آئنہ نما: میرے ارد گرد کی کہانیاں


ظفر عمران کی کہانیوں کے مجموعے کا نام ’آئنہ نما‘  ہے، مگر مجھے لگا کہ یہ آئنہ نما نہیں بلکہ آئنہ ہے۔ ایک ایسا آئینہ جس میں سماج کا وہ چہرہ نظر آتا ہے، جو آئینے کے پیچھے ہے۔ اس کا رنگ بظاہر سیاہ، در حقیقت سرمئی ہے۔ میں اِن سب کرداروں کو جانتی ہوں، جنھیں ’آئنہ نُما‘ میں پینٹ کیا گیا ہے۔ یہ میرے دیکھے بھالے ہیں، میرے ارد گرد رہتے ہیں، بس اِن کے نام بدل دیے گئے ہیں۔

دِکھنے میں سیدھی سادہ سی کہانیاں، کسی نفسیات دان کی تشخیص لگتی ہیں۔ ماہرِ نفسیات جو مرض میں مبتلا معاشرے کو  آرام دہ کرسی پہ لٹا کے، چشمِ تصور سے مریض کے لاشعور میں جھانکتے، اس  سے حقیقت اگلواتا ہے۔ اگلے مرحلے میں وہ اپنے علم کی بنیاد پہ تجزیہ کرتا ہے، نسخے تجویز کرتا ہے۔ اگر چہ ظفر نے تصور کی آنکھ سے خوب کام لیا ہے، لیکن ہشیاری یہ دکھائی، کِہ تجزیہ کرنے اور نسخے تجویز کرنے کے امور قاری کو سونپ دیے ہیں۔ یہی بات انھیں ماہر نفسیات سے الگ کر کے مصنف کی پہچان دیتی ہے

’آئنہ نما‘ کی چودہ کہانیاں ایک ایسے کھیل کی طرح ہیں، کہ جس میں قاری نے اپنے کردار کو تلاشنا ہے، کہ وہ کون ہے، کہانی کے کس کردار کے لبادے میں ہے۔ آپ اور ہم سب کہانیاں ہی تو ہیں۔ کہیں ’مایا‘ ہے، جو اپنی آوارہ مزاجی کو نہ سمجھتے بھی اسے پورے تن من سے قبول کرتی ہے۔ کہیں ’شکیل‘ جیسے عاشق ہیں، جو اپنی ’مایا‘ کی خوشی میں، خوش ہیں پر سلگتے ہیں۔ کہیں ’کھاری‘ جو روایت سے جڑا کم زور فیصلے کرنے والا حساس مرد ہے۔ کہیں ایک ہی گھر میں رہتے رشتے ہیں، جو سوشل میڈیا کے جنگل میں بکھر کے اوجھل ہوتے جا رہے ہیں۔ کہیں کوئی بے ضمیری کی چرس پیئے، سماجی برائیوں پر گنگ بیٹھا تماشائی کی طرح ہے، تو کہیں ’ریما‘ جیسی گشتی، مگر دریا دل شہزادی، کہیں ’ہارون‘ جیسے ادیب اور کہیں نا چار ’اسما‘ جیسی، جو اداکاری کی شوقین ہے۔ کہیں ’حمید جان‘ ہے، جو امید کا نشان ہے، تو کہیں اپنے تئیں نظموں سے سماج کے گند کو ٹھکانے لگانے والوں کی داستان۔ اور کہیں ’صفی‘ جیسی دیمک اور ’نصرت‘ جیسی چوکھٹ۔

’آئنہ نما‘ کی تمام کہانیاں پڑھ کے مجھے محسوس ہوا، ظفر عمران اسڑیٹ اسمارٹ ہے۔ غالباََ اردو میں اسے ’زمانہ شناس‘ کہتے ہیں۔ یہ زمانہ شناس خانہ بدوش جہاں جہاں سے گزرا، اس منظر کو ’آئنہ نما‘ میں قید کر لیا۔

ہاں یہ بھی تو ممکن ہے، کہ ’کرشن چندر سے بڑا ادیب‘ کا ہارون، ’کوئی معنی نہیں محبت کے‘  کا کھاری، ’اپسرا‘ کا شکیل، سعید، نواز، ’کار آمد‘ کا توقیر، ’ایک پاکیزہ سی گناہ گار لڑکی‘ کا مستقیم، نجیب، ’اُس نے سوچا‘ میں چرس کے نشے میں غرق وہ بے نام کردار، ’من کا پاپی اور عشق ممنوع‘ کا صفی، حفیظ، یہ سب کردار خود ظفر عمران ہی کے ہوں!؟ ایسا ہو بھی تو کیا!

تاریخ: جب تک اُمید پرستوں کا فرقہ بڑھتا رہے۔

آئنہ نما (افسانوی مجموعہ)
مصنف: ظفر عمران
ناشر: کستوری پبلیکشن ہاوس
قیمت: 399 روپے
کتاب گھر بیٹھے منگوانے کے لیے وٹس ایپ 03009446803 پہ رابطہ کیجیے۔ 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).