سامنے گیا۔ پی پی پی آج وہی کچھ کررہی ہے جو کبھی مولانا کیا کرتے تھے۔

نون لیگ ہمیشہ ہی سے اسٹیبلشمنٹ کی پسندیدہ اور دائیں بازو کی پارٹی تھی۔ اس کی پیدائش اور نگہداشت فوجی بیرکوں میں ہوئی اور انہی کہ شہ پر یہ اقتار میں آتی رہی۔ یہ جماعت بھی مذہب کارڈ خوب کھیلنا چانتی ہے ان کے پاس گھاگ سیاستداں اور پنحابی کارڈ بھی موجود ہے جسے یہ وقتاً فوقتاً استعمال بھی کرتے رہتے ہیں۔ میاں صاحب کی بیماری دیکھئیے کیا رنگ لاتی ہے اگر وہ علاج یا کسی بھی وجہ سے ملک سے باہر چلے گئے تو یہ ان کی سیاسی موت ہوسکتی ہے جس کا فائدہ حکمراں جماعت کو ہوگا اور شاید حکمرانوں کی کوشش بھی یہی ہو کہ میاں صاحب اور مریم بیرون ملک چلے جائیں اور میدان صاف ہوجائے۔

عمران خانصاحب ایک امید بن کر سامنے آئے ضرور لیکن ان کی قلابازیاں اور ناقص حکمت عملی ان کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ خانصاحب کی پارٹی میں کوئی عوامی سطح کا رہنما بھی نہیں جو ہیں وہ علاوہ الزام تراشی اور لا یعنی باتوں کے کوئی تعمیری کام نہیں کررہے ہیں۔ ملک کی اقتصادی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑدی۔ خارجہ پالیسی کی کارکردگی بھی قابل ذکر نہیں۔ کشمیر کے ایشو پر اقوام عالم کو ہم قائل نہیں کرسکے یہاں تک کہ نام نہاد مسم امہ بھی اس مسئلہ پر ہمارے ساتھ نظر نہیں آئی۔ جبکہ بھارت نے کشمیر کو کمال ہوشیاری سے اپنے میں ضم کرلیا۔ میڈیا نے قوم کی توجہ کشمیر سے ہٹا کر مولانا کے دھرنے اور میاں صاحب کے پلیٹسلیٹ پر لگادی اور کشمیر کو نظروں سے اوجھل کردیا گیا۔ کون جانے مولانا کا دھرنے کا مقصد بھی یہی ہو۔ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔

آج جو کچھ مولانا فضل الرحمان مارچ اور دھرنے کے نام پر کررہے ہیں وہی کچھ ماضی میں خانصاحب کنٹینر پر کرتے رہے ہیں۔ گیس بجلی کے بل جلا دینے۔ ٹیکس نہ دینے۔ ہنڈی کے ذریعے بیرون ملک سے رقم بھیجنے اور سول نافرمانی کی ترغیب انہی نے دی تھیں۔ ٹی وی اسٹیشن اور سرکاری عمارتوں پر قبضہ ان کے ہی ہدایت پر کئیے گئے۔ اس لحاظ سے تو یہ کہنا نا مناسب نہیں ہوگا کہ مولانا کا دھرنہ اب تک کافی پر امن ہے اور مولانا نے دھرنے کے شرکاء کو کسی تشدد پر بھی نہیں اکسایا۔ کہاوت ہے جو بوؤ گے وہی کاٹنا پڑیگے اور آج خانصاحب اپنا ہی بویا کاٹ رہے ہیں۔

ٹی وی اور اخبارات خبر دے رہے ہیں کہ جوڑ توڑ اور مفاہمت کے بادشاہ چودھری برادران مولانا اور جکومت کے درمیان رابطہ کررہے ہیں لیکن مولانا اپنے بنیادی مطالبے پر ڈٹے ہوئے ہیں اور شاید واپسی کا ”باعزت“ راستہ تلاش کررہے جس سے ان کی کچھ فیس سیونگ ہوسکے۔ ہوسکتا ہے کوئی سمجھوتہ ہو بھی جائے اور مولانا واپسی کا عندیہ دے دیں لیکن اس کے بعد کیا گارنٹی ہوگئی کہ مستقبل میں کوئی اور اس قسم کی مہم جوئی نہیں کرے گا کہ آئندہ کوئی گروہ لشکر یہ جتھا اپنے سیاسی مفادات اور مطالبے کو مذہبی رنگ دے کر دارلخلافہ پر چڑھائی نہیں کرے گا اور حکومت وقت کو مستعفی ہونے پر مجبور نہیں کرے گا۔

اس ڈرامے کو اب ختم کیا جانا ضروری ہے جس سے ملک میں افراتفری اور انتشار کی صورتحال پیدا ہو اور عام شہری کے روزمرہ کے معمولات میں خلل نہ پڑے۔ کیا کوئی ایسی قانون سازی ہو سکتی ہے جس پر ساری سیاسی اور مذہبی جماعت متفق ہوں کہ آئندہ بحث و مباحثے سڑکوں پر نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں ہوں۔ دھونس دھرنے اور سڑکوں پر احتجاج کرکے حکومت کی تبدیلی کا مطالبہ نہیں کیا جانا چائیے اور نہ ہی سیاست میں مذہب کو گھسیٹا جانا چائیے۔ تبدیلی صرف اور صرف عوام کے ووٹ سے ہی کی جا ئے۔ اور یہ طے کیا جائے کہ کسی بھی طرح شہری زندگی کو نہ تو مفلوج کیا جائے اور نہ ہی عام شہری کسی قسم کی پریشانی ہو اور ملک بھر میں سیاسی تحریکیں اخلاقیات کی پاسداری کریں۔

ایک اچھی خبر سندھ حکومت نے متفقہ طور پر طلبہ یونین اور ٹریڈ یونین پر سے لگی پابندی اٹھانے کی قرار داد متفقہ طور پر منظور کرلی جو تقریباً چالیس سال پہلے ضیائی دور میں نافذ کی گئی تھی۔ تاکہ آمریت کی گود میں پروان چڑھے نام نہاد لیڈران وہی کریں جو ان سے کہا جائے اور یہی ہوا بھی۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ٹریڈ یونین اور اسٹوڈنٹ یونین سے طلبا میں سیاسی شعور بیدار ہوتا ہے اور نچلی سطح سے لیڈر شپ ابھر کر سامنے آتی ہے۔ دنیا بھر اور ماضی میں پاکستان بھی انہی یونینز نے روشن خیال اور عوامی لیڈر دیے جن کو عوامی مسائل کا ادراک بھی ہوتا ہے اور سیاسی شعور بھی جس کی مثال پیپلز پارٹی کے ابتدائی دور کے چند رہنما جیسے معراج محمد خان، معراج خالد، رشید حسین، سابق امیر جماعت اسلامی منور حسن خان۔ حسن ناصر وغیرہ تھے۔ طلباء یونین لسانیت۔ گروہی فرقہ بندی اور انتہا پسندی کے خلاف ایک موئثر ہتھیار ثابت ہو سکتی ہیں اور معاشرے سے گھٹن اور تنگ نظری کا خاتمہ اسی طرح سے ممکن ہے۔ ہم تو صرف ہیہ دعا کرسکتے ہیں۔

خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے۔

وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).